امن یا مزید جنگیں

تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض )
جو بائیڈن انتظامیہ میں پوری دنیا اس حقیقت سے آگاہ تھی کہ امریکی جنگ و جدل کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور ان کے نزدیک یہی وہ پالیسی تھی جس کے باعث نہ صرف امریکہ دنیا میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھ سکتا ہے بلکہ اس کی معیشت بھی مستحکم رہے گی جبکہ دوسری طرف ٹرمپ کے خلاف ریاست بھی بہرکیف صف آراء دکھائی دیتی تھی اور کوشش یہی تھی کہ کسی طرح ٹرمپ کو اقتدار میں آنے سے روکا جائے۔ تاہم یہ خواہش پوری نہ ہو سکی اور ٹرمپ تمام تر مخالفت کے باوجود حالیہ امریکی انتخابات میں کامیاب ہو کر اقتدار سنبھال چکے، البتہ جو منشور ٹرمپ نے انتخابات میں دیاتھا، اس میں کامیابی یا عمل درآمد تاحال ہوتا دکھائی نہیں دیتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کے ابتدائی اقدامات بھی اب محض گیڈر بھبھکیاں نظر آ رہے ہیں۔ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے قبل، جو بائیڈن انتظامیہ بظاہر جنگوں کے خلاف بروئے کار ہونے کا ڈرامہ کررہی تھی لیکن کسی ایک محاذ پر بھی بائیڈن انتظامیہ کے ٹھوس اقدامات دکھائی نہیں دیئے وگرنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ عالمی طاقت کے سربراہ کے احکامات ٹھکرائے جاتے رہیں اور وہ صم بکم کی تصویر بنا رہے؟ اس رویہ کے باعث، اس گمان کو مزید تقویت ملتی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ درحقیقت یہ چاہتی ہی نہ تھی کہ کرہ ارض پر ناحق بہنے والا بنی نوع انسان کا خون رکے، وگرنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ یکے بعد دیگرے کئی ایک معاہدے ہوتے رہے لیکن کسی ایک پر بھی حقیقی معنوں میں عمل درآمد نہ ہو سکا؟ بہرکیف اس کا گلہ اب صرف بائیڈن انتظامیہ تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ ٹرمپ انتظامیہ کے کئے گئے اقدامات بھی انتہائی ناکافی ثابت ہو رہے ہیں اور افسوسناک امر یہ ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے دی جانے والی تنبیہات سمجھیں ، خواہش سمجھیں یا دھمکی، کہ اسرائیل کسی بھی صورت اپنی جارحیت بلکہ نسل کش اقدامات سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹ رہا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی چیرہ دستیاں، غزہ کے مسلمانوں پر بڑھتی جا رہی ہیں۔ ٹرمپ کے جنگ بندی معاہدے کے باوجود، حالت یہ ہے کہ اسرائیل ایک بار پھر، غزہ پر جارحیت کا مسلسل ارتکاب کرتے ہوئے، شدید ترین جنگی جرائم کر رہا ہے لیکن امریکہ کی جانب سے کوئی بھی تادیبی کارروائی سامنے نہیں آ رہی، اور بائیڈن انتظامیہ والی سٹیریو کارروائی کا اعادہ کیا جا رہا ہے جبکہ غزہ ہر گزرتے دن کے ساتھ، مٹی کا ڈھیر بن رہا ہے، بچوں، عورتوں ، بوڑھوں اور مریضوں کی شہادتیں ہو رہی ہیں جبکہ جانوروں اور پرندوں کے حقوق کی بات کرنے والے خودساختہ تہذیب کے علمبردار، سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ بھی کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کا دعویٰ کرنے والے ٹرمپ کی جانب سے امریکی معاشرے میں کئی ایک تبدیلیاں کرنے کا اثر کیا ہو رہا ہے اور کیا ہو گا، کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک کسی بھی صورت ٹرمپ کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کریں گے کہ اگر ٹرمپ معاشی طور پر اقدامات کرتے ہوئے ٹیرف کا نفاذ کریں گے تو جوابا دیگر ممالک بھی یہی اقدام امریکہ کے خلاف کریں گے اور اگر ٹرمپ دوسرے ممالک کے شہریوں کو امریکہ بدر کرتے ہیں تو اس کا خمیازہ بھی بہرصورت امریکہ کو کرنا ہی ہو گا۔
