قربانی کا بکرا

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض)
رجیم چینج کی بنیاد بننے والی روس یوکرین کی جنگ کو سمجھنے کے لئے ماضی کے جھرونکوں میں جھانکے بغیر ممکن نہیں کہ سوویت یونین کے حصے بخرے ہوتے وقت، یوکرین کی آزاد ہونے والی ریاست ،یکدم دنیا کی تیسری بڑی ایٹمی ریاست بن گئی تھی، جسے قبول کرنے کے لئے موجود عالمی طاقتیں کسی بھی صورت تیار نہ تھی لہذا چکنی چپڑی باتوں سے یوکرین کے زعماء کو بہلا پھسلا لیا گیا اور یوکرین سے ایٹمی ہتھیاروں کی دستبرداری یقینی بنا لی گئی۔ بمشکل چند دہائیوں تک یو کرین آزاد ریاست کی اپنی حیثیت برقرار رکھ سکا لیکن اس دوران روس بتدریج اپنی پوزیشن مستحکم کرتا چلا گیا اور الگ ہونے والی ریاستوں کو بالعموم اور یوکرین پر اس کی التفات خصوصی رہی۔ ممکن تھا کہ روس یوکرین یا دیگر ریاستوں پر جارحیت کا ارتکاب نہ کرتا لیکن یوکرین کے موجودہ صدر، جو اس وقت بہرحال غیر قانونی طور پر صدر کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں کہ دوران جنگ وہاں انتخابات کا انعقاد ممکن نہ تھا،کی نیٹو میں شمولیت کی خواہش نے، یوکرین کی ریاست کے لئے مشکلات کھڑی کر دی۔ پیوٹن جارحیت سے قبل بارہا اس امر کا اظہار کر چکے تھے کہ وہ کسی بھی صورت نیٹو کو اپنے پڑوس میں برداشت نہیں کریں گے اور ایسی کسی کوشش کا نتیجہ معاملات کو بگاڑنے کا سبب بن سکتا ہے لیکن جو بائیڈن انتظامیہ نے اس تنبیہ پر کان نہیں دھرے اور اپنے تئیں غیرمحسوس طریقے سے نیٹو کو یوکرین ،روس کے پڑوس تک پھیلانے کی کوششیں جاری رکھی۔ نتیجہ یہ کہ روس کی برداشت جواب دے گئی اور اس شرارت کا جواب جارحیت کی صورت سامنے آیا،جو بائیڈن انتظامیہ نے اس جنگ کو بھڑکانے میں اپنی کوششیں جاری رکھی اور یوکرین کو امریکی اسلحہ کی فراہمی کے لئے جو بھی ممکنہ اقدامات تھے،ان کو استعمال کیا ۔شنید تو یہ بھی ہے کہ رجیم چینج کے بعد ،پاکستان کو بھی استعمال کیا گیا اور یوکرین کے لئے اسلحہ فراہم کرنے کے لئے پاکستان کا کردار بھی ہے،واللہ اعلم بالصواب البتہ حالات و واقعات اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ رجیم چینج کے بعد جس طرح مالی طور پر پاکستان کو نوازا گیا،گو کہ یہ وعدے وعید سے انتہائی کم تھا لیکن بہرطور پاکستان کو مشکل ترین مالی حالات میںاتنا نوازا گیا کہ پاکستان مکمل طور پر ڈیفالٹ نہ کرے اور قرضوں کی دلدل میں دھنسا ،ہاتھ پیر مارتا رہے۔ دوسری طرف نیٹو ممالک ،یورپ کی جانب سے یوکرین کی مکمل حمایت جاری رہی اور اسے مالی و دفاعی سازوسامان سے مدد پہنچائی جاتی رہی ،بلکہ اس دوران یہ خبریں بھی منظر عام پر آئیں کہ دیگر ممالک کی افواج بھی کہیں نہ کہیں یوکرین میں برسرپیکار رہی ہیں۔ اس پس منظر میں روس مسلسل غضبناک دکھائی دیا اوراس کی جارحیت میں تسلسل دیکھا گیا اور کسی بھی صورت میں روس پیچھے نہیں ہٹا بلکہ ایک مخصوص محاذ پر یوکرین کی جارحیت کا جواب دینے کے لئے،روس کی معاونت شمالی کوریا کے فوجیوں نے محاذ جنگ پر کی۔