Column

سید العابدین، بدرالعارفین، شیخ الاعظم حضرت حافظ خواجہ عثمان ہارونی

تحریر : ضیاء الحق سرحدی
منم عثمان ہارونی کہ یار شیخ منصورم
سلامت مے کند خلقے و من بردار می رقصم
برصغیر میں اسلام کی ترویج و ترقی میںبزرگان دین کا کردار بڑا اہم ہے جن کی بدولت یہ خطہ اسلام کی لازوال دولت سے مالا مال ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے ولیوں کی تعریف اپنی کتاب قرآن مجید میں ان الفاظ کے ساتھ کی ہے ۔ ترجمہ: ’’ بیشک اللہ تعالیٰ کے ولیوں کو نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہو نگے ‘‘۔ دوسری جگہ ارشاد ہے ’’ جس نے میرے کسی ولی کی مخالفت کی میری طرف سے اس کے خلاف اعلان جنگ ہے ‘‘۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرشتوں میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے کام پر لگا دیا ہے اور ان کی مخالفت کر نا کسی طرح جائز نہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ قانون جن و انس میں جاری و ساری ہے اور انسانوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض لوگوں کو مخصوص اختیارات تفویض کر کے مقرر کئے جاتے ہیں۔ ولی اللہ کے معنی ہیں اللہ کا دوست، اللہ کے دین کا وارث، ولی اللہ متقی اور پرہیز گار، پرہیز گار کے معنی بچنا اور رکنا یعنی اللہ کے ولی ہر برے کام سے بچتے رہتے ہیں اور ہر کام سے دور رہتے ہیں اور ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے رب کریم خوش ہو تا ہے اور سنت مصطفیٰ ﷺ کی مکمل پیروی کرتے ہیں اس فانی دنیا میں بے شمار ایسے بندگان خدا تشریف لائے جنہوں نے اپنی سیرت و کردار اور زہد و تقویٰ کی بدولت رشد و ہدایت کی ایسی کرنیں بکھیریں جن کی تا با نیاں آج بھی لوگوں کے قلب کو منور کر رہی ہیں اور اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی ان بزرگ ہستیوں کے مزارات فیوض و برکات اور زیارت خاص و عام کا باعث بنے ہوئے ہیں اور مرکز انوار کی حیثیت رکھتے ہیں ان عظیم المرتبت ہستیوں کا تذکرہ اس مختصر مضمون میں تحریر کر نا ناچیز فقیر اور خاکپائے مرشد کے بس کی بات نہیں یہ میری خوش نصیبی ہے اور میرے پیر و مرشدی حضرت سیدمستان شاہ سرکار حق بابا کی مجھ پر خاص نگاہ کرم ہے کہ آج ایک مستند معتبر اور اہم ہستی کا ذکر جمیل سپرد قلم کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے ۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس اللہ سرہ العزیز علوم شریعت و طریقت و حقیقت و معرفت میں امام عصر تھے آپ کی کنیت ابی النور یا ابو المنصور تھی۔ صوفیا ء آپ کو سید الاولیائ، حجت الاتقیا ء ، برگزیدہ پروردگان ، صاحب کشف و کرامات اور بادشاہ عالم مشاہدات کے القاب سے مخاطب کرتے ہیں ۔ خرقہ فقرو ارادت آپ کو حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی سے عطا ہوا تھا ۔ آپ کی ولادت 526ھ کو ہوئی آپکی جائے پیدائش ہونے کا فخر نیشا پور کے ایک قصبہ ہارون کو حاصل ہے ۔ آپ کا جو منظور نظر ہوا وہ صاحب کشف و کرامت ولی اللہ ہو گیا آپ 70برس تک مجاہدہ نفس اور ریاضت میں مشغول رہے اور اس درمیان میں سیر ہو کر نہ پانی پیا نہ کھانا کھایا اور نہ رات کو سوئے چار پانچ فاقہ کے بعد تین لقمہ اور کبھی چار یا پانچ لقمے حلق سے فرد کر لیتے روپے پیسے کو آپ نے کبھی بھی ہاتھ نہیں لگا یا آپ فر مایا کرتے تھے کہ افسوس ہے اس درویش پر جو رات کو سوئے اور دن کو سیر ہو کر کھانا کھائے آپ مستجاب الدعوات تھے ۔ جو کچھ دعا مانگتے بارگاہ ایزدی سے قبول ہو تی آپ حاصل قرآن بھی تھے اور ہر دن اور رات کو ایک ایک ختم ِقرآن کر لیتے آپ صاحب سماع تھے ( سماع فیضان حق ہے ’’ کشف المحجوب‘‘) اور حالت سماع میں اتنا روتے کہ لوگوں کو تعجب ہو تا کبھی کبھی نعرہ مار کر بے ہوش ہو جاتے۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی سماع کا ازحد شوق رکھتے تھے اور بکثرت سنتے تھے جب بعض علمائے ظواہر نے بادشاہ وقت سے شکایت کی تو بادشاہ نے آپ کو سماع سے منع کر دیا لیکن آپ نے جوش میں آکر فرمایا کہ سماع اللہ کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے حالت سماع میں بندہ اور خدا کے درمیان پردے اُٹھ جاتے ہیں سماع ہرگز ہرگز بند نہیں ہوگا کس میں قدرت ہے کہ مجھے سماع سے روکے میں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ قیامت تک میرے مرید اور فرزند سماع سنتے رہیں
(باقی صفحہ5پر ملاحظہ کیجئے)
اور کسی کو اہل سماع پر ظفر حاصل نہ ہوگا آپ سات سات دن تک مسلسل سماع سنتے رہتے تھے ایک دفعہ بادشاہ وقت کے حکم سے مجلس مناظرہ منعقد ہوئی لیکن آپ کی کرامت سے تمام مخالف علماء کی زبانیں بند ہو گئیں اور ان کا سارا علم سلب ہو کر رہ گیا اور اُمی محض بن گئے لیکن جب انہوں نے توبہ کی اور معافی مانگی تو ان کا علم لوٹ آیا اور بحث و مباحثہ سے تائب ہوئے۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی جب نماز میں مشغول ہوتے تو غیب سے آواز آتی کہ اے عثمان میں نے تمہاری نماز کو پسند کیا اور قبول کیا مجھ سے جو کچھ مانگنا چاہتے ہو مانگو تا کہ میں تمہیں دوں حضرت خواجہ جب نماز سے فارغ ہوتے تو فرماتے الٰہی میں تجھ سے تجھ ہی کو مانگتا ہوں، آواز آتی، اے عثمان ! تمہاری التماس قبول ہوئی، اس کے علاوہ اور جو کچھ بھی مانگنا ہے وہ بھی مانگو تا کہ تمہیں دیا جائے۔ آپ فرماتے، الٰہی! امت محمد ﷺ میں جو تیرے خطا کار ہیں ان کو معاف کر دے اور بخش دے، آواز آتی کہ تیس ہزار گنہگاران امت محمدیہ کو تیری سفارش پر بخش دیا گیا۔
حضرت خواجہ ہر نماز کے بعد یہی دعا فرماتے اور ہر با ران کو یہی جواب ملتا۔ جب خواجہ عثمان ہارونی نے حضرت شیخ حاجی شریف زندنی سے خود کو اپنے حلقہ ارادت میں شریک کر لینے کی ان سے درخواست کی تو حضرت شیخ نے بڑی شفقت اور مہربانی سے قبول فرما یا اور کلاہ چہار ترکی سرپر رکھ کر بیعت کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ بیعت کے بعد حضرت خواجہ صاحب سخت قسم کی ریاضت اورعبادت میں مشغول ہو گئے تیس برس کے بعد حضرت شیخ حاجی شریف زندنی نے ان کو اسم اعظم جو سینہ بہ سینہ چلا آرہا تھا سکھلا کر خلافت اور اجازت سے سر فراز فر ما یا اور پھر حضرت خواجہ پر علم صوری و معنوی منکشف ہو گیا۔ سلسلہ چشتیہ کا آغاز امیر المومنین حضرت علیؓ ( مقام مدفن نجف اشرف ) سے ہوتا ہے، حضرت علیؓ نے حضرت خواجہ حسن بصری کو خرقہ خلافت عطاء کیا حضرت حسن بصری ( مقام مدفن بصرہ) ایک عظیم محدث تھے اور درجہ امامت پر اس طرح فائز تھے کہ امام اعظم حضرت حنیفہ اور حضرت امام مالک بھی آپ کا احترام کرتے تھے اور آپ کو تمام اولیائے کرام کے درمیان یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کی والدہ محترمہ ام المومنین حضرت ام سلمہ کی کنیز تھیں بچپن میں جب حضرت حسن بصری کی مادر گرامی کسی کام میں مصروف ہوتیں اور آپ رونے لگتے تو ام المومنین آپ کو گود میں اٹھا کر اپنا دودھ پلادیتیں آپ کے کلام میں جو غیر معمولی وضاحت اور حکمت پائی جاتی ہے وہ سب اسی مقدس شیرخوارگی کا صدقہ تھا جب آپ دنیا سے رخصت ہونے لگے تو آپ نے حضرت شیخ عبدالواحد بن زیدکو خرقہ خلافت عطاء کیا حضرت شیخ عبدالواحد بن زید 177ھ میں دنیا سے رخصت ہوئے، آپ بصرہ میں مدفن ہیں ہوئے تو آپ نے اس عالم خاکی کو الوداع کہا تو سلسلہ چشتیہ کی یہ امانت حضرت فضیل بن عیاض کو منتقل ہوگئی حضرت فضیل بن عیاض کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ فقہ میں امام اعظم حضرت ابو حنیفہ کے شاگرد تھے روایت ہے کہ آپ اپنے عہد و شباب میں رہزنوں اور قزاقوں کے سردار تھے پھر جب ہدایت غیبی نصیب ہوئی تو اولیاء کی سرداری کے منصب پر فائز ہوئے خلیفہ ہارون الرشید آپ کے بارے میں کہا کرتا تھا حقیقتاً ’’ بادشاہ تو فضیل بن عیاض ہیں ‘‘۔ 187ھ میں حضرت فضیل بن عیاض کا انتقال ہوا ( آپ مکہ معظمہ میںمدفن ہیں) آپ نے انتقال سے پہلے خرقہ خلافت حضرت ابراہیم بن ادھم بلخی کو منتقل کیا حضرت ابراہیم بن ادھم بلخ کے حکمران تھے مگر جب آتش عشق نے آپ کے دل و دماغ کو جلا ڈالا تو تاج و تخت چھوڑ کر قصر شاہی سے یہ کہتے ہوئے نکل آئے ’’ اے اللہ! میں حاضر ہوں، اے اللہ ! میں حاضر ہوں‘‘، آپ 265ھ یا 267ھ میں دنیا سے رخصت ہوئے ( آپ بغداد یا شام میں مدفن ہیں) وفات سے چند روز پہلے آپ نے حضرت خواجہ حافظ حذیفہ بن مرعشی کو خرقہ خلافت پہنایا آپ کا خاندانی نام خواجہ سدیدالدین تھا آپ مرعش کے رہنے والے تھے جو شام کے قریب ایک آباد شہر ہے اسی لئے آپ مرعشی کہلاتے ہیں آپ نے سات سال کی عمر میں نہ صرف قرآن کریم حفظ کر لیا تھا بلکہ ساتوں مشہور ’’ قراتوں‘‘ میں بھی مہارت حاصل کر لی تھی حضرت بایزید بسطامی نے آپ کو دیکھتے ہی فرمایا تھا ’’ حذیفہ! مردِ خدا ہیں اور جوان ہو کر بہت سے لوگوں کو منزل منقصود تک پہنچائیں گے‘‘۔ آپ نے پیرانِ چشت کا خرقہ حضرت امین الدین بھیرہ بصری کو منتقل کیا اور عالم خاکی سے عالم بالا کی طرف تشریف لے گئے( حضرت خواجہ حافظ حذیفہ بن مرعشیبغداد یا شام میںمدفن ہیں) حضرت امین الدین بھیرہ بصری نہایت عالم و فاضل بزرگ تھے آپ کو ’’ ناصر شریعت‘‘ اور ’’ امام طریقت‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے آپ نے سلسلہ چشتیہ کی یہ امانت حضرت شیخ ممشاد علی دینوری کے سپرد کی اور سفر آخرت پر روانہ ہو گئے آپ ایک امیر و کبیر خاندان سے تعلق رکھتے تھے مگر جب آپ درویشی کی طرف راغب ہوئے اور ساری دولت محتاجوں میں تقسیم کر دی یہاں تک کہ اپنے افطار کیلئے بھی کوئی چیز باقی نہ رہنے دی 14محرم 299ھ کو معرفت کا یہ آفتاب ضیاء بار بجھ گیا اور آپ بغداد یا شام میں مدفن ہیںمگر غروب ہونے سے پہلے حضرت شیخ ممشادنے پیران چشت سے حاصل کردہ روشنی حضرت ابو اسحاق شامی چشتی کو منتقل کر دی آپ شام کے رہنے والے تھے یہ پہلے بزرگ ہیں کہ جن کے نام کے ساتھ چشتی کا لفظ نظر آتا ہے چشت خراسان کے ایک مشہور قصبے کا