حکومتی کامیابیوں کا ایک سال

سال پہلے جب وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت نے عنان اقتدار سنبھالا تو حالات خاصے دگرگوں تھے۔ ملکی معیشت پر مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ اُس وقت اقتدار پھولوں نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج تھی۔ وزیراعظم نے اقتدار سنبھالتے ہی شب و روز محنتوں کو شعار بنایا۔ اُن کی ٹیم نے بھی اُن کا بھرپور ساتھ دیا۔ معیشت کی بہتری کی منزل کی جانب تیزی سے قدم بڑھائے گئے۔ معیشت کی درست سمت کا تعین کیا گیا۔ دوست ممالک کے دورے کرکے وزیراعظم نے اُنہیں پاکستان میں بڑی سرمایہ کاریوں پر رضامند کیا۔ آئی ٹی اور زراعت میں انقلاب لانے کے لیے بڑے فیصلے کیے گئے۔ اسی طرح دیگر تمام شعبوں میں اصلاحات کے سلسلے کا آغاز کیا گیا، جو اَب تک جاری ہے۔ حکومتی اخراجات میں بڑی کمی لائی گئی۔ کفایت شعاری کو اختیار کیا گیا۔ جب نیک نیتی کے ساتھ عوام کے مفاد میں قدم بڑھائے جائیں تو کامیابی ضرور قدم چومتی ہے۔ عالمی ادارے بھی اپنی رپورٹس میں حکومتی اقدامات کی تعریف کررہے ہیں، جن کے نتیجے میں ناصرف مہنگائی سنگل ڈیجٹ پر آچکی ہے بلکہ شرح سود میں بھی بڑی کمی محض چند ماہ کے دوران ہی واقع ہوئی ہے اور وہ ساڑھے 22 فیصد کی بلند ترین سطح سے 12 فیصد پر آچکی ہے۔ بہت سی اشیاء سستی ہوچکی ہے اور آگے چل کر مزید اُن کی قیمتوں میںکمی متوقع ہے۔ بیرون ممالک سے وطن عزیز میں ترسیلاتِ زر میں بڑا اضافہ ہوا۔ درآمدات گھٹ اور برآمدات بڑھ رہی ہیں۔ حکومت کی ٹیکس آمدن میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ معیشت دن بہ دن مستحکم اور مضبوط ہورہی ہے۔ شہباز شریف کی قیادت میں حکومت نے اپنے ایک سال میں وہ کر دِکھایا جو ماضی کی حکومتیں اپنی پوری مدت اقتدار گزار لینے کے باوجود کرنے سے قاصر تھیں۔ گزشتہ روز موجودہ حکومت کا سال مکمل ہونے پر وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا، جس سے وزیراعظم شہباز شریف نے خطاب فرمایا۔اجلاس سے خطاب میں شہباز شریف نے کہا کہ آج ہماری حکومت کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے، لیکن اپوزیشن ہمارے خلاف کوئی اسکینڈل نہیں لاسکی جب کہ ملکی ترقی اور خوشحالی کا سفر خوارج کے خاتمے تک ممکن نہیں۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج ہماری حکومت کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے، آج ہی کے دن یہ حکومت بنی تھی اور آج نہ صرف ہم ایک سال مکمل کر چکے بلکہ دو دن پہلے کابینہ میں اضافہ بھی ہوا، مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کی شمولیت سے مجھے، حکومت اور عوام کو بے پناہ فائدہ پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج ماہ رمضان کا تیسرا دن ہے اور اس ماہ کی برکات پورے پاکستان کے 24کروڑ عوام اللہ کی رحمت سے فیض یاب ہورہے ہیں اور یہ مہینہ ہمیں درس دیتا ہے کہ خود کو خدمت انسانیت کے لیے وقف کردیں۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے اس سال رمضان پیکیج پچھلے سال کے 7ارب روپے کے مقابلے میں 20ارب روپے مختص کیا ہے، جو چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں 40لاکھ خاندانوں کو انتہائی جدید طریقے سے پہنچایا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماری معیشت ایک سال پہلے ہچکولے کھارہی تھی اور ڈیفالٹ کے بہت قریب پہنچ چکی تھی جس کی بے شمار وجوہ ہیں لیکن میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ جب ہم آئی ایم ایف سے گفتگو کررہے تھے تو وہ کون لوگ ہیں جو آئی ایم ایف کو خطوط لکھ رہے تھے کہ پاکستان کا پروگرام منظور نہ کریں، اُن کی جانب سے یہ تک کہا گیا کہ بطور فلاں فلاں صوبے کے وزیر خزانہ ہم آپ کو لکھ کر دے رہے ہیں کہ آپ یہ پروگرام منظور نہ کریں، آج میں کہنا چاہوں گا کہ اس سے بڑی ملک دشمنی اور کوئی ہو نہیں سکتی لیکن آج ہم نہ صرف ڈیفالٹ سے نکل آئے بلکہ آج ورلڈ بینک سمیت تمام عالمی ادارے اپنی زبان سے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے میکرو اکنامک اشاریے مثبت ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی تمام اتحادی جماعتوں کی بدولت یہ تمام مشکل مراحل عبور کرنے میں آسانی سے کامیاب ہوئے ہیں اور اب ملکی ترقی کا سفر شروع ہونے جارہا ہے اور ہماری یہ کامیابی ٹیم ورک کا نتیجہ ہے اور آج تمام ادارے ایک پیج پر ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ ملکی ترقی اور خوشحالی کا سفر خوارج کے خاتمے تک ممکن نہیں ہوسکتا۔ سیکیورٹی فورسز فتنہ خوارج کے خاتمے کے لیے برسرپیکار ہیں اور انہیں بڑی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ خوارج کو بڑی تعداد میں جہنم واصل اور گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان کی جانب سے ملک و قوم کو نقصان پہنچانے کی تمام تر مذموم کوششوں کو ہماری بہادر افواج انتہائی جانفشانی سے ناکام بناتی ہیں۔ خوارج کے خاتمے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔ اس ضمن میں جلد عوام کو خوش خبری ملے گی۔ ملک تیزی سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگا۔ عوام کو ثمرات ملیں گے۔ اُن کا مشکل دور ختم ہوچکا ہے، اب آگے چل کر اُن کے لیے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ ان شاء اللہ کچھ ہی سال میں وطن عزیز کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوگا۔
ماحولیاتی آلودگی کا عفریت
ماحولیاتی آلودگی کا عفریت دُنیا بھر میں بڑی تباہ کاریاں مچارہا ہے۔ اس کے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے، جہاں آلودگی کے باعث ہونے والے موسمیاتی تغیر کے انتہائی بد اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ سردی اور گرمی کی شدّت اس باعث بڑھ رہی ہے، موسم یکسر تبدیل ہوچکا ہے۔ فصلوں پر بھی اس کے منفی اثرات ظاہر ہورہے ہیں۔ نت نئے امراض سامنے آرہے ہیں۔ اطفال خاص طور پر زیادہ متاثر ہیں۔ اس باعث ملک کو قدرتی آفات زلزلوں، سیلابوں کا بھی سامنا رہتا ہے، جن میں ناقابل تلافی نقصانات دیکھنے میں آتے ہیں۔ 2022ء کا سیلاب انتہائی تباہ کُن تھا، جس میں ملک و قوم کو بے پناہ نقصانات برداشت کرنے پڑے۔ سیلاب سے جہاں 2ہزار لوگ جاں بحق ہوئے، وہیں لاکھوں بے گھر بھی ہوئے، ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں برباد ہوکر رہ گئیں۔ مال مویشی سیلابی ریلوں میں بہہ کر مر گئے۔ کافی عرصے تک سیلاب زدگان کو کھلے آسمان کے نیچے بے یارومددگار رہنا پڑا۔ دُنیا بھر کے ممالک ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے سنجیدگی سے کوشاں ہے جب کہ یہاں حکومت کی جانب سے اس حوالے سے اقدامات کیے بھی جاتے ہیں تو عوامی سطح پر حکومت کا ہاتھ بٹانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے باعث ہمارے شہر اکثر دُنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں سب سے اوپر ہوتے ہیں۔ کبھی کراچی اوّل نمبر پر ہوتا ہے تو کبھی لاہور۔ یہ امر دُنیا بھر میں ہماری جگ ہنسائی کا باعث بنتا ہے۔ گزشتہ روز بھی کراچی آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں اوّل نمبر پر آیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مطلع صاف تاہم فضائی معیار خراب ہے اور منگل کو یہ دُنیا کا آلودہ ترین شہر قرار پایا ہے۔ گزشتہ کئی روز سے ابر آلود موسم کے بعد کراچی کا مطلع منگل کو صاف رہا، تاہم فضائی معیار خراب نکلا۔ شہر قائد کا ایئر کوالٹی انڈیکس 179پرٹیکیولیٹ میٹرز ریکارڈ کیا گیا ہے اور منگل کو یہ دُنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست تھا۔ ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنا اکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں۔ ہر شہری کو ماحول کو انسان دوست بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ جس طرح لوگ اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھتے ہیں، اسی طرح یہ شہر، گلی محلے، سڑکیں اور عوامی مقامات بھی آپ کے ہی ہیں، ان کی صفائی کا بھی خصوصی خیال رکھا جائے اور ان مقامات پر گند پھیلانے یا کچرا پھینکنے سے گریز کیا جائے۔ درخت ماحولیاتی آلودگی روک تھام میں انتہائی کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ حکومتی سطح پر ہر کچھ روز بعد شجرکاری مہم شروع کی جائے، جس میں ہر شہری اپنا حصّہ ڈالے، اپنے حصّے کا پودا لگائے اور اُس کی آب یاری کی ذمے داری نبھائے۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں اور فیکٹریوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔ ان کے مالکان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