Column

گھریلو اور صنعتی صارفین کو ریلیف

تحریر : ظہیر الدین بابر
موسم گرما کی آمد کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے گھریلو اور صنعتی صارفین کے لیے بجلی کے بلوں میں نمایاں ریلیف بلاشبہ عام آدمی کی مشکلات کم کرنے کا باعث بنے گا، اس پس منظر میں ناقدین کا سرکار کی جانب سے بجلی نرخوں میں کمی کو ناکافی قرار دینا افسوسناک ہے، حقیقت یہ ہے کہ عالمی یا علاقائی طور پر جو معاشی صورتحال درپیش ہے اس میں مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی حکومت کا اقدام حوصلہ افزا ہے، گھریلو صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں 7روپے41پیسے اور صنعتی صارفین کے لیے 7روپے69پیسے فی یونٹ کمی کا اعلان مہنگائی پر قابو پانے میں معاون بن سکتا ہے، وزیر اعظم نے دو ٹوک انداز میں قوم کو خوشخبری سنائی کہ مستقبل قریب میں بجلی کے نرخوں میں مزید کمی بھی کی جاسکتی ہے، حکومتی دعویٰ کسی طور پر غلط نہیں کہ گردشی قرضوں کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجانا اب خارج از امکان نہیں رہا چنانچہ مذکورہ چیلنج سے نمٹنے کے بعد مملکت خداداد کا ترقی کرنا ناممکنات میں سے نہیں رہا ، سچ ہے کہ عصر حاضر میں کسی بھی ملک کی سیاسی طاقت اس کی معاشی قوت ہی کے مرہون منت ہوا کرتی ہے، ایسا ممکن نہیں کہ کوئی ریاست معاشی زبوں حالی کا شکار ہو مگر علاقائی یا عالمی سطح پر وہ کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی حامل قرار پائے، یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم تواتر کے ساتھ قوم کو یہ باور کرانے کے لیے کوشاں ہیں کہ ملکی معیشت بہتر بنانے کی مہم میں قوم کا بچہ بچہ ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہو۔ وطن عزیز کی مشکل یہ بھی ہے کہ کئی دہائیوں سے ایسے سرکاری ادارے اس پر مسلط ہیں جو مسلسل خسارے میں جا رہے ہیں، مذکورہ سرکاری محکموں کی نجکاری کرنے کے حوالے سے کوششوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر جب جب کوئی فیصلہ کن گھڑی آئی تو بعض سیاسی جماعتیں اپنے محدود مفادات کے لیے نجکاری کے عمل میں رکاوٹ بن گئیں، افسوس کہ ملک کے طول و عرض میں بجلی چوری کرنے کا رجحان بدستور جاری و ساری ہے، وزیر
اعظم پکہہ چکے کہ سالانہ 600ارب کی ہونے والی چوری کا مکمل سدباب کیا جائے گا، بجلی چوری کے مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ کئی مرتبہ بجلی چوروں کی گرفتاری اور جرمانے عمل میں آئے مگر تاحال اس مافیا کے مکمل خاتمے کا چیلنج موجود ہے، اس ضمن میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وفاق کی تمام تر کوششوں کے باوجود بعض صوبائی حکومتیں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے میں ناکام ثابت ہورہی ہیں، چنانچہ ایسی صورت حال میں بجلی چوری کا مکمل خاتمہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، وزیر اعظم کہہ چکے کہ جب تک سستی بجلی دستیاب نہیں ہوگی اس وقت تک معاشی بہتری کا کوئی خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہونے والا، ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ بجلی چوری، قومی خزانے پر بوجھ بن جانے والے بعض سرکاری ادارے اور دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے شہباز حکومت کو صوبوں سے بھرپور حمایت میسر نہیں، مثلا پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے تو خبیر پختونخوا میں پی ٹی آئی اور سندھ و بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی برسر اقتدار ہے، اب پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے وفاق کے ساتھ جس قسم کے تعلقات ہیں وہ کسی
سے ڈھکے چھپے نہیں، گزشتہ روز ہی وزیر اعلیٰ کے پی کے نہ صرف وفاق سے اپنے صوبے کے بقایا جات کے لیے احتجاج کرنے کی دھمکی دی بلکہ یہاں تک کہا وہ پوری صوبائی مشینری کے ساتھ اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے، ادھر پاکستان پییلز پارٹی کینال منصوبے کے معاملہ میں وفاق کی بات ماننے پر آمادہ نہیں، پی پی پی چیئرمین ہی نہیں وزیر اعلیٰ سندھ بھی مذکورہ معاملہ پر احتجاج کرنے کی بات کر چکے۔ اب کہنے کو تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی اتحاد میں اختلاف رائے یا پھر مفادات کا ٹکرائو نئی بات نہیں مگر پاکستان کی موجودہ معاشی اور اقتصادی صورت حال کسی سیاسی تلاطم کی متحمل نہیں ہوسکتی، یہی وہ حالات ہیں جن میں وزیر اعظم عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہیں، شہباز شریف قوم کو بتا چکے کہ جون 2024ء سے لے کر اب تک 3.5روپے کی کمی ہوئی اور اب گھریلو صارفین کیلئے مزید 7.41روپے فی یونٹ کم کیے گئے ہیں اسی طرح جون 2024 ء میں صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی فی یونٹ50۔58 روپے تھی مگر پھر مشترکہ کاوشوں سے 10.30روپے کی یونٹ کم ہونے سے قیمت 48.19روپے فی یونٹ تک جا پہنچی، جس میں مزید 7.69روپے مزید کم کر دئیے گے ہیں ، افسوسناک زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس
وقت بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2393ارب روپے ہے یعنی 2کھرب 393 ارب روپے ، وزیر اعظم نے اپنی حالیہ تقریر میں قوم کو بتایا کہ سرکاری پاور پلانٹس ( جنکوز) سالہا سال سے بند پڑے ہیں وہاں ایک کلو واٹ بھی بجلی پیدا نہیں ہورہی مگر عملہ کو سالانہ اربوں کی تنخواہیں اور مراعات دی جارہی ہیں اس کا سدباب بھی جاری ہے، مثلا اس کی ایک لاٹ کو فروخت کر دیا گیا جبکہ باقی کو بھی فروخت کرکے قومی خزانے سے بوجھ کم کرنے کے حوالے سے قوم کو جلد خوشخبری ملے گی۔

جواب دیں

Back to top button