Column

تاریخ و حقائق کے آئینہ میں اسلاموفوبیا

ڈاکٹر جمشید نظر
کچھ عرصہ قبل جب ایک عالمی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ دنیا بھر میں نوجوانوں کی بڑی تعداداسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کر رہی ہے تو مغرب خوفزدہ ہو گیا کہ اگر دنیا میں اسلام اسی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگ گیا تو سن2030تک عیسائیوں اور یہودیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی چنانچہ انہوں نے غیر مسلم نوجوان نسل کو مذہب اسلام ، اسلامی تعلیمات اور تہذیب سے دور رکھنے کے لئے لفظ’’ اسلامو فوبیا‘‘ ایجاد کیا۔ ’’ فوبیا‘‘ ایک یونانی لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’’ ڈر جانا‘‘ یا خوف‘‘ جس کے مطابق اسلامو فوبیا کا مطلب ہے کہ ’’ اسلام کا خوف یا ڈر‘‘۔ یہ لفظ اسلام سے دشمنی اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ انگریزی زبان میں مستعمل یہ لفظ دنیا کی بیشتر زبانوں میں اسلام سے خوف و دہشت کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف اس لفظ کی ایجاد سن1987ء میں ہوئی۔ سن 1997ء میں اس اصطلاح کی تعریف برطانوی رائٹر رونیمیڈ ٹروسٹ نے ’’ Islamophobia: A Challenge for Us All‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک رپورٹ میںبیان کی ہے کہ اسلامو فوبیا سے مراد اسلام سے بے پناہ خوف ، ایک ایسا ڈر جو لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کو جنم دیتا ہے ۔
اقوام متحدہ میں اسلامو فوبیا کے حوالے سے ہونے والے اجلاسوں میں پاکستان کے رہنما کئی مرتبہ یہ بات باور کرا چکے ہیں کہ9؍11کے بعد سے دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف ایک منظم انداز میں نفرت پیدا کی جارہی ہے جس کا نتیجہ بہت سے ایسے واقعات کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے جب مسلمانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سن2019 میں نیوزی لینڈ کے دارالحکومت کرائسٹ چرچ میں واقع مسجد النور اور لن ِووڈ مسجد پر دہشت گرد حملے بھی اسلامو فوبیا کا شاخسانہ تھے جب غیر مسلم شخص نے اسلامو فوبیا کی آڑ میں فائرنگ کرکے 51نمازیوں کو شہید اور 44کو زخمی کر دیا اس وقت نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جاسنڈا آرڈرن نے سانحہ کے دن کو نیوزی لینڈ کا سیاہ ترین قرار دیا ،اس واقعہ کے بعد نیوزی لینڈ کاقومی پرچم بھی سرنگوں رکھا گیا۔ اس واقعہ کی بعد سن2020میں نائیجیریا اسلامی تعاون تنظیم ’’ او آئی سی‘‘ کی وزراء خارجہ کونسل کے47ویں اجلاس میں پاکستان نے ہر سال 15مارچ کو اسلامو فوبیا کے خاتمہ کے عالمی دن کو منانے کی قرارداد پیش کی تھی جسے منظور کرلیا گیا ، مارچ سن 2022میں اقوام متحدہ نے اسلامو فوبیا کا عالمی دن منانے کا اعلان کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ دنیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ختم کرنے کے لئے اسلامو فوبیا کا مل کر مقابلہ کیا جائے۔ پاکستان کی جانب سے پچھلے سال اسلامو فوبیا کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی گئی جس میں دنیا کے تمام ممالک سے کہا گیا کہ وہ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے متفقہ اقدامات کریں، اس قرار داد اقوام متحدہ کی جانب سے منظور کرلیا گیا۔
مغرب کے تخلیق شدہ لفظ اسلامو فوبیا کی آڑ لے کر دنیا بھر میں مذہب اسلام کو بدنام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کی جارہی ہے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک، ان پرتشدد اور قتل کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے اسلامک یوتھ کوآپریشن فورم کی مشیر اعلیٰ ڈاکٹر فدیلہ قرین اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں انکشاف کیا کہ اسلامو فوبیا کی نام پر مسلمان مردوں کی نسبت مسلمان خواتین کو زیادہ خطرات لاحق ہیں کیونکہ جب ایک مسلم خاتون حجاب پہن کر باہر نکلتی ہے تو اسلام دشمن عناصر اس کو اپنی نفرت کا نشانہ بنانے میں ذرا دیر نہیں کرتے۔ اسلامو فوبیا کو فروغ دے کر مسلمانوں کو جسمانی اور روحانی اذیت دی جارہی ہے، کبھی گستاخانہ خاکے بنائے جاتے ہیں تو کبھی قرآن پاک کی بے حرمتی کی جاتی ہے تو کبھی مسلم عبادت گاہوں کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ اسی اسلامو فوبیا کے نام پر انڈیا میں ریاستی سرپرستی میں اسلام مخالف سرگرمیاں بھی جاری ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام اور نسل کشی، بھارت میں بابری مسجد سمیت دیگر عبادت گاہوں کو شہید کرنا، گجرات میں فسادات کے دوران مسلمانوں کا قتل عام، سن 2007ء میں آر ایس ایس بلوائیوں کا 50سے زائد مسلمانوں کو سمجھوتا ایکسپریس میں زندہ جلانا، ہندو مذہبی نعرے نہ لگانے اور گائو رکشا کے نا پر مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنا کر جان سے مارنا، یہ سب کچھ اسلامو فوبیا کی آڑ میں کیا جارہا ہے ۔ اسلامو فوبیا کی بنیاد پر ایودھیا میں بابری مسجد کو شہید کر کے رام جنم بھومی میں تبدیل کرنے کے بعد انتہا پسند ہندووں نے متھرا میں شاہی عیدگاہ مسجد کو کرشن جنم بھومی بنانے کی سازشیں کی گئیں۔ بھارتی حکومت اسلامو فوبیا کے نام پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی کھلے عام خلاف ورزی کرکے دنیا کے سامنے امن پسند ملک ثابت کرنے کا ڈھونگ رچاتی ہے۔ ایشیائی خطہ سمیت دنیا میں کہیں بھی پائیدار امن کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ اسلامو فوبیا کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔

جواب دیں

Back to top button