معاشی و معاشرتی صورتحال کے ساتھ ساتھ، عالمی سطح پر جنگوں کی روک تھام کے لئے، ٹرمپ کس قدر موثر ثابت ہوتے ہیں، اس کا اندازہ لگانا اب مشکل نہیں لگ رہا تاوقتیکہ کوئی غیر معمولی صورتحال وقوع پذیر نہ ہو جائے، تاحال یہی لگ رہا ہے کہ ٹرمپ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دے رہے بلکہ الٹا امریکہ کو براہ راست جنگ میں دھکیلنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ گو کہ یو کرین میں ٹرمپ کا لائحہ عمل قدرے بہتر دکھائی دیتا ہے اور ٹرمپ نے زیلنسکی کو کسی حد تک اوقات میں دھکیل کر روس سے براہ راست ماتھا لگانے سے گریز کیا ہے۔ تاہم یہ صورتحال کب تک قائم رہتی ہے، اس کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ٹرمپ کے اس روئیے سے نیٹو بالعموم اور یورپ بالخصوص متاثر ہو رہا ہے، جس کے دفاع کی ذمہ داری بہرطور امریکہ نے دہائیوں سے اٹھا رکھی ہے۔ ٹرمپ کی موجودہ پالیسیوں سے، ایک طرف نیٹو کی بقا کا سوال ہے تو دوسری طرف یورپ کی خودمختاری پر بھی سوالیہ نشان اٹھ چکا ہے کہ اس پس منظر میں جب امریکہ نیٹو سے الگ ہو جاتا ہے، روس سے اپنے تعلقات ٹھیک کرتے ہوئے، روسی پیش قدمی سے اعراض برتتا ہے تو لا محالہ روسی جارحیت کے یورپ تک پہنچنے کے امکان کو کسی صورت رد نہیں کیا جا سکتا۔ تسلیم کہ روس اپنی پیشقدمی بلاوجہ یورپ تک نہیں لے جائے گا مگر موجودہ صورتحال میں کون جانے، کب، کہاں کوئی ایسی غلطی کر بیٹھے یا جوش میں ہوش کھو بیٹھے یا کوئی تیسرا فریق ایسی شدنی چھوڑ دے جو روس کو انگیخت کر دے، اس کے متعلق کوئی بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا، پھر حالات کیا ہونگے؟ بالفرض یورپ کے محاذ پر کچھ نہیں ہوتا اور امریکہ و روس ل، باہمی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے، معاملات کو باہم سنبھال لیتے ہیں تو کیا مشرق وسطی اسی طرح جنگ کے شعلوں میں لپٹا رہے گا؟ اور کیا یہ شعلے صرف مشرق وسطیٰ تک ہی محدود رہیں گے؟ کیا مشرق وسطی کو باقی دنیا سے بالکل الگ رکھا جا سکتا ہے؟۔
یہاں ٹرمپ کے ایک غیر ذمہ دارانہ بیان سے کسی بھی صورت صرف نظر نہیں کیا جا سکتا، جو ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے فورا بعد دیا تھا کہ غزہ کے مسلمان دیگر مسلم ریاستوں میں نقل مکانی کر جائیں اور امریکہ براہ راست اس خطے کو کنٹرول سنبھال لے۔ بجائے اس کے کہ امریکہ اس خطے میں اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے، جاری اسرائیل کی گو شمالی کرتا، اس بیان سے اس کو کھلم کھلا شہ دی گئی کہ اگر اسرائیل غزہ پر کنٹرول حاصل نہیں کر سکتا تو امریکہ بذات خود یہاں قابض ہونے کو ترجیح دے گا، جس کے بعد، قلیل مدت کیلئے یہاں جنگ بندی ہوئی اور اب اسرائیل پہلے سے کہیں زیادہ طاقت کے ساتھ بروئے کار آ رہا ہے اور اس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ جلد ازجلد غزہ کو نہ صرف مٹی کا ڈھیر بنا دے بلکہ یہاں کے مسلمان اگر نقل مکانی نہیں کرتے تو انہیں ہر صورت زیر زمین منتقل کر دے۔ اسی پر بس نہیں اسرائیل انتہائی عجلت میں شام کی طرف بھی مسلسل پیشقدمی کر رہا ہے تا کہ اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو جلد از جلد مکمل کر سکے۔ دوسری طرف مسلم ممالک کے روئیے کو دیکھیں تو مقام افسوس ہے ہر ریاست یا تو اندرونی معاملات میں الجھی دکھائی دے رہی ہے یا امریکہ کی شہ پر اسرائیلی چیرہ دستیوں کی فقط مذمت تک محدود نظر آ رہی ہے، ایسی مذمت کا کیا فائدہ جو غزہ کے مسلمانوں کو ظلم و ستم و نسل کشی سے بچا نہیں سکتی؟ ایسے زبانی جمع خرچ کے بعد اگر کوئی یہ سمجھے کہ اس کی بقا ممکن ہے تو احمقوں کی جنت میں رہنے والا ہو گا کہ یہود و نصاریٰ کسی بھی مسلم ریاست کو قائم نہیں رہنے دیں گے۔ ان حالات میں اگر کوئی غزہ کا ساتھ دے رہا ہے تو وہ صرف یمن کے حوثی ہیں جو سر دھڑ کی بازی لگا کر نہ صرف اسرائیل پر حملے کر رہے ہیں بلکہ امریکی بیٹوں پر بھی میزائل داغ رہے ہیں، امریکی اپنا نقصان تو بہرحال کروا رہے ہیں لیکن پس پردہ ان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے، اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں رہا۔ جس طرح امریکی بیڑے یمن کے گرد موجود ہیں اور جس طرح یمنی حوثیوں کی جرات کو ایران کیساتھ منسلک کیا جا رہا ہے، جو گمان ٹرمپ کا ایران کے متعلق ہے، اس کے بعد یہ سوچنا کہ معاملات حل ہو جائیں گے، قطعا منطقی نہیں۔ البتہ اگر معاملت کا دائرہ کار، ایران تک پھیلتا ہے اور جیسے اسرائیل امریکی شہ پر مسلمانوں کے خلاف برائے کار ہے، ایران پر جارحیت کا ارتکاب کرتا ہے، تو کیا خطے میں مسلم ریاستیں امریکہ و اسرائیل کا ساتھ دیں گی یا ان کے پاس بچائو کا کوئی راستہ ہو گا یا وہ ایران کے ساتھ کھڑی ہونگی؟ اب تک کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو غالب امکان یہی ہے کہ خطے کی بیشتر مسلم ریاستیں، گو کہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کر چکی ہیں لیکن امریکی خواہش و احکامات کے سامنے ان کا رد عمل کیا ہو گا، کہ اسرائیل یا سمندر سے اگر ایران پر حملہ کیا جاتا ہے تو ان ممالک کی فضائی حدود کا استعمال تو بہرطور کرنا ہوگا، کوئی معمہ نہیں ہونا چاہئے لیکن کیا،اس کے جواب میں ایران بالکل خاموش رہے گا؟ ظاہری سی بات ہے کہ ایران، جو پہلے ہی مختلف محاذوں پر اسرائیل سے نبرد آزما ہے، امریکہ کو بھی آنکھیں دکھا رہا ہے، اور باضابطہ اعلان کر چکا ہے کہ وہ عراق میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنائے گا، معاملات کس طرف جائینگے، اظہر من الشمس ہے۔ علاوہ ازیں! اس تشویشناک صورتحال میں چین کی خاموشی انتہائی معنی خیز ہے کہ سب کو علم ہے کہ چین براہ راست معاملات میں لکھنے کی بجائے سفارتی طور پر ماحول کو ٹھنڈا رکھنے کی کوشش اور لائحہ عمل اختیار کرتا لیکن موجودہ صورتحال میں جب مشرق وسطیٰ کا محاذ پوری طرح گرم ہو رہا ہے، چین کا رد عمل کیا ہو گا؟ کیا وہ اسی طرح خاموش رہے گا یا پس پردہ سفارتی کوششیں جاری رکھے گا اور اگر بالفرض سفارتی محاذ پر ناکامی ہوتی ہے تو کیا اپنے تذویراتی حلیف ایران کی مدد میں میدان میں اترے گا یہ نہیں، یہ انتہائی سنجیدہ سوال ہیں اور چین کی ساکھ سے متعلق فیصلہ کن ہو سکتے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ چین کس طرح برائے کار آتا ہے؟ تاہم اس روئیے کے بعد خطے میں امن قائم ہو سکے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ دنیا سے جنگوں کے خاتمے کی امید دلا کر ہی اقتدار میں آئے لیکن موجودہ حالات کسی اور طرف اشارہ کررہے ہیں اور موجودہ امریکی روئیے سے یہ امید رکھنا کہ خطے میں دہکتی ہوئی آگ کی موجودگی میں، انصاف کا قتل کرتے ہوئے، دہرا معیار اپناتے ہوئے، دنیا کو امن دیا جا سکتا ہے، ممکن نہیں البتہ امن دائو پر لگاتے ہوئے مزید جنگوں کا امکان زیادہ نظر آ رہا ہے۔