Editorial

ملک و قوم کی ترقی میں کاروباری برادری کا ناقابلِ فراموش کردار

قیام پاکستان سے لے کر اب تک ملک کی ترقی میں یہاں بسنے والی کاروباری برادری کا اہم کردار رہا ہے۔ ان کی کاوشوں کی بدولت ناصرف صنعتوں کا پہیہ چلتا رہا، پیداوار بڑھتی رہی، برآمدات میں اضافہ ہوتا رہا، بے شمار لوگ باعزت روزگار کما کر اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالتے رہے۔ کاروباری برادری کی ملک و قوم کے لیے ناقابل فراموش خدمات ہیں، انہیں پورے ملک میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں موجودہ حکومت کو قائم ہوئے ابھی ایک سال ہی ہوا ہے، اس مختصر سی مدت میں حکومت نے عظیم کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہیں۔ ملکی معیشت کی درست سمت کا تعین کرنے کے ساتھ اسے ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے۔ گرانی پر خاصی حد تک قابو پایا گیا ہے، اسے سنگل ڈیجٹ پر لایا گیا ہے۔ شرح سود کو ساڑھے 22فیصد کی بلند ترین سطح سے 12فیصد پر لایا گیا ہے۔ دوست ممالک کو پاکستان میں بڑی سرمایہ کاریوں پر رضامند کیا گیا ہے۔ اس کا سہرا وزیراعظم شہباز شریف اور اُن کی ٹیم کے سر بندھتا ہے، جنہوں نے شبانہ روز محنت و لگن سے ملک کو عالمی سطح پر اہم مقام دلانے کا عزم کیا۔ اُن کے لیے اقتدار پھولوں نہیں کانٹوں کی سیج کے مترادف تھا۔ اس کے باوجود اُنہوں نے اپنی سیاست کو دائو پر لگاتے ہوئے قوم کو مشکلات کے بھنور سے نکالنے کا عزم کیا اور جب نیک مقصد کے لیے شفاف دلی کے ساتھ قدم بڑھائے جائیں تو کامیابی ضرور مقدر بنتی ہے۔ حالات سنور رہے ہیں۔ غریبوں کی حالت زار میں بتدریج بہتری آرہی ہے۔ حکومت غریبوں کو مہنگی بجلی کے عفریت سے بچانے کے لیے کوشاں ہے۔ کئی آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم کیے گئے ہیں اور جلد بجلی قیمتوں میں بڑی کمی دیکھنے میں آئے گی۔ کاروبار کے لیے سازگار ماحول بنانا حکومت کا بڑا کارنامہ ہے۔ اس پر کاروباری برادری اُس کی شکر گزار نظر آتی ہے۔ گزشتہ روز ملکی کاروباری شخصیات کے وفد نے وزیراعظم سے ملاقات کی، جس میں وزیراعظم نے ملکی سطح پر سرمایہ کاری میں اضافے پر زور دیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کاروباری برادری ملک کا اثاثہ ہے، پاکستان کی معیشت کا پہیہ یہیں سے چلے گا، لوگوں کو روزگار بھی آپ ہی کی کاوشوں سے ملا۔ حکومت میں جہاں جس کی غلطی ہوگی اب اسے جواب دہ ہونا پڑے گا۔ ملک کی میکرو اکنامک حالت بتدریج بہتر ہورہی ہے، کاروباری افراد کے مسائل حل کرنا میری ترجیح ہے۔ اپنے سرمایہ کار ملک میں سرمایہ کاری کریں گے تب ہی بیرونی سرمایہ کاری آئے گی، بیرونی سرمایہ کاری لانے کا اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں۔ گزشتہ روز ملکی کاروباری شخصیات کے وفد نے وزیراعظم سے ملاقات کی اور وزیراعظم کی قیادت میں حکومت کی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کرنے کے ساتھ کاروباری برادری و سرمایہ کاروں کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔ ملاقات کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آپ سب کی آمد کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ مخلص اور دیانت دار کاروباری برادری ہمارا قیمتی اثاثہ ہے، آپ سب نے مشکل وقت میں بھی ملکی صنعتی و معاشی ترقی کے لیے اپنا سرمایہ اس ملک میں لگایا۔ شہباز شریف نے کہا کہ آپ کی کاوشوں کی بدولت ملک کی معیشت کا پہیہ چلا، لوگوں کو روزگار ملا۔ آپ کی مشاورت اور مفید آرا سے ملکی معیشت کو بہتری اور تمام شعبوں میں اصلاحات کا سفر جاری رکھیں گے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ الحمدللہ ملکی معیشت صحیح سمت کی طرف گامزن ہے۔ شرح سود اور مہنگائی کی شرح میں خاطر خواہ کمی آ چکی ہے۔ حکومت ملک میں کاروباری سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری کا سفر مقامی سرمایہ کاروں سے شروع ہوتا ہے۔ آپ سے مشاورت کا مقصد ملک کی معیشت کی ترقی میں تیزی لانا ہے۔ بیرون ملک تعینات ٹریڈ آفیسرز کو تجارت و برآمدت کے فروغ کے حوالے سے واضح اہداف فراہم کیے جاچکے ہیں۔ وفد نے حکومت کی کاروبار دوست پالیسیوں پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور ملک میں زراعت کی ترقی کے لیے معیاری بیج کی فراہمی کو یقینی بنانے کے حوالے سے نیشنل سیڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام پر حکومت کو خراج تحسین پیش کیا۔ وفد کے ارکان نے حکومت کے گرین پاکستان انیشی ایٹیو کی بھی تعریف کی اور کہا کہ حکومت کی پالیسیوں کی بدولت ملکی آئی ٹی کی صنعت دنیا میں تیزی سے اپنا مقام بنا رہی ہے۔ اس موقع پر وفد کے ارکان نے مختلف شعبوں کے حوالے سے تجاویز بھی پیش کیں۔ وزیراعظم نے تمام متعلقہ وزارتوں کو کاروباری شعبوں کے نمائندوں و اسٹیک ہولڈرز سے ملاقات کرکے ان سے مشاورت کرنے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم کا کہا گیا ایک ایک لفظ سچ پر مبنی ہے۔ ملکی کاروباری شخصیات کو اپنی سرمایہ کاری بڑھانی چاہیے۔ یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے اور تقاضا بھی۔ یقیناً محب وطن کاروباری برادری اس حوالے سے قدم بڑھائے گی۔ جب ملکی سرمایہ کاری بڑھے گی تو بیرون ممالک سے بھی سرمایہ کاروں کو یہاں سرمایہ کاری کی ترغیب ملے گی۔ حکومت نے سرمایہ کاری کے سازگار ماحول بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اس حوالے سے حالات خاصے سازگار ہیں۔ کاروباری برادری کو درپیش مشکلات کے حل کے لیے وزیراعظم نے اپنا عزم ظاہر کیا ہے۔ وزیراعظم کا یہ فرمانا کہ حکومت میں جہاں جس کی غلطی ہوگی اب اسے جواب دہ ہونا پڑے گا، یہ موجودہ حکومت کی شفافیت اور نیک نیتی کو ظاہر کرتا ہے۔ وطن عزیز ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن ہے، ان شاء اللہ آئندہ وقتوں میں مزید صورت حال بہتر ہوگی۔

