علامہ شہید تم ہمیں یاد نہ آیا کرو

علامہ ہشام الہٰی ظہیر
آج سے ٹھیک 38بر س قبل ایک شخص کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ جس کی تدفین سے قبل دو جنازے ہوئے ایک جنازہ خانہ کعبہ بیت اللہ شریف اور دوسرا جنازہ مسجد نبویؐ مدینہ منورہ میں ہوا۔ سعودی عرب کی تاریخ گواہ ہے کسی بھی جنازے میں اتنی بڑی تعداد عوام و خواص کی شرکت نہ کی ہو گی۔ مدینہ کا عالم عجیب منظر پیش کر رہا تھا ہر آنکھ اشکبار تھی۔ آنکھوں میں آنسو لئے ہر شخص مدینہ کی گلیوں سے پیار کرنے والے شخص کو الوداع کرنے آئے ہوئے تھے جس کا نام ’’ امام العصر علامہ احسان الٰہی ظہیر‘‘ تھا۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید ؒ نے اپنی جوانی مدینہ کی گلیوں میں طالب علمی کیلئے گزاری اور باقی کی زندگی وطن عزیز پاکستان میں قرآن و سنت کی بالادستی، توحید و سنت کی علمبرداری، جمعیت اہلحدیث پاکستان کی عظمت و رفعت، پاکستان میں دین اسلام کی سر بلندی کیلئے گزار دی۔ مکہ اور مدینہ سے اس قدر والہانہ محبت تھی جب تک زندہ رہے ہر دوسرے تیسرے ماہ سفر حجاز پر روانہ ہوتے۔ ایک مرتبہ آپ کے ساتھ دیوبند مکتبہ فکر کے بڑے عالم دین عبدالمجید ندیم بھی تھے۔ آپ نے ان کے ساتھ اپنے مدینہ میں گزارے ہوئے دنوں کا تذکرہ کیا۔ پھر بے شمار تاریخی مقامات کی زیارت کروائی۔ پھر آخر میں انکو لیکر جنت البقیع کی طرف چل دئیے جہاں ہزاروں کی تعداد میں صحابیاتؓ، صحابہ کرامؓ،آئمہ دین، تابعین مدفون ہیں۔ آپ مختلف صحابہؓ کا تذکرہ اپنے ساتھ مولانا عبدالمجید ندیم کے ساتھ کرتے جا رہے اچانک آپ ایک جگہ بیٹھ گئے اور آپ کے آنسوئوں سے لڑیاں جاری ہو گئیں کہ جس کی للکار خطابت کو سن کر بڑے بڑے آمروں کے پانی پتے ہو جاتے تھے۔ اگرچہ میری عمر کم تھی لیکن میں نے بڑے بڑے افسران بالا کو ان کی ڈانٹ کے آگے پسینوں میں شرا بور ہوتے دیکھا تھا۔ وہ ہزار دماغوں کا ایک انسان اپنے دونوں ہاتھوں کو بار گاہ رب العالیمن میں پھیلا کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا کہ پروردگار مجھ خطاکار کو ان نفوس قدوسیہ کے درمیان جگہ دے دے تو تیری رحمت میں کونسی کمی آجائے گی۔ پھر جو بات دل سے نکلتی ہے وہ اثر کرتی ہے۔ ہوا یوں کہ جب نفرت اور تشدد کے سوداگروں نے بم برسائے آپ لاہور میں تھے۔ علاج کی غرض سے شاہ فہد مرحوم کے خصوصی طیارے کے ذریعے سعودی عرب ریاض کے ملٹری ہسپتال میں لائے گئے یہی30مارچ 1987ء کی درمیانی شب کو شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہو گئے، جب تدفین کا وقت آیا تو آپ کیلئے جو جگہ منتخب ہوئی وہ وہی جگہ تھی جہاں بیٹھ کر جن کے پہلوئوں میں آپ نے اپنے لئے دعا کی تھی۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔ آج سے کئی برس ہا قبل ایک کالم نویس نے کہا تھا علامہ شہیدؒ تم ہمیں یاد نہ آیا کرو۔ آج میرا دل و دماغ بھی پکار رہا ہے علامہ شہیدؒ تم ہمیں یاد نہ آیا کرو کیونکہ جب تم ہمیں یاد آتے ہو ہماری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ احساسات تاریک ہو جاتے ہیں۔ جذبات ویران ہو جاتے ہیں۔ دل ڈوبنے لگتا ہے۔ خواس خمسہ پر تمہارا تصور غالب آجاتا ہے کہ ہر وقت تم ہی تم دکھائی اور سنائی دیتے ہو۔ پورا وجود تمہیں محسوس کرنے لگتا ہے۔ پھر جب ہما را لاشعور وجود تمہیں یاد کرنے لگتا ہے تو زندگی سے بے رغبتی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ دلوں سے موت کا خوف نکل جا تا ہے۔ اسی لئے تو میں کہتا ہوں تم ہمیں یاد نہ آیا کرو کیونکہ جب تم ہمیں یاد آتے ہو تو ہمیں موچی دروازہ، دھوبی گھاٹ کے میدان تمہاری للکار خطابت کے متلا شی نظر آتے ہیں۔چینیا نوالی مسجد سے رونے کی صدائیں صاف سنا ئی دیتی ہیں۔منٹو پارک کی عید گاہ ماتم گدہ دکھا ئی دیتی ہے۔عالم اسلام اما العصر سے محروم نظر آتا ہے۔ علم کی دنیا فقیہ دوراں کو ڈھونڈتی ہوئی دکھا ئی دیتی ہے۔مسند خطابت عرب و العجم کی جدائی میں غمزدہ نظر آتی ہے۔اسی لئے تو میں کہتا ہوں علامہ شہیدؒ تم ہمیں یاد نہ آیا کروجب تم ہمیں یاد آتے ہو تو مسجد نبویؐ کے میناروں کے سائے تلے روضہ الرسولؐ کے سامنے جنت البقیع کے گو شے میں رکھا گیا تمہارا جسد خاکی دنیا کے تمام گورکھ دھندوں سے بالکل بے نیاز ہونٹوں پہ تبسم لئے دکھا ئی دیتا ہے اور جنت البقیع کا وہ گو شہ تمہارے وجود سے ہمیں آباد نظر آتا ہے
وہ چاند طیبہ میں جا کے ڈوبا
جو میرے وطن سے نکلا
علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید ؒ کی تدفین جنت البقیع کے اُس حصے میں ہو ئی جہاں قبروں کو منہدم نہیں کیا جا تا جسے بقیع خاص کہا جا تا ہے علامہ شہید ؒ کی وفات کے تقریبا آٹھ سال بعد میرے دادا اور آپ کے والد گرامی حاجی ظہور الٰہی کی تدفین بھی جنت البقیع میں ہو ئی اور دونوں میں ہی یہ قدر مشتر ک ہے دونوں ہی پاکستان میں رہے اور ریاض میں فوت ہوئے جب تدفین کا مرحلہ آیا تو جنت البقیع کا ہی انتخاب کیا گیا (سبحان اللہ)۔ اتفاق در اتفاق دیکھئے آج سے تقریباً چھ سال قبل جب میں مدینہ یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اسی اثناء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک بیٹا عطا کیا جو کہ پاکستان میں پیدا ہوا لیکن چند دن کا تھا کہ میرے ساتھ مدینہ میں آبسا چند دن بعد اُس کو دل کی بیما ری نے آلیا اور مجھے داغ مفارت دے گیا۔ جب میں اُس کے ننھے منھے وجود کو اپنے ہا تھوں میں اُ ٹھائے دل میں غموں کے جذبات لئے جنت البقیع کی جانب رواں دواں تھا تو دل میں خیال آیا کہ کل روز قیامت جب میرے بابا شہید ، میرے دادا جان،اور میرا بیٹا اپنی اپنی قبروں سے اُ ٹھیں گے تو سب سے پہلے نبی کائنات فخر موجودات سرور کائناتؐ کا دیدار کریں گے ( ان شاء اللہ) تو غم کا پہاڑ فوراً ریزہ ریزہ ہو جائے گا اور دل سے صدا بلند ہوئی۔
پہنچی وہی پے خاک جہاں کا خمیر تھا