جو بائیڈن کی ان پالیسیوں کے خلاف تب کے اپوزیشن لیڈر ٹرمپ شدید تنقید کرتے رہے اور امریکہ کو اس شرارت سے بازرہنے کی تلقین کرتے رہے لیکن جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی،اندھا دھند یوکرین محاذ پر مالی وسائل جھونکتے رہے۔ تاہم ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد،حالات یکسر بدل چکے ہیں اور ساری دنیا جانتی ہے کہ ٹرمپ کے روس و چین کے صدور کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہے اور وہ ان دونوں ممالک سے کس طرح بروئے کار آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ٹرمپ نے اقتدار میں آنے سے قبل ہی نہ صرف مشرق وسطی میں جنگ بندی کے واضح احکامات دئیے بلکہ یوکرین میں جاری جنگ کے حوالے سے بھی ان کے تحفظات واضح تھے اور وہ خطے کو جنگ سے پاک دیکھنا چاہتے تھے۔ اس ضمن میں ٹرمپ کی بات چیت ،پیوٹن سے ہو چکی تھی اور وہ کسی بھی قیمت پر یوکرین کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے، یوکرین کو ہر صورت جنگ بندی کی طرف لانے کا عندیہ دے چکے تھے،جس کے لئے ٹرمپ نے سب سے پہلے تو یوکرین کی جاری امداد کو روک دیا تا کہ وسائل و کمک کی عدم موجودگی میں ،یوکرین جنگ جاری رکھنے کے قابل نہ رہ سکے اور روس کو یہ یقین دہانی ہو جائے کہ امریکی انتظامیہ روس کے پڑوس میں نیٹو کو لانے سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔ علاوہ ازیں! امریکی معیشت ایسی جنگوں کا بوجھ اٹھانے سے بھی قاصر ہوتی جارہی ہے اور ٹرمپ بہرصورت چاہتے کہ امریکی وسائل کو یوں بے دریغ جھونکنے سے گریزکیا جائے اور ایسے ممالک جن کے تحفظ کا بوجھ امریکہ نے انتہائی کم قیمت پر اٹھا رکھا ہے،اس سے جان چھڑائی جائے یا کم ازکم اس تحفظ کے عوض صحیح معاوضہ وصول کیا جائے۔ نیٹو جیسے اتحاد ہوں یا کواڈ جیسی تنظیم ،جس میں امریکہ ایک بڑے شراکت دار کی حیثیت سے ان تنظیموں کا بوجھ اٹھائے پھرے جبکہ اس میں شامل دیگر ممالک معمولی وسائل کے ساتھ ،امریکی آشیرباد کے ساتھ اپنے خطوں میں چودھراہٹ سے محظوظ تو ہوتے رہے لیکن امریکی مفادات کا تحفظ کماحقہ نہ ہو سکے۔ اس حوالے سے کواڈ کی کارکردگی کا ملاحظہ کیا جائے تو اس میں شامل بھارت جیسے ملک کی کارکردگی ،قطعا امریکی مفادات کا تحفظ کرنے میں کامیاب دکھائی نہیں دیتی بلکہ اس کے برعکس خطے میں امریکی مفادات کا نقصان تو ہوا ہے ،خود بھارت کو چین کے ہاتھوں عبرتناک شکست کا سامناکرنا پڑا ہے اور اس کا بڑا زمینی حصہ چین بہت آسانی سے لے چکا ہے،جسے چین ہمیشہ سے اپنا علاقہ کہتا رہا ہے۔ایسی تنظیموں کی آبیاری کرنے میں امریکہ اپنے بہت سے مالی وسائل بے دریغ لٹاتا رہا ہے لیکن ٹرمپ اس کے قطعی حق میں نہیں بلکہ وہ امریکی وسائل کا استعمال امریکی شہریوں کے لئے کرنا چاہتا ہے۔ اسی لئے ٹرمپ نے روس و چین کے ساتھ اختلافات مل بیٹھ کر ختم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے دفاعی بجٹ میں نصف کمی کی تجویز دی ہے تا کہ اس کمی سے اپنے شہریوں کے لئے بہتر زندگی فراہم کی جا سکے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دفاعی ضروریات کے حوالے سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ بجٹ بھی امریکہ کا ہے اور روس و چین کے دفاعی بجٹ مل کر بھی امریکی دفاعی بجٹ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔امریکہ کے نیٹو سے نکلنے کے اعلان کے بعد،یورپ میں تشویش کی لہر دوڑ چکی ہے کہ ان کا دفاع بہرطور نیٹو کے تحت ،امریکہ کی ذمہ داری رہی ہے اور اتنے کم و قت میںیورپ کے لئے اپنے دفاع کو ازسر نوکھڑا کرنا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے کہ یورپ یہ سمجھتا ہے کہ روس سے انہیں براہ راست خطرہ ہے ۔بالخصوص نیٹو کی چھتری نہ ہونے کے سبب روس کو جارحیت سے روکنے والاکوئی نہیں ہو گا اور کوئی بعید نہیں کہ نیٹو کی چھتری ہٹتے ہی،روس یوکرین سے نپٹ کر یورپ میں جا پہنچے،اس کا کتنا امکان ہے،اس کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ یورپ کے لئے یہ دردسر بہرطور موجود ہے۔عین ممکن ہے کہ روس ایسا کوئی اقدام نہ کرے لیکن مستقبل کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ نیٹو ختم کرنے سے قبل یقینی طور پر کچھ نہ کچھ افہام تفہیم و یقین دہانیاں ،یورپ کے تحفظ کے حوالے سے ضرور ہوں گی۔
علاوہ ازیں!جو معاملات اس وقت یوکرین کے حوالے سے سامنے آ رہے ہیں،وہ انتہائی چشم کشا ہیں اور یہاں موجود نایاب معدنیات کے حوالے سے جو حقائق سامنے آ رہے ہیں،اور جس طرح بندربانٹ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے،وہ اس خطے میں مستقبل قریب میں رسہ کشی ختم نہ ہونے کی منظر کشی کر رہی ہے۔ایک طرف برطانیہ ہے کہ جس نے سترہ جنوری، ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل ہی ،سوسالہ معاہدہ کیا ہے تو دوسری طرف امریکہ یوکرین پر کی گئی سرمایہ کاری کے عوض ، معدنیات کے حوالے سے معاہدہ کرنا چاہتا ہے تا کہ دوران جنگ یوکرین کو دئیے گئے ساڑھے تین سو بلین امریکی ڈالرز کے عوض کچھ ریکوری کے آثار ہوسکیںتو تیسری طرف روس امریکہ کو اپنے زیر اثر یوکرینی علاقہ میں معدنیات نکالنے کے لئے سرمایہ کاری کی ترغیب دے رہا ہے۔ جبکہ منظر نامہ کیا بن رہا ہے ،وہ انتہائی دلچسپ ہے کہ زیلنسکی کی اوول ہاؤس میں ٹھیک ٹھاک عزت افزائی کے بعد ،زیلنسکی کو برطانیہ میں خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور یورپ و کینیڈا کے اکابرین نے اسے شرکائے کانفرنس کے گروپ فوٹو میں مرکز نگاہ رکھا اور اسے درمیان میں جگہ دی ہے،یہ ایک طرح سے امریکی بے اعتنائی کا جواب ہے تو دوسری طرف زیلنسکی کو بانس پر چڑھانے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے کہ جاری جنگ فوری طور پر ختم نہ ہو اور کسی طرح زیلنسکی کو قربانی کا بکرا بنایا جائے،گو کہ اس سے معاملات پرکوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