ذوالفقار علی بھٹو کی تعلیمی پالیسی 1972 پہ طائرانہ نظر

تحریر : ڈاکٹر ضرار یوسف
ذوالفقار علی بھٹو کی تعلیمی پالیسی 1972 پاکستان کی تعلیمی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ یہ پالیسی اُس وقت متعارف کرائی گئی جب پاکستان کو معاشی، سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کا سامنا تھا بلکہ پاکستان ٹوٹا پھوٹا شکست خوردہ تھا جس میں صوبائی اور لسانی تعصب کو دشمن کے ایجنڈے کے مطابق بڑھاوا دیا گیا تھا عین اس وقت ذوالفقار علی بھٹو نے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے اور غریب ترین خاندانوں کو بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے انقلابی اور ناگزیر اقدامات کئے اور 1972 کی تعلیمی پالیسی تشکیل دی ۔ذوالفقار علی بھٹو کی تعلیمی پالیسی 1972 کے اہم نکات۔1۔ تعلیم کو مفت اور لازمی بنانا۔2۔ پرائمری سطح پر تعلیم کو مفت اور لازمی قرار دیا گیا۔مقصد یہ تھا کہ پاکستان کا ہر بچہ، چاہے کسی بھی طبقے سے ہو، تعلیم حاصل کر سکے۔پاکستان میں تمام نجی تعلیمی اداروں کو قومیا لیا گیا ۔ ملک بھر کے تقریباً 3,000 سکول، کالج اور دیگر تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لے لیے گئے۔پرائیویٹ سکولوں کالجوں کے اساتذہ کو سرکاری نیشنل پے سکیل کے مطابق تنخواہیں مقرر کیں اور پینشن کا حقدار قرار دیا ۔ جبکہ پرائیویٹ اداروں میں یہ سب ممکن نہیں تھا ۔اس کامقصد تعلیم کو کاروبار سے نکال کر ایک عوامی خدمت بنانا تھا۔ امیر و غریب کے لیے ایک جیسا نصاب تیار کیا گیا تاکہ پوری قوم ایک جیسے تعلیمی اور عالمی معیار کے مطابق تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہو ۔انگلش میڈیم اور اردو میڈیم کے فرق کو ختم کر دیا گیا ۔ تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم کی ترقی کے لئے کو ترجیح دی گئی تاکہ نوجوانوں کو ہنر مند بنایا جا سکے۔ خواتین کی تعلیم پر زور دیا گیا ۔ لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے مخصوص اقدامات کئے گئے۔ نصاب میں تبدیلی کر کے ایک قومی نصاب بنایا گیا تاکہ ہر علاقے میں یکساں معیار کی تعلیم دی جا سکے۔ بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پہ بھی زور دیا گیا جس میں بچوں کو سوشل ورک ، شجر کاری مہم ، ٹریفک سگنلز کی تربیت کے لئے مہینے میں دو بار سڑک پہ ٹریفک پولیس کے ساتھ ٹریفک کنٹرول کرنا سکھایا جاتا تھا ۔ ملکی دفاع میں بچوں کی دلچسپی بڑھانے اور بنیادی دفاعی عسکری تربیت دینے اور ملک کے بچوں کو اپنے ملک کے سپاہی بننے کی ترجیح پیدا کرنے کے لئے کالجوں میں این سی سی کی تربیت کا آغاز کیا گیا جو بعد میں جنرل ضیا کے دور میں بند کر دی گئی ۔ اساتذہ کی تربیت کے لیے پروگرامز شروع کئے گئے تاکہ تعلیم کی کوالٹی بہتر ہو۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تعلیم پہ جتنا زور دیا گیا کسی اور دور میں کبھی نہیں دیا ۔ اس دور میں نئی یونیورسٹیاں، کالج، انجینئرنگ کالج ووکیشنل انسٹیٹیوٹ بنائے گئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں 8 نئی یونیورسٹیاں قائم کیں ۔ جن میں یونیورسٹی آف بلوچستان ، گومل یونیورسٹی، ڈی آئی خان ، شاہ عبدالطیف یونیورسٹی، خیرپور ، مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ۔ پیپلز اوپن یونیورسٹی اسلام آباد جس کا اب نام علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ہے، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا ، این ای ڈی انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کالج کو اپ گریڈ کر کے یونیورسٹی بنایا گیا ۔ نیشنل ڈیفنس کالج اسلام آباد کو اب گریڈ کر کے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا ۔پورے ملک میں اندازاً 560 سے زائد نئے کالج قائم کئے گئے۔ یہ کالج میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں کے علاوہ ہیں ۔ بھٹو دور میں تقریباً 6 نئے میڈیکل کالج قائم کئے گئے ۔ چانڈکا میڈیکل کالج، لاڑکانہ ، بولان میڈیکل کالج، کوئٹہ ، بلوچستان کا پہلا میڈیکل کالج، خیبر میڈیکل کالج کی توسیع و اپگریڈیشن۔ 2مئی 1975 کو لاہور میڈیکل کالج قائم کیا گیا جس کا نام اب علامہ اقبال میڈیکل کالج ہے ۔ پنجاب میڈیکل کالج جو کہ 158 ایکڑ رقبے پہ 1974 کو بنایا گیا ۔ راولپنڈی میڈیکل کالج راولپنڈی 1974 میں بنایا گیا ۔ آرمی میڈیکل کالج 1977 ۔ پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز فار وومن نواب شاہ سندھ 1974 کو قائم کیا گیا ۔ اسی طرح بھٹو دور میں 2 بڑی انجینئرنگ یونیورسٹیاں قائم کی گئیں اور گومل یونیورسٹی، ڈی آئی خان (1974) جس میں انجینئرنگ فیکلٹی بھی قائم کی گئی ۔ہنر مند پیشہ وارانہ تربیت یافتہ افراد کی تربیت و ترقی کے لئے 150 ٹیکنیکل / ووکیشنل کالجز کا قیام کیا گیا ۔ان میں ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹرز، پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹس، اور انڈسٹریل ٹریننگ انسٹیٹیوٹس شامل تھے۔
خاص طور پر دیہی علاقوں میں ہنر مند افرادی قوت کی تیاری پر زور دیا گیا۔معیشت کو خود کفیل بنانے کے لیے ہنر مند نوجوان تیار کرنے کے لئے خصوصی کاوش کی گئی ۔میڈیکل اور انجینئرنگ کے شعبوں میں مقامی استعداد بڑھایا گیا ۔طبقاتی فرق کو کم کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ میڈیکل/انجینئرنگ کی تعلیم صرف اشرافیہ کے لیے نہ رہے ۔ان میں زیادہ تر جنرل ایجوکیشن کالج تھے، جنہیں دیہی و پسماندہ علاقوں تک توسیع دی گئی۔خواتین کے لیے مخصوص کالج بھی قائم کیے گئے۔ہزاروں پرائمری اور مڈل اسکولز کا قیام عمل میں آیا۔ جن کی تمام صوبوں میں مجموعی تعداد 8000 ے زائد ہے ۔زیادہ تر اسکول دیہی اور پسماندہ علاقوں میں قائم کئے گئے تاکہ وہاں شرح خواندگی بہتر ہو سکے ۔تعلیمی پالیسی کے اثرات میں صرف اداروں کی تعمیر نہیں بلکہ موجودہ اداروں کی بہتری، اساتذہ کی بھرتی، اور تعلیمی مساوات جیسے عوامل بھی شامل تھے۔ تعلیم کا بجٹ بڑھایا گیا، بھٹو کی پالیسی کا یہ بھی اہم اقدام تھا جس کے تحت طلباء کو بیس کلومیٹر تک کا سفر صرف 10 پیسے میں کر سکتا تھا اور بین الاضلاعی سفر کے لئے آدھا کرایہ پہ سفر کرتا ۔ یہ سہولت سرکاری بسوں کے علاوہ پرائیویٹ ٹرانسپورٹ ، پاکستان ریلوے پہ دستیاب تھی ۔ جبکہ تعلیمی سفر کے لئے پی آئی اے اندرون ملک اور عالمی فلائٹ کے لئے کل کرائے کا 60 فیصد کرایہ وصول کرتی تھی ۔بھٹو تعلیمی پالیسی کے تحت 1972 سے 1977 تک تین لاکھ پچاس ہزار طلباء کو اعلی تعلیم و تربیت کے لئے بیرون ملک وظائف دے کر بھیجا گیا۔ چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو شہید کی تعلیمی پالیسی پاکستان کی تاریخ کی سب سے بہترین پالیسی تھی جس کا ریکارڈ آج تک کوئی حکمران توڑنا تو درکنار پست سے پست ہوتی چلی گئی ہے ۔