غیرقانونی افغان مہاجرین کا انخلا حکومت کا انقلابی فیصلہ

تحریر : قاضی شعیب خان
وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے زیر صدارت وفاقی کابینہ کے فیصلے کے نتیجے میں 31مارچ 2025ء کی ڈیڈ لائن کے بعد صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے بین الصوبائی سرحدی ضلع اٹک سمیت پاکستان بھر سے غیر قانونی افغان مہاجرین کو حراست میں لیکر بحفاظت افغانستان بھجوانے کا سلسلہ جاری ہے۔ افغانستان میں امریکہ کی اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد 2021میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پاکستان سے سمیت دنیا کے دیگرممالک میں پناہ لینے پر مجبو ر ہوئے جن کو جنیوا کنونشن کے تحت قانونی اور معاشی تحفظ بھی دیا گیا۔ پاکستان میں 30لاکھ سے زائد افغان مہاجرین اپنے کیمپوں کے ساتھ ساتھ پشاور، اسلام آباد، راولپنڈی، کراچی، کوئٹہ اور دوسرے شہروں میں بھی آباد ہوئے۔ افغان مہاجرین میں وہ بھی شامل ہیں جو روس کی جنگ کے دوران ہجرت کر کے پاکستان میں آئے تھے۔ حکومت پاکستان کی پالیسی کے تحت ان کو افغان نیشنل کے شناختی کارڈ بھی جاری کیے گئے جن کو پاکستان میں کاروبار اور کام کرنے کی بھی سہولت دی گئی۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد کے بعد دہشت گردی ، سٹریٹ کرائمز ، منشیات سمگلنگ جیسے سنگین جرائم کی شرح میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ سرکاری ذرائع کے مطابق پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں نماز کے دوران بم دھماکے میں افغانی ملوث تھا۔ جس نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی پشت پناہی میں لاکھوں روپے کی لالچ میں معصوم شہریوں کی قیمتی جانوں کا سودا کیا۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق بعض افراد نے مبینہ طور پر جعلی شناختی کارڈ، جعلی ووٹ کا اندراج اور پاسپورٹ بھی حاصل کر رکھے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ بزنس ، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں اور سود کے غیرقانونی کاروبار میں بھی ملوث ہیں۔ جن کی تحقیقات جاری ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کی اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں داعش تنظیم بھی دوبارہ منظم ہور ہی ہے، جو خطے میں متحرک ہو کر امن و امان کی صورتحال خراب کر سکتے ہیں۔ وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کی دس ریاستوں کے گورنروں نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی ریاستوں میں ان 22ہزار افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہیں گے جنہوں نے افغانستان مشن کے دوران امریکہ کی اتحادی افواج کی مدد کی تھی۔ ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور بھارت کی مساجد میں بھی دہشت گردی کے واقعات نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ معاہدے کے باوجود افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق 3جنوری2023کی صبح ضلع صوابی پولیس نے مزاحمت پر دو دہشتگرد مار ے اور ایک دہشتگرد گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کیا۔ قبل ازیں افغانستان کی سرحد کے قریب پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں 18دسمبر2022 کو دہشت گردوں نے اپنے زیر حراست ساتھیوں کو چھڑانے کے لیے انسداد دہشت گردی کے دفتر پر حملے کے دوران سی ٹی ڈی کمپلیکس کے تمام اہلکاروں کو اسلحے کی نوک پر یرغمال بنالیا جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ افغانستان جانے کے لیے محفوظ راستہ دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ تمام حملہ آور دہشت گردوں کا تعلق کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے بتایا جاتا ہے۔ جن میں ٹی ٹی پی کا ایک مقامی کمانڈر ضرار بھی تھا۔ 20دسمبر 2022کی رات ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چودھری نے میڈیا کو بتایا کہ 35شدت پسندوں نے یہ صورت حال پیدا کی تھی جس میں سے 25سکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے کے دوران ہلاک ہوئے سات نے ہتھیار ڈال دیئے او ان کے تین ساتھی فرار ہونے کی کوشش میں گرفتار کر لیے گئے۔ اس موقع پر سکیورٹی فورسز کے ایک جونیئر کمیشن آفیسر اور دو سپاہی شہید ہوئے جبکہ دس اہلکار اور تین آفیسر بھی زخمی ہوئے۔ 22دسمبر 2022 کو آئی ایس پی آر کے مطابق سی ایم ایچ راولپنڈی میں زیر علاج بنوں کے سی ٹی ڈی کمپلکس میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کے دوران شدید زخمی سپاہی علیم خان بھی شہید ہو گیا تھا۔ بنوں میں شدت پسندوں کے اس حملے کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا سمیت پورے ملک کے عوام میں عدم تحفظ ، خوف و ہراس پیدا ہو گیا۔ یوں لگا جیسے موجودہ حکومت کی رٹ ختم ہو گئی تھی۔ خیبر پختونخوا کے عوام دہشت گردی کے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ ایک سال کے دوران اس صوبے میں دہشت گردی کے 700حملے رپورٹ ہوئے جس میں 300افراد جان بحق ہوئے۔ لیکن حیران کن امر ہے کے دہشت گردی کو روکنے کے والے سرکاری محکمہ انسداد دہشت گردی کے پاس وسائل کی شدید کمی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق صوبہ خیبر پختون خواہ کے محکمہ انسداد دہشت گردی کا ٹوٹل بجٹ صوبہ پنجاب سے نصف سے بھی کم ہے۔ جس میں سے 96فیصد اہلکاروں کی تنخواہوں میں ادا ہو جاتا ہے۔ جبکہ چار فیصد دہشت گردی کے خلاف سرکاری فرائض پر خرچ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ کے اتحادی ممالک پر مشتمل نیٹو افواج نے افغانستان میں دہشتگردی اور مذہبی انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے طالبان سے جنگ کا آغاز کیا تو صدر جنرل مشرف نے امریکی صدر کے دبائو پر پاکستان سے ہوائی اڈوں سمیت دیگر فوجی امداد کا اعلان کیا تو دہشتگردی کی آگ پاکستان تک پھیل گئی۔ جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ سرحد پار افغانستان میں شدت پسند پاکستان کی حدود میں دراندازی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ 2دسمبر 2022 کو کابل میں افغان وزیر خارجہ نے پاکستانی ہیڈ آف مشن پر دہشت گردی کے واقعہ میں ملوث ذمہ داروں کو فوری گرفتار کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ حالیہ چند دنو ں میں پاکستان افغانستا ن کے سرحدی علاقوں جنوبی وزیرستان، چمن باب دوستی پر لیویز کے اہلکاروں کو طالبان کی سرحد پار فائرنگ کے نیتجے میں شہید کیا گیا۔ گزشتہ روز بلوچستان میں ہونے والے دہشتگردی کے ایک بڑے حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرکے اپنے معاہدے کی خود نفی کر دی ہے۔ جس کے بعد پورے ملک میں دہشتگردی کے حملوں میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ ستمبر 2022کے بعد سے طالبان کے جانب سے 130سے زائد دہشتگرد حملے کیے گئے جن میں سے زیادہ تر طالبان نے ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان حملوں کے دوران پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو ٹارگٹ کیا گیا۔ وزیر اعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے ایک بیان میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مختلف دھڑے پاکستان میں سرگرم عمل ہیں جن کے ساتھ ابھی تک دہشتگردی کے خلاف جنگ بندی کے حوالے سے کوئی باضابطہ معاہدہ طے نہیں ہوا۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق سابق صدر پاکستان عارف علوی نے عمران خان کے دور حکومت میں طالبان کے دو انتہائی خطرناک دہشتگردوں مسلم خان اور محمود خان کی موت کی سزائوں کی معافی کے بعد حکومت نے انھیں پاکستانی جیلوں سے رہا کر دیا۔ جو پاکستان کی حدود میں موجود ہیں۔ خیبر پختون خوا کے علاقے سوات، ہنگو میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے عہدیداروں کی طرف سے سابق وزیر اعلیٰ محمود خان ، صوبائی وزرا سمیت دیگر اہم حکومتی شخصیات کو بھتہ کی پرچیاں موصول ہوئیں۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کی بیوروکریسی کے سا تھ ساتھ عوامی، تجارتی اور سیاسی حلقوں میں شدید عدم تحفظ اور غیر یقینی کے خدشات پائے جاتے ہیں۔ ادھر افغان طالبان کا موقف ہے کہ پاکستان کی حکومت انھیں تسلیم کرنے کے لیے مختلف فورم اور ممالک کے ساتھ لابی کرے۔ لیکن پاکستان کی جانب سے افغان طالبان کی حکومت کی تسلیم کرنے کے حوالے سے خاموشی ہے۔ طالبان حکومت کی جانب سے عالمی برادری کے تحفظات دور نہیں کیے گئے۔ سفارتی حلقوں کے مطابق پاکستان حکومت اپنے طور پر افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ نہیں کرے گا بلکہ پوری دنیا کے ساتھ مل کر فیصلہ کرے گا۔ پاکستان عالمی برادری کو افغانستا ن کے ساتھ رابطے بحال رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی مالی، اخلاقی امداد جاری رکھنے پر بھی زور دیتا ہے۔ تاکہ افغانستان کے عوام کو درپیش کوئی اقتصادی مشکلات کی وجہ سے کوئی شدید انسانی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں افغانستان وزیر دفاع سراج الدین کی ثالثی میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کے لیے مذاکرات شروع ہوئے۔ اس کے بعد قبائلی عمائدین اور علماء پر مشتمل 45رکنی جرگہ بھی افغانستان کی طالبان حکومت سے مذاکرات کے لیے گیا تھا۔ اس دوران افغانستان میں ان مذاکرات کے مخالف گروپ کی سرکردہ لیڈر عمر خالد خراسانی کو ان کے ساتھیوں سمیت قتل کر دیا گیا جس کے بعد امن مذاکرات میں تعطل پیدا ہو گیا ۔ مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے آج تک ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہوا جس پر اب مزید پیش رفت ناممکن نظر آ رہی ہے۔ تاہم پاکستان کے تما م سیاسی، غیر سیاسی اور عوامی حلقوں نے غیر قانونی افغان مہاجرین کے فوری انخلاء کے حکومت کے انقلابی فیصلے کو پاکستان کی معاشی و اقتصادی صورتحال کی بہتری کی جانب مثبت قدم قرار دیا ہے۔