
تحریر : سی ایم رضوان
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ میکرو اکنامک، معاشی بہتری کا فائدہ عوام تک پہنچنا شروع ہو گیا ہے، مجھے قوی امید ہے کہ افراط زر میں مزید کمی ہو گی۔ ساتھ ہی وزیر اعظم شہباز شریف نے کنزیومر پرائس انڈیکس کے حوالے سے افراط زر میں مسلسل کمی پر اظہار اطمینان کیا اور کہا کہ موجودہ حکومت نے اپنا ایک سال پورا کر لیا، اس موقع پر یہ ایک انتہائی اچھی خبر ہے۔ یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ افراط زر فروری 2025میں 1.5فیصد پر آ گئی جو ستمبر 2015 کے بعد سب سے کم شرح افراط زر ہے۔ جولائی 2024سے فروری 2025تک افراط زر کی اوسط 5.9فیصد تک رہی جبکہ پچھلے مالی سال میں اسی عرصہ میں یہ اوسط 28فیصد تھی، یہ ایک نمایاں کمی ہے۔ وزیراعظم نے کہا حکومت کی معاشی ٹیم کی شاندار کاوشوں کی بدولت معاشی اعشاریے ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتر ہو رہے ہیں۔
یہ صرف وزیراعظم یا حکومتی سطح کے بیانات کی بات نہیں بلکہ خود وفاقی ادارہ شماریات نے بھی بتایا ہے کہ فروری میں مہنگائی کی شرح مزید کم ہو کر ایک اعشاریہ پانچ دو فیصد پر آگئی11۔ ادارہ شماریات کے مطابق جنوری 2025میں مہنگائی کی شرح 2.41فیصد تھی۔ جنوری کے مقابلے میں فروری میں مہنگائی کی شرح میں 0.83فیصد کمی ہوئی ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق وزارت خزانہ نے فروری کیلئے مہنگائی کا تخمینہ دو سے تین فیصد کے درمیان لگایا تھا لیکن ملک میں مہنگائی کی شرح وزارت خزانہ کی توقعات سے بھی کچھ کم رہی۔
یہ کہنا ہر گز بیجا نہ ہو گا کہ معیشت کے تمام اعشاریئے مثبت اور امید افزا ہیں۔ وزیر اعظم نے حقائق قوم کے سامنے رکھے ہیں اور کوئی دھوکا یا جھوٹ نہیں کہا۔ یہ بھی جھوٹ نہیں کہ انہوں نے جب اقتدار سنبھالا تو ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا، آج ان کی مخلوط حکومت کا ایک سال مکمل ہو جانے پر یہ قرار دیا
جا سکتا ہے کہ حکومتی اقدامات کی بدولت مہنگائی آج کم ترین سطح پر ہے، ساڑھے 9سال بعد یہ مہنگائی کی کم ترین سطح ہے، اس میں محنت، ٹیم ورک اور ایس آئی ایف سی کا اہم کردار ہے، معاشی بحالی میں آرمی چیف کا کردار بھی قابل ستائش ہے کہ انہوں نے سب کچھ پیچھے چھوڑ کر صرف ملک اور معیشت کی بہتری کو ترجیح دی۔ جبکہ آرمی چیف اور حکومت کے ناقدین کا پچھلے سال بھر میں کردار یہ رہا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے خلاف آئی ایم ایف کو خطوط لکھے، پاکستان کی تباہی کی دعائیں کی اور اپنے سیاسی مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دی۔ ناقدین اور مخالفین کے پراپیگنڈے، گالیوں، الزامات اور متعدد وطن دشمن اقدامات کے باوجود آج ملک کے پالیسی ریٹ میں مسلسل کمی آ رہی ہے، پاکستان سٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ آئی ٹی ایکسپورٹ میں 32فیصد اضافہ ہوا ہی، معیشت کے تمام اعشاریئے مثبت ہیں، اس کے برعکس کھوکھلے نعرے لگانے والوں کی خیبر پختونخوا میں کارکردگی یہ ہے کہ وہاں آئے روز دہشت گردی ہو رہی ہے اور لا اینڈ آرڈر جیسے مسائل کی بھرمار ہے مگر ان کے سوشل میڈیا بریگیڈ کو گالیوں اور الزامات سے فرصت ہی نہیں اور اسی گالی مہم کو ہی وہ اپنی کامیابی و کامرانی قرار دے رہے ہیں ان جھوٹے انقلابیوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ نفرت سے نہیں محنت سے بنتی ہے دنیا۔
یہ بھی یاد کرنا چاہیے کبھی ہماری ملکی سیاست رکھ رکھائو اور ادبی اظہاریہ کے طور پر رواں دواں تھی۔ عوامی خدمات کے ضمن میں ہمارے ملک کی سیاست عبادت تھی۔ یہ کہنا بھی شاید درست ہو گا کہ بانیانِ پاکستان کے دور میں یہ سیاستدان شرافت پر مبنی سیاست کرتے تھے لیکن معلوم نہیں بعد ازاں کیونکر مفاد پرستی، اقربا پروری، اقتدار پسندی، جھوٹ، فراڈ اور انتقام سمیت وہ تمام منفی عناصر ہماری سیاست میں در آئے جن کا عبادت، خدمت اور شرافت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ اب وہ زمانے لد گئے جب طلبہ یونین سے سیاسی تربیت کا آغاز ہوتا تھا اور پھر تعلیم سے فارغ ہو کر سیاست
