ColumnRoshan Lal

صوبائی وسائل، حقوق اور تحفظات

تحریر : روشن لعل
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے فوراً بعد یہاں مرکز اور صوبوں کے درمیان صوبائی وسائل پر حق، اختیار اور تقسیم کے معاملات پرجو کشمکش شروع ہوئی وہ آج بھی تقریباً جوں کی توں ہے۔ بعض اوقات حکومتوں کی تبدیلی سے اس کشمکش کی نوعیت کسی حد تک تبدیل ہو جاتی ہے مگر یہ کشا کشی کسی بھی دور میں مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکی۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد یہ تصور کیا گیا تھا کہ صوبائی وسائل پر حق اور تقسیم کے سلسلے میں مرکز اور صوبوں کی حدود طے ہو جانے کے بعد اب یہ کشمکش مزید جاری نہیں رہ سکے گی مگر پی پی پی کی حکومت ختم ہونے کے بعد یہ تصور زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ 2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں جونہی مسلم لیگ ن نے اقتدار سنبھالا، صوبوں کے وسائل پر اختیار اور تقسیم کے تنازعات نے پھر سے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ اس تلخ حقیقت کے باوجود کہ پاکستان کے وجود میں سے بنگلہ دیش کی پیدائش مذکورہ تنازعات کے بروقت طے نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی، ان تنازعات کے خاتمے کے لیے بہت کم سنجیدہ رویوں کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ یاد رہے کہ تمام پارلیمانی پارٹیوں کے اتفاق رائے سے تیار اور منظور کردہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت یہ طے ہوا تھا کہ صوبوں کو ان کی جغرافیائی حدود کے اندر موجود قدرتی وسائل پر مرکز کے ساتھ مشترکہ، مساوی اور بعض معاملات میں انفرادی حق بھی حاصل ہوگا۔ عموماً دیگر صوبے تو اپنے قدرتی وسائل کو آئینی حق کے مطابق اپنے تصرف میں لانے کا مطالبہ کرتے دکھائی دیئے مگر پنجاب اکثر اسطرح کے مطالبات سے لاتعلق نظر آتا رہا۔ 2017ء میں شاید پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ پنجاب نے بھی دیگر صوبوں کے ساتھ مل کر مرکز سے آئین کے آرٹیکلز 154، 158اور 172(3)پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا جو صوبوں کو ان کے وسائل پر اختیار کا حق دیتے ہیں۔ اسی تسلسل میں زیادہ تر چھوٹے صوبوں کی حکومتیں مشترکہ مفادات کونسل اور بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کے ذریعے مرکز سے یہ معاملہ طے کرنے کی کوشش کرتی نظر آئیں کہ معدنیات، خام تیل اور گیس کی نئے ذخائر کی تلاش کے لیے صوبوں کو سرمایہ کار کمپنیوں کے ساتھ خود معاملات طے کرنے کا اختیار دیا جائے۔ اس طرح کی کوششوں کے نتیجے میں مرکز نے چاروں صوبوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک ریگولیٹری فورم تشکیل دینے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے یہ کہا کہ اس فورم میں موجود صوبوں کے نمائندے وزارت پٹرولیم کے ڈائریکٹر جنرل کی مشاورت سے قدرتی وسائل کی تلاش کے نئے معاہدے کریں گے۔ اس سلسلے میں مذاق یہ ہوا کہ چاروں صوبوں کے نامزد نمائندوں نے مرکز میں رپورٹ تو کردی مگر مرکزی حکومت نے انہیں نہ تو کبھی کسی میٹنگ میں طلب کیا اور نہ ہی انہیں اس طرح تنخواہیں دیں جس طرح نیپرا اور اوگرا کے نامزد صوبائی ممبران کو دی جاتیں ہیں۔ اس صورتحال میں پنجاب اور سندھ نے ریگولیٹری فورم کے لیے بھیجے گئے اپنے نمائندے واپس بلا لیے جس کے بعد یہ فورم قائم نہ رہ سکا۔
