ColumnRoshan Lal

بچوں کے حقوق کی پہچان

تحریر : روشن لعل
عام معنوں میں لفظ ’’ پہچان‘‘ سے مراد کسی کو شناخت کرنا ہے۔ حقیقی معنوں میں کسی شے کے ہونے کا احساس اور اس کی موجود گی تسلیم کئے جانے کو اس کی ’’ پہچان‘‘ کرنا کہا جاتا ہے۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف شناخت نہیں بلکہ مکمل جاننے کو ’’ پہچان‘‘ کرنا کہا جاتا ہے۔ زندگی سے جڑے جن معاملات کی پہچان کرنا انتہائی ضروری ہے ، ان کا ایک اہم جز بچوں کے حقوق ہیں۔ پاکستان میں کئی سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں بچوں کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ایسی تنظیموں کی جانب سے جب بھی کسی تقریب میں شرکت کی دعوت ملتی ہے، بچوں کے حقوق کی اہمیت کے سبب دیگر مصروفیات ترک کے اس میں شرکت کی جاتی ہے۔ ایسی تقریبات میں شریک ہو کر اگر بچوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی اہم بات سننے کو ملے تو اپنے کالموں میں اس کا ذکر فرض سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ’’ پہچان ‘‘ نامی تنظیم سے تعارف ہوا۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی اکثر تنظیموں کا دائرہ کار صحت کے تحفظ، حصول تعلیم کے یکساں مواقع کی فراہمی اور بچوں کو جنسی حراسگی سے محفوظ رکھنے جیسے نکات تک محدود ہوتا ہے لیکن’’ پہچان‘‘ نے کچھ ایسی مختلف باتوں کو بھی اپنے پروگرام کا حصہ بنا رکھا ہے جنہیں جاننے کے بعد یہ طے کیا کہ اپنی آئندہ کسی تحریر میں ان باتوں کا ذکر ضرور کیا جائے گا۔
دنیا میں انسانی حقوق کا تصور اجاگر ہونے کے بعد نہ صرف انسانی حقوق کا عمومی چارٹر تشکیل پایا بلکہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے الگ سے حقوق بھی وضع ہوئے۔ دو انسانی گروہوں کے علاوہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے لیے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ خود اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز بلند کر سکتے ہیں۔ دو انسانی گروہوں کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ نہ وہ اپنے طے شدہ حقوق سے آگاہ ہیں اور نہ بذات خود اپنے حقوق مانگ سکتے ہیں ، ان دو میں سے ایک گروہ ذہنی معذوروں اور دوسرا بچوں کا ہے۔ ذہنی معذوروں کے انسانی حقوق کا تحفظ کرنے کے باوجود ان کی اکثریت کو سماج کے لیے کارآمد انسان نہیں بنایا جاسکتا لیکن بچوں کا معاملہ مختلف ہے۔ بچوں کا معاملہ اس لیے مختلف ہے کیونکہ انہیں طے شدہ حقوق فراہم کر کے ایسے کارآمد اور مفید انسان بنایا جاسکتا ہے جو آنے والے وقتوں میں دنیا کے معاملات بہتر ین طریقوں سے طے کر سکیں گے۔
انسانی حقوق کے تصور کا خالق فارس کے اس سائرس دی گریٹ کو کہا جاتا ہے جس نے 539قبل مسیح میں بابل فتح کرنے کے بعد غلاموں کو آزاد کرتے ہوئے یہ فرمان جاری کیا تھا کہ اپنے لیے کسی بھی مذہب کا انتخاب ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور نسل کی بنیاد پر کسی انسان کو دوسرے انسان سے کم تر یا برتر نہیں سمجھا جاسکتا۔ سائرس کے جس فرمان کو انسانی حقوق کے تصور کا ماخذ قرار دیا جاتا ہے وہ ارتقا پذیر ہوئے بغیر آنے والے تاریک ادوار میں کہیں گم ہوگیا۔ آج کے جدید دور میں ہمیں انسانی حقوق جس شکل میں نظر آتے ہیں ان کی ضرورت کا احساس صنعتی انقلاب برپا ہونے کے بعد اس وقت پیدا ہوا جب سرمایہ داروں نے اپنی صنعتوں کی وسیع تر پیداوار کے لیے انسانی محنت کا استحصال کرنا شروع کیا۔ اس دور کے صنعت کاروں کے استحصال کا شکار تو ہر مزدور ہوا لیکن عورتوں اور بچوں کا دوہرا استحصال یوں کیا گیا کہ ان سے مساوی کام لینے کے باوجود آدھا معاوضہ دیا جاتا تھا۔ انیسویں صدی میں مزدوروں اور عام انسانوں کے حقوق کے لیے شروع ہونے والی جدوجہد کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ یورپ میں دانشوروں پر مشتمل ایسی سول سوسائٹی پیدا ہو گئی جس نے انسانی حقوق کی تشکیل اور انہیں تسلیم کروانا اپنا مشن بنا لیا۔ یورپ کی اس سول سوسائٹی نے اس وقت بچوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی جب جنگ عظیم اول میں فائر بندی کا معاہدہ ہونے کے بعد اتحادی فوجوں نے اس لیے مہینوں جرمنی، آسٹریا اور ہنگری کا محاصرہ کیے رکھا کیونکہ ان کے مطابق ابھی جنگ بندی کا معاہدہ طے نہیں طے پایا تھا۔ یورپی سول سوسائٹی نے اس بات پر احتجاج کیا کہ اتحادی فوجوں کے محاصرے کے سب سے زیادہ منفی اثرات وہاں کے بچوں کی تعلیم ، صحت اور بچپن پر مرتب ہو رہے ہیں۔ یورپی سول سوسائٹی کا یہ احتجاج نہ صرف اتحادی فوجوں کے محاصرے کے خاتمے کی بنیاد بنا بلکہ اسی کے بطن سے بچوں کے حقوق کی عالمی تحریک نے بھی جنم لیا ۔ بچوں کے حقوق کی یہی تحریک ’’ سیو دی چلڈرن فنڈ‘‘ اور تنظیم کے قیام کا محرک ثابت ہوئی ۔ اسی تحریک کے ارتقا کے نتیجے میں پہلے لیگ آف نیشنز اور بعد ازاں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بچوں کے حقوق کے نکات بتدریج طے ہونا شروع ہوئے اور آخر کار 1989ء میں بچوں کے حقوق کا عالمی کنونشن منظور کر لیا گیا۔
’’ پہچان‘‘ نہ صرف بچوں کے حقوق کے ضمن میں 1989ء کے کنونشن سے پہلے اور بعد میں طے ہونے والے نکات پر پاکستان میں عملدرآمد کے لیے کوشاں ہے بلکہ اس کا مختلف انداز میں کیا جانے والا کام یہ ہے کہ یہ تنظیم بچوں کے حقوق کو کچھ دیگر باتوں سے بھی جوڑتی ہے۔ ’’ پہچان‘‘ کا ماننا ہے کہ ہر بچے کے حقوق کے تحفظ کیونکہ اس کے پیدا ہونے سے پہلے اس کے اپنی ماں کے پیٹ میں موجودگی سے شروع ہو جاتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ کسی بھی لڑکی کی کم عمر میں شادی نہ ہو ، تاکہ کم عمر ماں کے پیٹ میں پلنے والا بچہ ان مسائل سے محفوظ رہ سکے جوا سے ماں کی کم عمری کی وجہ سے لاحق ہو سکتے ہیں ۔ اسی طرح ’’ پہچان‘‘ ان باتوں کا بھی ابلاغ کرتی ہے کہ جس خاندان میں کوئی بچہ جنم لیتا ہے اس خاندان کو اس حد تک معاشی تحفظ ضرور دستیاب ہونا چاہئے کہ دیگر لوگوں کے ساتھ اس بچے کو بھی زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی کوئی کمی نہ ہو۔ ایسا ہونا اسی وقت ممکن ہے جب اس خاندان کے سربراہ کو روزگار دستیاب ہو اور نوزائیدہ بچے کے والدین فیملی پلاننگ کی طرف مائل ہوں۔ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی شاید ہی کسی دوسری تنظیم نے اپنے پروگرام میں ان باتوں کو شامل کیا ہو جن کا ابلاغ بچوں کے حقوق سے جوڑ کر’’ پہچان ‘‘ کے پلیٹ فارم سے کیا جارہا ہے۔
بچوں کے حقوق کے تحفظ کے تصور کے ساتھ ہر وہ پہلو جڑا ہوا ہے جس کا تعلق بچوں کی بہبود سے ہے۔ پیدائش سے بالغ ہونے تک ہر بچے کو صحت اور تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ جنسی ہراسگی اور ہر قسم کے استحصال سے تحفظ دیا جانا ضروری ہے۔ ہر بچے کا یہ بنیادی حق ہے کہ اس کے بچپن کے دنوں میں اسے کھیلنے کودنے اور خوش ہونے کے حق سے کسی طرح بھی محروم نہ رہنے دیا جائے۔ ’’ پہچان‘‘ کا ماننا ہے کہ معاشی مسائل کے شکار کسی خاندان میں بچوں کے حقوق کا تحفظ ممکن ہو ہی نہیں ہو سکتا ، لہذا بچوں کے حقوق کی پہچان کا تقاضا ہے کہ خاندانوں کے معاشی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے تاکہ حقیقی معنوں میں بچوں کے حقوق کا تحفظ ممکن ہو سکے ۔

جواب دیں

Back to top button