Column

امریکہ کی سفری پابندیاں اور پاکستان

تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کے لیے ایک بری خبر یہ ہے کہ امریکہ نے سفری پابندیوں کا اعلان کیا ہے جو کہ نیک شگون نہیں ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی اس کے شہریوں کا روزگار، تعلیم، تجارت، اور پیشہ ورانہ تربیت کے لیے بیرون ملک جانے کا رجحان رہا ہے۔ خاص طور پر 1970ء کی دہائی میں جب مشرق وسطیٰ میں تعمیراتی ترقی ہوئی تو پاکستانی افرادی قوت کی بڑی تعداد نے ان ممالک کا رخ کیا۔ اسی طرح، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی پاکستانی طلبہ، پیشہ ور افراد اور تاجروں کے لیے پرکشش مقامات رہے ہیں۔
امریکہ اور پاکستان کے تعلقات 77سال پر محیط ہیں جن میں مختلف ادوار میں نشیب و فراز بھی دیکھنے کو ملے۔ 1950 ء اور 1960ء کی دہائی میں دونوں ممالک کے تعلقات خاصے خوشگوار رہے جب پاکستان کو امریکا کا ایک قریبی اتحادی سمجھا جاتا تھا۔ تاہم 1971ء کی پاک، بھارت جنگ، 1998ء میں ایٹمی دھماکوں، 9؍11کے بعد انسداد دہشت گردی کی پالیسیوں اور افغانستان کی صورتحال کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی بھی دیکھی گئی۔
حالیہ میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے 43ممالک کو تین فہرستوں میں تقسیم کرتے ہوئے ان پر مختلف نوعیت کی سفری پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن میں سرخ فہرست، نارنجی فہرست اور زرد فہرست شامل ہیں جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے
سرخ فہرست: جن ممالک کے شہریوں کے امریکہ جانے پر مکمل پابندی ہوگی۔
نارنجی فہرست: ویزا کے حصول کے لیے اضافی شرائط عائد کی جائیں گی۔
زرد فہرست: ویزا درخواستوں پر اضافی جانچ ہوگی اور 60دن کے اندر تمام متعلقہ دستاویزات فراہم کرنا ہوں گی۔
ان سفری پابندیوں سے امریکہ میں مقیم لاکھوں پاکستانیوں کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں جن کا وہاں روزگار، تعلیم اور کاروبار سے گہرا تعلق ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ان فہرستوں میں شامل کرنا ایک سیاسی فیصلہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ امریکہ سے غیرقانونی بھارتی تارکین وطن کو ملک بدر کیے جانے کے باوجود بھارت ان فہرستوں میں شامل نہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات کا پاکستان کے حوالے سے ایک خاص سیاسی پس منظر ہے۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ امریکہ کی پالیسی اکثر جغرافیائی اور سٹریٹجک مفادات کے تحت بنتی ہے۔ امریکہ کی نظر میں بھارت ایک بڑا تجارتی اور سٹریٹجک پارٹنر بنتا جا رہا ہے جبکہ پاکستان کو زیادہ تر سکیورٹی معاملات کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ امریکہ کی اس متعصبانہ پالیسی کے نتیجے میں پاکستانی شہریوں کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
پاکستان کو اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور متوازن پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے چند اہم تجاویز درج ذیل ہیں جن میں سرفہرست سفارتی سطح پر مضبوط حکمت عملی ہے۔ پاکستانی حکومت کو امریکہ سے سفارتی سطح پر مذاکرات کرنے چاہئیں تاکہ سفری پابندیوں کے ممکنہ اثرات کو کم کیا جا سکے۔ امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے کو زیادہ فعال بنا کر پاکستانی برادری کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مستحکم کیا جائے۔ چین، ترکی، روس، اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط کیے جائیں تاکہ پاکستانیوں کے لیے متبادل روزگار اور تعلیمی مواقع پیدا کیے جا سکیں۔
یورپی یونین اور برطانیہ کے ساتھ تجارتی اور سفری تعلقات کو فروغ دیا جائے تاکہ پاکستانیوں کے لیے مواقع کے نئے دروازے کھلیں۔
امریکہ پر تجارتی دبائو ڈالا جائے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کا ازسرنو جائزہ لے اور امریکی کمپنیوں کے لیے پاکستان میں موجود مواقع پر نظرثانی کرے۔ اگر امریکہ پاکستانی شہریوں پر غیر ضروری پابندیاں عائد کرتا ہے تو پاکستان کو بھی امریکی مصنوعات پر تجارتی پابندیاں عائد کرنے پر غور کرنا چاہیے۔
پاکستانی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ بیرونی ممالک پر انحصار کم کرنے کے لیے پاکستان میں روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں تاکہ شہریوں کو بہتر مواقع ملک میں ہی دستیاب ہوں۔ پاکستان میں صنعتی ترقی، آئی ٹی سیکٹر، اور کاروباری مواقع کو فروغ دیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو روزگار مل سکے۔
پاکستانی شہریوں پر امریکی سفری پابندیوں کا خدشہ ایک سنگین مسئلہ ہے جو امریکہ کی بدلتی ہوئی پالیسیوں اور عالمی سیاسی صورتحال سے جڑا ہوا ہے۔ حکومت پاکستان کو سفارتی، تجارتی اور اقتصادی سطح پر موثر حکمت عملی اپنانی چاہیے تاکہ پاکستانی شہریوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ ساتھ ہی متبادل مواقع پیدا کر کے بیرونی ممالک پر انحصار کم کرنے کی پالیسی پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستانی نوجوانوں کو روزگار، تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے بہتر مواقع اپنے ملک میں ہی دستیاب ہوں۔

جواب دیں

Back to top button