عالمی یوم خواتین کے تقاضے
پاکستان کی کُل آبادی کا 52فیصد حصّہ خواتین پر مشتمل ہے۔وطن عزیز کے طول و عرض میں جائزہ لیا جائے تو عورتیںآج بھی اپنے حقوق سے یکسر محروم نظر آتی ہیں۔ شہروں میں تو پھر بھی اُن کی حالت کچھ بہتر قرار دی جاسکتی ہے، لیکن یہاں بھی ان کی حق تلفی کے واقعات اکثر دیکھنے میں آتے ہیں جب کہ دیہی سماج میں اُن کا کوئی پرسانِ حال ہے ہی نہیں، وہاں اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، مرد اُنہیں پیروں کی جوتی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے، زیور تعلیم اُن کے لیے شجر ممنوعہ قرار پاتا ہے، پسند کی شادی وہ کرنہیں سکتیں، کھیتوں میں اُن سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا ہے، قبیح رسوم (ونی، کاروکاری وغیرہ) اُن پر پے درپے مسلط کی جاتی ہیں، کم عمری میں اُنہیں بوڑھے افراد سے بیاہ دیا جاتا ہے، غیرت کے نام پر قتل کا سب سے زیادہ شکار بھی عورتیں ہی بنتی ہیں، سفّاک افراد تیزاب پھینک کر ان کو زندگی بھر کے عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں۔ یہ خواتین کی کسمپرسی کے وہ نوحے ہیں کہ جن پر مباحث تو ہر سطح پر کیے جاتے ہیں، ان کی مذمت بھی بڑی شدومد سے کی جاتی ہے، لیکن ان کے حل اور عورتوں کو حقوق کی فراہمی کے لیے سنجیدہ کوششیں کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آتیں۔ اس دورِ جدید میں جہاں مہذب معاشروں میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں، وہیں ہمارے سماج کی اکثر عورتیں یہ سب کرنے کے باوجود بھی اپنی قسمت پر ماتم کناں دِکھائی دیتی ہیں، وہ مختلف شعبوں میں کام کرتے ہوئے ملک کی ترقی میں اپنا بھرپور حصّہ ڈالتی ہیں، لیکن انہیں سراہا نہیں جاتا، اہمیت نہیں دی جاتی، مناسب معاوضہ نہیں ملتا، یہ یقیناً افسوس ناک صورت حال ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان سمیت پوری دُنیا میں ہفتے کو خواتین کا عالمی دن منایا گیا، جس کا بنیادی مقصد ناصرف خواتین کو ان کے بنیادی حقوق کے بارے میں آگاہی دینا بلکہ ان کی معاشرتی اہمیت کو بھی اجاگر کرناتھا۔ اس حوالے سے ملک کے مختلف شہروں میں تقریبات منعقد کی گئیں، جن میں خواتین کے حقوق کے لیے بڑھ چڑھ کر باتیں ہوئیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا محض ایک دن عورتوں کے لیے وقف کردینے سے اُنہیں حقوق میسر آجائیں گے؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہی آئے گا۔ ضروری ہے کہ محض زبانی کلامی ہی نہیں بلکہ عملی طور پر خواتین کو اُن کے حقوق کی فراہمی کے لیے حکومت سمیت ملک کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو پورے سال جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ باتوں اور دعووں کا وقت گزرچکا، خواتین کی خاصی حق تلفی ہوچکی، اب اس طویل سلسلے کو روکنے کے واسطے کام کیاجائے۔ عالمی یوم نسواں تقاضا کرتا ہے کہ عورتوں کو ناصرف حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جائے بلکہ اُن کی معاشرتی اہمیت و افادیت کو تسلیم کیا جائے اور سب سے بڑھ کر اُنہیں سماج میں عزت و احترام سے نوازا جائے۔اُنہیں بااختیار بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں، کیونکہ ایسا کرنے سے ہمارا ملک مزید تیزی سے ترقی کرے گا۔

جواب دیں

Back to top button