Editorial

دہشتگرد حملوں میں 6 اہلکار شہید، 7شرپسند ہلاک

 

پچھلے کچھ عرصے سے فتنۃ الخوارج کی مذموم کارروائیاں بڑھ گئی ہیں۔ ویسے تو خوارجی دہشت گرد پچھلے 3 سال سے ملک میں بدامنی پھیلانے کے درپے ہیں۔ ان کی جانب سے سیکیورٹی چیک پوسٹوں، قافلوں، اہم تنصیبات پر حملوں کے سلسلے جاری ہیں، کبھی ان کی جانب سے دراندازی کی مذموم کوشش کی جاتی ہے، ان کے تمام مذموم حملوں کو اپنی بہادر سیکیورٹی فورسز ناکام بنادیتی ہیں۔ سیکیورٹی فورسز ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے مصروفِ عمل ہیں اور روزانہ ہی اُنہیں بڑی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ کئی سارے خوارجیوں کو اُن کے عبرت ناک انجام تک پہنچایا جاچکا ہے، بڑی تعداد میں گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں، ان کے ٹھکانوں کو برباد کیا جاچکا ہے، بہت سے علاقوں کو ان سے کلیئر کراکے وہاں امن کی صورت حال بحال کی جاچکی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ امریکا کا جب سے افغانستان سے انخلا ہوا ہے، تب سے فتنہ الخوارج نے اپنے پیر مضبوط کرنے شروع کیے اور دہشت گرد کارروائیوں کا آغاز کیا۔ پچھلے کچھ عرصے سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ متواتر واقعات رونما ہورہے ہیں۔ خصوصاً سانحۂ جعفر ایکسپریس حملے کی ناکامی کے بعد دہشت گرد سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں اور وہ اس ناکامی پر تلملائے ہوئے ہیں۔ بڑھتی دہشت گردی پر پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اِن کیمرا اجلاس آج طلب کیا گیا ہے۔ گزشتہ روز بلوچستان اور کے پی کے مختلف علاقوں میں دہشت گرد حملوں میں 6 جوان شہید ہوگئے جب کہ سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں اہم کمانڈر سمیت 7 دہشت گرد مارے گئے۔بلوچستان میں نوشکی دالبندین شاہراہ پر ایف سی کے قافلے پر کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے خودکُش حملے میں 3ایف سی اہلکاروں سمیت 5افراد شہید اور کئی زخمی ہوگئے جب کہ سیکیورٹی فورسز نے فوری جوابی کارروائی میں 3 دہشت گرد ہلاک کردئیے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ضلع نوشکی میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر خودکُش حملہ ہوا اور گاڑی میں سوار خودکُش بمبار نے سیکیورٹی فورسز کے قافلے کے قریب خود کو دھماکے سے اُڑایا۔ حملے میں 3ایف سی اہلکار اور 2شہری شہید ہوگئے۔ سیکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کے خلاف فوری جوابی کارروائی کی اور 3 دہشت گرد ہلاک کردیے۔ شہدا میں حوالدار منظور علی، حوالدار علی بلاول، نائیک عبدالرحیم، سویلین ڈرائیور جلال الدین اور محمد نعیم شامل ہیں۔ دوسری طرف خیبر پختونخوا کے اضلاع کرک اور پشاور میں رات گئے کیے گئے مختلف حملوں میں 2 پولیس اہلکار، ایک ایف سی اہلکار اور ایک سیکیورٹی گارڈ شہید ہوگیا۔ کرک کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) کے مطابق دہشت گردوں نے 2تھانوں اور سوئی گیس کی تنصیب پر حملہ کیا، فائرنگ کا شدید تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں 2پولیس اہلکار اور نجی سیکیورٹی گارڈ شہید ہوگیا۔ ڈی پی او نے میڈیا کو بتایا کہ دہشت گردوں نے بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا تاہم پولیس نے حملوں کو ناکام بنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلح افراد نے خرم اور تخت نصرتی تھانوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں پولیس سب انسپکٹر اسلام نور خان شہید ہوگئے۔ اس کے علاوہ کرک میں سوئی گیس فیلڈ پر حملے میں ایک ایف سی اہلکار شہید ہو گیا۔ سوئی گیس تنصیب پر حملے میں حملہ آوروں کا تعاقب کیا گیا لیکن وہ اندھیرے میں فرار ہو گئے، تاہم ان میں سے ایک ہلاک ہو گیا۔ پولیس نے فائرنگ کے تبادلے کے بعد مسلح عسکریت پسندوں کی جانب سے اغوا کئے گئے ایک سیکیورٹی گارڈ کو بھی بازیاب کرا لیا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ایک بیان میں ان حملوں کی ذمے داری قبول کی ہے۔ دوسری طرف پشاور کے تھانہ مچی گیٹ کی پجگی چوکی پر نامعلوم دہشت گردوں کی فائرنگ سے اہلکار نذر علی شہید ہوگیا۔ پولیس نے فوری جوابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں حملہ آور فرار ہونے پر مجبور ہوگئے۔ جبکہ خیبرپختونخوا پولیس کے ترجمان کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق خیبرپختونخوا پولیس نے چار کارروائیوں میں بم دھماکوں میںملوث دہشتگرد نیٹ ورک کے کمانڈر سمیت 4دہشتگردوں کو ہلاک کردیا ہے۔ پولیس کے مطابق کرک میں کارروائی کے دوران کمانڈر کاشف ہلاک ہوا جو فورسز پر حملوں، پولیس ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھا۔ اس کے علاوہ پولیس نے پشاور سمیت تین اضلاع میں دہشتگردوں کے حملوں کو ناکام بنایا۔ پولیس کے مطابق لکی مروت میں دو دہشت گرد ہلاک ہوئے جبکہ چوکی عباسہ خٹک پر حملے کو ناکام بنایا گیا۔ اسی طرح ضلع ٹانک میں چوکی نصران حملے کو ناکام بنایا گیا، جس کے دوران جوابی کارروائی میں ایک دہشتگرد ہلاک ہوا۔ شہیدوں کا خون ہرگز رائیگاں نہیں جائے گا۔ ان شہدا کی ملک و قوم کے لیے قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ دشمن چاہے ایڑی چوٹی کا زور لگالیں، فتنہ الخوارج اپنے مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ پاکستان کو دُنیا کی بہترین اور پیشہ ور افواج کا ساتھ میسر ہے، جو پہلے بھی دہشت گردی کے عفریت کو قابو کرچکی ہیں اور آئندہ بھی اس کو قابو کرنا اُن کے لیے چنداں مشکل نہیں ہوگا۔ ہماری بہادر افواج محدود وسائل کے باوجود بہترین خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خاتمے کے مشن میں مصروفِ عمل ہیں۔ کچھ ہی عرصے میں انہیں ان کے خلاف فیصلہ کُن کامیابی ملے گی۔ کوئی دہشت گرد نہیں بچے گا۔ دہشت گردی کی لعنت کا مکمل قلع قمع ہوجائے گا۔ امن و امان کی صورت حال مکمل طور پر بحال ہوگی اور ملک تیزی سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگا۔
من مانی قیمت پر LPG کی فروخت
قدرت نے ہمارے وطن کو بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے۔ ایک نعمت قدرتی گیس بھی تھی، ہمارے ملک کے ہر گھر میں سوئی گیس کے کنکشن موجود ہیں اور یہ سہولت دُنیا کے بڑے اور ترقی یافتہ ترین ممالک تک میں عنقا ہے۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس نعمت پر رب تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کو احتیاط کے ساتھ استعمال میں لایا جاتا، لیکن ہمارے لوگوں کی جانب سے اس کے بجائے قدرتی گیس کا بے دریغ استعمال کیا جاتا رہا۔ گاڑیوں تک میں بطور ایندھن اسے دھڑلے سے استعمال کیا جانے لگا۔ اتنی بے دردی سے اسے استعمال کیا گیا کہ پچھلے کچھ سال سے قدرتی گیس کی قلت کا ملک و قوم کو سامنا ہے۔ سردی ہو یا گرمی اب گیس کی قلت معمول ہوگئی ہے۔ ان حالات میں متبادل کے طور پر ایل پی جی کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ ماضی میں ایل پی جی کے نرخ سردیوں میں آسمان پر پہنچے ہوتے تھے جب کہ گرمیوں میں ارزاں قیمت پر یہ دستیاب ہوتی تھی۔ اب تو سردی ہو یا گرمی ایل پی جی قیمت کم ہونے میں ہی نہیں آتی۔ سرکاری مقرر کردہ قیمت سے زائد پر اس کی فروخت کی اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں۔ ایل پی جی کے سرکاری نرخ 248 روپے فی کلو ہیں، لیکن یہ 320 روپے فی کلو دھڑلے سے بیچی جارہی ہے۔’’جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق اوگرا نوٹیفکیشن کے بغیر ہی ایل پی جی کی قیمت میں من مانا اضافہ کردیا گیا۔ چیئرمین ایل پی جی ایسوسی ایشن عرفان کھوکھر کے مطابق سرکاری قیمت 248 روپے فی کلو جب کہ گھریلو سلنڈر 2925 روپے قیمت مقرر کی گئی ہے جب کہ شہروں میں ایل پی جی 320 روپے اور دیہی علاقوں میں 350 روپے فی کلو پر پہنچ چکی ہے۔ پہاڑی علاقوں میں ایل پی جی 400 روپے فی کلو فروخت کی جارہی ہے، انہوں نے کہا کہ گھریلو سلنڈر کی قیمت بلاجواز 700 روپے اضافے سے 3700 روپے سے تجاوز کرگئی ہے جب کہ کمرشل سلنڈر کی قیمت 14500 روپے سے تجاوز کرگئی۔ عرفان کھوکھر نے کہا کہ آئندہ چند روز میں مزید قیمت بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ یومیہ 6 ہزار ٹن ایل پی جی فروخت کی جاتی ہے، مافیا کی جانب سے بلاجواز قیمت بڑھا کر اربوں روپے کی لوٹ مار کی جارہی ہے جب کہ ان کے خلاف کارروائی کے بجائے غریب دُکان داروں کے خلاف کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ دُکان دار ایل پی جی گھر پر نہیں بناتا بلکہ خریدتا ہے، حکومت پلانٹ سے سرکاری قیمت کو یقینی بنائے۔ ملک میں ایل پی جی کی سرکاری نرخ سے کافی زائد پر فروخت کسی طور مناسب نہیں۔ ذمے داران کو اس حوالے سے اقدام کرنے چاہئیں۔ حکومت کو پلانٹ سے ایل پی جی کی سرکاری قیمت پر دستیابی یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔

جواب دیں

Back to top button