نام ہے حضرت ابو اسحاق شامی چشتی ( مقام مدفن شام ) نے وصال سے پہلے حضرت ابو احمد ابدال چشتی کو خلافت عطا کرتے ہوئے فرمایا ’’ ابو احمد! مخلوق خدا بیمار ہے اس کی مسیحائی کرو‘‘، آپ 355ھ میں دنیا سے رخصت ہوئے اور آپ قصبہ چشت ’’ ہرات‘‘ میں مدفن ہیں آپ نے اپنے صاحبزادے حضرت شیخ ابو محمد چشتی کو پیران چشت کی امانت منتقل کی آپ کے بعد حضرت ابو یوسف چشتی اس روحانی خاندان کے وارث قرار پائے آپ نے945ھ میں وفات پائی آپ قصبہ چشت ’’ ہرات‘‘ میں مدفن ہیں حضرت ابو یوسف چشتی کے روحانی وارث قطب الدین مودود چشتی تھے آپ نے 527ھ میں وفات پائی آپ قصبہ چشت ’’ ہرات‘‘ میں مدفن ہیں آپ نے اپنی امانت حضرت حاجی شریف زندنیکے سپرد کی حضرت حاجی شریف زندنی ( مقام مدفن شام) نے حضرت خواجہ عثمان ہارونی کی تربیت فرمائی حضرت خواجہ عثمان ہارونی کی بارگاہ جلال سے وہ خورشید معرفت طلوع ہوا جس کی روشنی سے پوری سرزمین نہر جلمگا اٹھی وہ مردباصفا حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریہیں جن کے آستانے پر ایک لاکھ سے زیادہ سرکش راجپوت سرخم ہوئے۔ حضرت کا معمول اکثر سفر کا رہتا تھا ایک دن ایسی جگہ پہنچے جہاں کے رہنے والے آتش پرست تھے ، آپ ایک درخت کے نیچے مصلیٰ بچھا کر نماز میں مشغول ہو گئے۔ آپ نے اپنے خادم شیخ فخر الدین کو بھیجا کہ آگ لے آئے اور کھانا وغیرہ پکائے لوگوں نے آگ دینے سے انکار کردیا اور یہ کہا کہ یہ آگ پرستش کے لئے ہے اس میں سے دینا ہمارے یہاں مذہباً جائز نہیں ۔ خادم نے آکر حضرت کو سارا واقعہ سنا یا اس کے بعد حضرت خواجہ عثمان خود تشریف لے گئے اورانہیںبہت سی نصیحت فرمائی کہ آگ پرستش کے قابل نہیں پرستش کے قابل صرف وہی ایک ذات لاشریک ہے اگر تم لوگ آگ کی پرستش کرو گے تو یہ تم کو خود جلائیگی یہ سن کر وہ سب کہنے لگے اچھا آپ آگ کو نہیں پوجتے اس لئے اس میں جا کر دکھلائیے کہ وہ اثر کرتی ہے یا نہیں حضرت نے یہ سن کر وضو فر ما یا اور دوگانہ ادا کیا اس کے بعد ان کے پاس سے سردار کے ایک کمسن بچے کو گود میں لے کر اس آگ میں چلے گئے اور دو گھنٹہ اس آگ میں رہے آگ نے ان پر اور بچے پر کوئی اثر نہیں کیا اور صحیح سلامت آگ سے باہر نکل آئے یہ دیکھ کر سب مع اس سردار کے مسلمان ہو گئے اسلام قبول کر نے کے بعد اس سردار کا اسلامی نام عبد اللہ رکھا گیا اور اس لڑکے کا نام ابراہیم رکھا گیا آپ نے اڑھائی سال تک وہاں قیام کر کے اسلام اور اس کی تعلیمات سے ان کو با خبر کیا اور ان کی جماعت کو مستحکم کیا۔ سیرالاولیاء میں لکھا ہے کہ خواجہ بزرگ فرماتے ہیں کہ میر ایک ہمسایہ تھا جو حضرت خواجہ عثمان ہارونی کا مرید تھا جب وہ فوت ہوا تو ہم نے اس کا جنازہ پڑھا اور دفن کرنے کیلئے قبرستان لے گئے دفن کرنے کے بعد جب سب لوگ واپس چلے گئے تو میں اس کی قبر پر مراقب ہوگیا کیا دیکھتا ہوں کہ عذاب کے فرشتے پہنچ گئے ہیں لیکن خواجہ عثمان ہارونی فوراً وہاں پہنچ گئے اور فرشتوں سے کہا کہ یہ میرا مرید ہے اس پر عذاب نہ کرو فرشتوں کو حکم ہوا کہ خواجہ عثمان ہارونی سے کہو کہ یہ شخص آپ کے برخلاف تھا خواجہ صاحب نے فرمایا بیشک وہ میرے برخلاف تھا لیکن اس نے اپنے آپ کو میرے حلقے میں باندھ لیا ہے اس کے بعد فرشتوں کو حکم ہوا کہ اسے چھوڑ دو عثمان کا مرید ہے ہم نے اسے ان کی بدولت بخش دیا۔ حضرت خواجہ معین الدین ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت شیخ کے ساتھ جا رہا تھا دریا پر گزر ہوا اتفاقاً اس وقت وہاں پر کوئی کشتی موجود نہ تھی حضرت شیخ نے فر ما یا کہ آنکھیں بند کر لو میں نے آنکھیں بند کر لیں تھوڑی دیر میں ارشاد ہوا کہ آنکھیں کھول دو میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا کہ دریا کے پار کھڑے ہیں میں نہیں سمجھا کہ کس طرح گئے اور کیسے پہنچے۔ ایک مرتبہ ایک شخص حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میرا لڑکا ایک عرصہ سے گم ہے کہیں پتہ نہیں چلتا حضرت اس طرف توجہ فر مائیں اور دعا کریں حضرت نے تھوڑی دیر مراقبہ کیا اور مراقبہ کے بعد فر ما یا کہ تمہارا لڑکا تمہارے گھر آگیا ہے اس کو سخت حیرت ہوئی جا کر دیکھا تو وہ موجود تھا فورا ً شکریہ کے لئے اس کو حضرت شیخ کی خدمت میں لا یا لوگوں نے اس سے دریافت کیا کہ تم کہاں تھے تو معلوم ہوا کہ عرصہ سے ایک جزیرہ میں محبوس تھا اسی وقت وفعتا ایک بزرگ جو حضرت کی صورت کے تھے تشریف لائے اور فر ما یا کہ چل اور میرے دونوں پائوں اپنے پائوں پر رکھوا کر آنکھیں بند کرا دیں تھوڑی دیر میں ارشاد فر ما یا کہ کھول دو میں نے آنکھیں کھلیں تو اپنے گھر تھا حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرۃ کا نعرہ عشق ملاحظہ ہو
نہ می دانم کہ آخر چوں دم دیدارمی رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یارمی رقصم
ترجمہ: میں نہیں جانتا کہ جب دیدار کا مرحلہ آتا ہے تو میں کیوں رقص کرنے لگتا ہوں بات کچھ بھی ہو مگر مجھے اس پر ناز ہے کہ میں اپنے دوست کے سامنے رقص کرتا ہوں۔
تو آں قاتل کہ از بہر تماشا خون من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجر خونخواری می رقصم
ترجمہ: تو وہ قاتل ہے کہ دنیا کو تماشہ دکھانے کیلئے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خون آشام خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں۔
حضرت شیخ کاوصال 6شوال 617ھ مکہ معظمہ میں ہوا اور یہی پر مدفن ہوئے آپ کی قبر مبارک جنت المعلٰی میں سابق شریف مکہ شریف حسین کے محل کے صحن میں موجود ہے اور کسی نے اس کے گرد لکڑی کا چبوترہ لگا دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوگئی ہے چنانچہ آج تک آپ کی قبر مبارک زیارت گاہ خلق بنی ہوئی ہے۔ حضرت کے چارخلیفہ بہت مشہور تھے ان کے نام خواجہ خواجگان حضرت معین الدین چشتی سنجری اجمیری ، حضرت خواجہ نجم الدین صغری ، حضرت شیخ سوری منگوہی اور حضرت خواجہ محمد ترکہیں آج بھی فیض کا چشمہ اسی طرح جاری ہے یہ مبارک تقریبات ہر سال ملک کے مختلف شہروں میں ہوتی ہیں پشاور میں پیر صاحب تمبر پورہ شریف رئیس الفقراء حضرت پیر سید مستان شاہ سرکار حق با با کے صاحبزادے پیر سید عنایت شاہ باچا عرف موتیاں والی سرکار کے زیر سرپرستی ختم خواجگان ہو تا ہے شجرہ شریف ، چشتیہ صابریہ پڑھا جا تا ہے اور محفل سماع میں عارفانہ کلام پیش کیا جاتا ہے اس کے علاوہ سید عنایت شاہ باچا خصوصی دعا فر ماتے ہیں جس میں عقیدت مند گلہائے عقیدت پیش کر کے روحانی کیف و سرور کے ساتھ دنیا و آخرت کی سر بلندی و سر فرازی کی دولت سے ما لا مال ہو کر واپس جاتے ہیں ۔

جواب دیں

Back to top button