قدرتی وسائل پر حق اور اختیار کے جن معاملات پر صوبے گزشتہ حکومتوں کے دور میں اپنے تحفظات مرکز کے سامنے پیش کرتے رہے ان معاملات پرچھوٹے صوبوں خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کا موقف آج بھی جوں کا توں نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے یہ نظر آیا کہ جب بھی بلوچ علیحدگی پسندوں کی وجہ سے حالات خراب ہوئے، تب مرکز نے صرف بلوچستان کی حد تک یہ کہا کہ آئندہ صوبائی حکومت کی مشاورت اور عمل دخل کے ساتھ صوبے میں میں قدرتی وسائل کے نئے وسائل کی تلاش اور پرانے مقامات کی ترقی کا کام کیا جائے گا۔ عمران خان کی حکومت کے دوران جنوری 2019ء میں کوئٹہ میں منعقدہ ایک میٹنگ کے بعد اس وقت کے وزیر پٹرولیم غلام سرور خان نے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کی موجودگی میں میڈیا کے سامنے مذکورہ بیان جاری کیا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مذکورہ میٹنگ میں یہ فیصلہ بھی ہوا تھا کہ آئندہ وفاق اور بلوچستان کے نامزد نمائندوں پر مشتمل ایک گروپ صوبے میں قدرتی وسائل کے نئے ذخائر کی تلاش کے متعلق فیصلہ کیا کرے گا۔ اس مجوزہ مشترکہ ورکنگ گروپ کے متعلق یہ بھی کہا گیا تھا کہ بلوچستان کے حقوق کا مکمل تحفظ کرتے ہوئے سوئی مائننگ لیز کے لائسنسوں کے اجرا جیسے معاملات بھی اسی گروپ کا مینڈیٹ ہوگا۔ اجلاس میں ورکنگ گروپ کو ایک مہینے کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا گیا تھا لیکن بعد ازاں اس حوالے سے کچھ بھی منظر عام پر نہ آیا۔
گوکہ ماضی میں قدرتی وسائل پر اختیار کے حوالے سے سندھ اور بلوچستان کے تحفظات تقریباً ایک جیسے رہے مگر مرکز نے یہ تحفظات دور کرنے کے لیے بلوچستان حکومت کی طرف جس ظاہری میلان دکھایا وہ سندھ کی حد تک کم ہی نظر آیا۔ سندھ کی زرعی معیشت کا تمام تر انحصار دریائے سندھ کے پانی پر ہے۔ سندھ میں حالیہ دنوں کی طرح اکثر ربیع کے تمام تر اور موسم خریف کے آغاز پر پانی کی کمی کے مسئلے پر آوازیں اٹھتی رہتی ہیں ۔ اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی کوششیں کرنے کی بجائے پنجاب میں نئی نہریں نکالنے کی کارروائیاں سامنے آرہی ہیں جن پر مرکز پراسرار طور پر خاموش نظر آتا ہے۔
عمران خان کے دور حکومت میں ایک موقع پر سندھ میں بغیر کسی پیشگی اطلاع کے گیس کی فراہمی میں حد درجہ کمی کی وجہ سے تمام صوبے اور خاص طور پر کراچی میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ سندھ کو گیس سپلائی کرنے والی سوئی سدرن گیس کمپنی کے ترجمان نے گیس فیلڈ میں فنی خرابی کو گیس کی پیداوار اور فراہمی میں کمی کی وجہ بتایا جبکہ گیس فیلڈ میں گیس کی پیداوار کرنے والے پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کے ترجمان نے اس موقف کی نفی کرتے ہوئے کہا تھاکہ نہ تو گیس فیلڈ میں کوئی فنی خرابی اور نہ ہی پیداوار کم ہوئی ۔ اس دوران سوئی ناردرن گیس کمپنی کی فراہمی کے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں معمول کے مطابق گیس کی لوڈ شیڈنگ تو ہوتی رہی مگر گیس کی کمی کا بحران اس طرح ظاہرنہ ہوا جس طرح 70فیصد گیس پیدا کرنے والے صوبے میں تھا۔ اس طرح کی امتیازی سلوک کا حوالہ دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما تاج حیدر نے 5جنوری 2019ء کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس دوران مرکز پر الزام لگایا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت سندھ کے حصے کے مالیاتی وسائل میں 90بلین روپے کی کمی کردی گئی ہے جس کی وجہ سے صوبے کے ترقیاتی کام رک گئے ہیں۔ تاج حیدر کے اس الزام کا معقول جواب دینے کی بجائے ماضی میں عمران خان کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے اسد عمر نے یہ کہا تھا کہ سندھ میں کرپشن کے امکانات کی وجہ سے مرکز انہیں فنڈز جاری نہیں کرتا۔
سطور بالا میں جن باتوں اور معاملات کی نشاندہی کی گئی ہے وہ معاملات مخصوص سیاسی جماعتوں کی حکومتوں سے زیادہ مرکز کے عمومی رویوں اور صوبوں کے عوام کی زندگیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ وطن عزیز میں حالات کی بہتری کے لیے ضروری ہے مرکز روایتی متحارب رویے اختیار کرنے کی بجائے تمام صوبوں کے ساتھ یکساں پالیسی اختیار کرتے ہوئے اٹھارویں ترمیم کی روح کے مطابق معاملات طے کرے۔

جواب دیں

Back to top button