Columnمحمد مبشر انوار

پاکستان کہاں کھڑا ہے

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض )

مواقع ہیں کہ باربارپاکستان کے پاس گھوم گھوم کر آتے ہیں لیکن اس کے باوجود نجانے کیوں پاکستان اپنی شاہراہ گم گشتہ تک پہنچ نہیں پارہا اور دائروں کے سفر میں اپنی توانائیاں صرف کرتا جا رہا ہے لیکن ترقی کی شاہراہ اس سے کوسوں دور دکھائی دیتی ہے۔ امریکہ میں تبدیلی اقتدار نے بہت سے نئے در وا کئے ہیں اور اس وقت ساری دنیا ان دروازوں سے نمودار ہونے والے مواقع کے ثمرات سمیٹنے کو بیتاب دکھائی دیتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ نئی حکومت کی خواہشات کے مطابق ،بدلے میں کچھ دینے کی تیاریوں میں بھی مصروف عمل ہے تا کہ دو طرفہ مفادات کا گمان بھی رہے۔ امریکہ کی جانب سے اس مرتبہ جو لائحہ عمل اختیار کیا جا رہا ہے وہ ماضی کی نسبت قدرے مختلف ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے، عالمی بساط پر اختیار کلی کی جنگ ہی دکھائی دیتی تھی اور امریکہ اپنی اس حیثیت سے بلا شرکت غیرے محظوظ ہونا چاہتا تھا لیکن طاقت کا توازن دو حصوں میں منقسم رہا تاآنکہ سوویت یونین کے حصے بخرے نہ ہو گئے ،بات یہیں تک محدود رہتی تو بھی غنیمت تھا لیکن تب امریکہ نے دس قدم آگے کی سوچتے ہوئے ،اس خطے میں بھی اپنے قدم مضبوطی سے جمانے کی کوشش کی کہ ایک طرف روس پر نظر رہے تو دوسری طرف چین کے گرد غیر محسوس طریقے سے گھیرا تنگ کیا جاسکے۔ امریکہ کے لئے اس جنگ میں اترنا تو آسان تھا ہی لیکن اس جنگ میں پاکستان کی مدد کے بغیر کسی بھی قسم کی پیش قدمی ،دیگر ذرائع کی نسبت کہیں زیادہ بارآور تھی،لہذا پاکستان امریکہ کے لئے ناگزیر حیثیت اختیار کر گیا تھا لیکن اس میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ کس قدر ہو پایا یا پاکستان نے اس صورتحال سے کیا پایا،اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی،کہ پاکستان میں اقتدار کے عوض سب کچھ ہیچ رہا وگرنہ اسی ہنگام میں ترکی نے اپنے ریاستی مفادات کا بخوبی تحفظ بھی کیا اور امریکی خواہشات کو ترکی عوام کی رضا کے سامنے مقدم بھی نہیں جانا،یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ تاہم امریکہ کے افغانستان میں مشغول ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ اگر کسی ریاست کو ہوا،تو وہ چین ہے کہ جس نے اس وقت کو اپنے لئے نعمت غیر متبرکہ جانتی ہوئے،اس عرصہ میں انتہائی خاموشی مگر انتہائی تیزی کے ساتھ نہ صرف اپنی معیشت کو مضبوط تر کر لیا بلکہ اپنے دفاعی معاملات میں بھی قدرے ترقی کر لی۔ گو کہ اس ترقی کے باوجود آج بھی چین کا دفاعی بجٹ ،امریکہ کے معاملے میں انتہائی کم دکھائی دیتا ہے لیکن ٹیکنالوجی کے حوالے سے یہ ضرور ہے کہ عالمی سطح پر چین اب ایک مضبوط و قابل اعتبار آواز بن چکا ہے لیکن ہنوز چینی اسلحہ کے تجربات میدان جنگ میں نہیں ہو سکے،جیسا کہ امریکی اسلحہ حقیقی میدان جنگ میں استعمال ہوتا ہے اور اپنی ایک الگ ساکھ رکھتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس روسی اسلحہ کے متعلق یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ روسی اسلحہ بھی امریکی اسلحہ کی طرح حقیقی میدان جنگ میں استعمال شدہ ہے اور اپنی ساکھ رکھتا ہے۔ بہرکیف امریکی خواہشات کہ،افغانستان میں بیٹھ کر امریکہ نہ صرف روس بلکہ چین کو بھی براہ راست کنٹرول کر پائے گا،دیوانے کا خواب ثابت ہو چکا ہے اور آج دونوں ممالک ( روس و چین) اپنے پورے قد کے ساتھ ،امریکہ کے سامنے اس طرح کھڑے ہیں کہ امریکہ کو اپنی بنیادی خواہش کے برعکس،ان دونوں ممالک کے ساتھ ’’ شراکت داری‘‘ کی بات کرنا پڑ رہی ہے۔
یہ انتہائی غیر معمولی صورتحال ہے ،جس کا گمان تک دنیا نہیں کر سکتی تھی تاوقتیکہ ٹرمپ صدر کی حیثیت سے سامنے نہیں آئے اور انہوں نے امریکی جاری پالیسیوں کے برعکس ایک نئی تھیوری پیش کرتے ہوئے،عالمی سیاسی بساط پر نئی چالیں چلی ہیں اور اپنے تئیں امریکہ کو مزید ہزیمت سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے،چین و روس کو کرہ ارض کے معاملات مل بیٹھ کر چلانے کی تجویز دی ہے۔اس نئی تجویز کے مطابق ،ہونا تو یہ چاہئے کہ دنیا بھر میں امریکہ کی طرف سے رچائی گئی جنگوں کا مکو فوری طور پر ٹھپ دیا جائے اور تینوں بڑی طاقتیں ،منصف مرادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ،ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائیںاور دنیا کو امن کی طرف لے جائیں۔ لیکن کیایہ خواہش اتنی سادہ ہے کہ جو بظاہر ہم جیسے عام لوگ سوچ رہے ہیں،واقعتا یہ ایسا ہی ہوگااور عالمی طاقتیں واقعتا منصف مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے،ناانصافی کا خاتمہ کریں گی؟پس پردہ کیا کچھ چل رہا ہے اور اس سے کیا کچھ برآمد ہونے والا ہے کیا وہ واقعی عالمی امن کے لئے ہو گا یا کچھ وقفہ لینے کے بعد نئے سرے سے صف آرائیاں ہو ںگی؟بالفرض امریکہ و چین مل بیٹھ کر معاملات کا تصفیہ کرنا چاہتے ہیں تو چین و بھارت کے درمیان جاری جنگ میں امریکہ کس کوحق پر تسلیم کرے گا کہ بھارت اس وقت امریکی حلیف ہے ،اور کواڈ کے تحت بھارت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ چین کے بڑھتے قدم روکے،لیکن بھارت اس میں ناکام رہا ہے،تو کیا امریکہ تبت پر ،چین کا حق فائق تسلیم کرے گا؟اسی طرح تائیوان کے حوالے سے جو معاملات جاری ہیں ،کیا امریکہ اس معاملے پر بھی پسپائی اختیار کرے گا؟کیا امریکہ واقعتا اپنے اختیار کو ازخود چھوڑ دے گا یا اسے میں مزید شراکت دار برداشت کرے گا؟’’ امریکی ریاست‘‘ اس کے لئے کس حد تک تیار ہے اور کیا امریکی اسلحہ ساز صنعت بھی اس فیصلے میں شامل ہے ؟اگر شامل نہیں تو اس کا ردعمل کیا ہو گا ،کیا ہو سکتا ہے،کیا امریکی ریاست اس ردعمل کی متحمل ہو سکتی ہے؟رہی بات چین و روس کی تو انہیں اختیار میں شراکت داری سے کوئی مسئلہ نہیں دکھائی دیتا کہ ان کی حیثیت مسلمہ ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اسی طرح جو حالت امریکہ نے یوکرینی صدر کی ،کی ہے،اس کے بعد یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ امریکہ کی جانب سے روسی جارحیت کو بھی جائز تسلیم کیا جا چکا ہے اور جب تک زیلنسکی ،کسی کی شہ پر ناچتے ہیں،روس یوکرین کا زیادہ سے زیادہ حصہ اپنے تصرف میں لے جائے گا،جس کا فائدہ بہرطور جنگ ختم کے بعد روس ہی اٹھائے گا ،خواہ امریکہ وہاں نایاب معدنیات کے لئے سرمایہ کاری کرے یا یوکرین جنگ میں کی گئی سرمایہ کاری کے عوض معاہدہ کرے۔
ایک نئی خبر بہرطور ہلچل مچانے والی دکھائی دے رہی ہے کہ پاکستان کی جانب سے ،افغانستان میں فوجی انخلاء کے وقت،دہشت گردی کی واردات کے نتیجہ میں تیرہ امریکی فوجیوں کی جانیں لینے والے ،ایک دہشت گرد کو امریکہ کے حوالے کر چکا ہے،جسے امریکہ نے اپنی ’’ عدالت‘‘ میں پیش کرکے ’’ قانون پسند‘‘ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ دوسری طرف ایک اور گمان پیدا ہو چلا ہے کہ امریکی فوج کے انخلاء کے دوران ،جو بھاری و جدید اسلحہ امریکہ افغانستان میں اس امید پر چھوڑگیا تھا کہ اس کی تربیت یافتہ افغانستان فوج،مزاحمت کرے گی،جو ہو نہ سکا،اور اب امریکہ اس اسلحے کی بازیابی کے لئے بروئے کار آنے کا سوچ رہا ہے۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسلحہ اس وقت کہاں اور کس کے پاس ہو سکتا ہے،جسے امریکہ واگزار کروانے کی تیاری کر رہا ہے،اس کا طریقہ کار کیا ہو گا ؟کیا امریکہ مذاکرات کے ذریعہ اس اسلحہ کو واپس حاصل کر پائے گا یا اس اسلحہ کے لئے مزید جنگ ہو گی یا اس اسلحہ کو افغان حکومت کے ذریعہ ہی واگزار کروایا جائے گا،اس کے متعلق فی الوقت کچھ نہیں کہا جا سکتا،دیکھتے ہیں کہ پردہ غیب سے کیا نمودار ہوتا ہے؟اسی طرح مشرق وسطیٰ میں جو معاملات ہیں،وہ کس کروٹ بیٹھتے ہیں کہ اس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ امریکہ یا اسرائیل میں کوئی بھی شخص برسر اقتدار ہو،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور دونوں ریاستیں ایک دوسرے کے لازم و ملزوم حیثیت اختیار کر چکی ہیں،دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کا لائحہ عمل اس معاملے میں کیا ہو گا؟ کیا مشرق وسطیٰ کی عرب مسلم ریاستوں کو پھر سے اسرائیل تسلیم کروانے کی کوشش کی جاتی ہے یا انہیں زیر کرنے کے لئے کوئی اور طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے؟مشرق وسطیٰ کوئی بھی فیصلہ کرے،اس میں پاکستان کے کردار صرف نظر نہیں کیا جا سکتا،پاکستان کے اندرونی حالات،امریکہ کو مطلوب’’ دہشت گرد‘‘ کی ’’ پاکستان‘‘ سے دستیابی اور امریکہ کو فوری فراہمی،پاکستان کی ترجیحات کوو اضح کررہی ہیں تاہم جب تک معاملات کھل کر سامنے نہیں آتے،کچھ کہنا قبل ازوقت ہو گا اور ویسے بھی اس کا اختیار پاکستان میں جس کے ہاتھ ہے، اس پر بات کرنے سے پر جلتے ہیں تاہم باشعور حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button