دان کونسلر کی نشست سے عملی سیاست شروع کرتے تھے۔ آج بھی ملک میں ایسے کئی سینئر سیاست دان موجود ہیں جنہوں نے زمانہ طالب علمی میں سیاست شروع کی تھی۔ پہلا الیکشن کونسلر کی حیثیت سے لڑا اور پھر سیاسی سیڑھیاں عبور کرتے ہوئے اقتدار کی مسند تک پہنچے۔ ان میں اکثریت ایسے رہنمائوں کی ہے جن کا پولیٹیکل کیریئر 80کی دہائی کے وسط میں یا اس سے بھی پہلے شروع ہوا تھا پھر قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافہ ہوا اور خواتین سمیت مخصوص سیٹیں شامل کی گئیں تو یہ مخصوص نشستیں زیادہ تر عوام کے بجائے خواص کے حصے میں آئیں۔ وہ خواتین جن کا تعلق یا تو کسی بڑے سیاسی خاندان سے تھا یا وہ کسی بڑے صنعتی و کاروباری گھرانے سے تھیں، ان نشستوں پر تعینات کی جانی لگیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ قومی سیاست میں دولت کا اثر و رسوخ بڑھنے لگا۔ ایوانِ بالا کے انتخابات میں تو پہلے بھی ووٹ خریدنے اور بیچنے کی روایت پڑ چکی تھی لیکن 2000ء کے بعد یونین کونسل کی سطح پر بھی الیکشن میں کروڑوں روپے کے اخراجات ہوتے دیکھے گئے، شاید یہ پہلی بار دیکھا گیا تھا کہ اس سطح پر انتخابات میں اتنے پیسے خرچ کیے گئے۔ یونین کونسلوں کے ناظم یا چیئرمین بننے کے لئے بھی پانچ سے دس کروڑ روپے خرچ ہونے لگے۔ اس بدقماش قسم کی سیاست کی ابتداء سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صوبائی یا قومی اسمبلی کا رکن بننے کے لئے کتنا سرمایہ خرچ ہوتا ہو گا اور کس قسم کے لوگ اسمبلیوں میں پہنچ چکے ہیں۔
بات ہو رہی تھی اس سہانے ماضی کی جب ملک
میں ایسے ہزاروں سرمایہ دار تھے جو عوامی فلاح و بہبود میں اپنی مثال آپ ہیں۔ کئی بڑے بڑے امرا اور سرمایہ دار خدمت کی غرض سے بھی سیاست میں آئے۔ شرافت جن کا شیوہ تھی یہ بھی دیکھا گیا کہ بعض نے اپنی جائیدادیں بیچ کر سیاست کی لیکن جب موجودہ سیاست کا رنگ غالب آنے لگا، خدمت اور شرافت جیسے عناصر کم ہونے لگے تو پھر ایسے شرفا بھی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ گھمبیر مسائل اس وقت پیدا ہونا شروع ہوئے جب دولت کی طاقت سے غیر تربیت یافتہ لوگ سیاست میں آنے لگے، جنہوں نے کبھی کونسلر کا الیکشن بھی نہیں لڑا تھا وہ براہِ راست قومی و صوبائی اسمبلیوں حتیٰ کہ ایوانِ بالا کے رکن منتخب ہونے لگے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جو بھی سیاست دان خواہ سرمائے کی بدولت ہی منتخب ہو کر آتے ہیں، انہیں پھر بھی تھوڑا بہت عوام کا خیال ہوتا ہے کہ پانچ سال بعد دوبارہ عوامی عدالت میں جانا ہے لیکن جو لوگ بغیر کسی محنت کے محض اپنے پیسے کے بل بوتے پر یا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی ڈیل کے تحت کوئی اہم سیاسی یا حکومتی عہدہ حاصل کر لیتے ہیں ان کی عادات و اطوار اور قول و فعل میں غرور و تکبر کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ وہ نہ تو سیاسی کارکنوں کو عزت دیتے ہیں اور نہ ہی انہیں عوام کے جان و مال کی پروا ہوتی ہے۔ یہ طبقہ مہنگائی و بیروزگاری جیسے مسائل سے لاپروا ہوتا ہے۔ عوامی خدمت اور شرافت کی سیاست ان کی تربیت ہی
میں شامل نہیں ہوتی حتیٰ کہ میڈیا سے گفتگو کے دوران بھی انہیں تہذیب و شائستگی کا کوئی خیال نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر گزشتہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران ایسی کئی شخصیات اہم عہدوں یا اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ گئیں جن کی پرورش اور تربیت دیارِ غیر میں ہوئی تھی، جو بظاہر تو پاکستانی شہریت رکھتے تھے لیکن پاکستانی ثقافت، تہذیب و تمدن، اخلاقی اقدار اور ہماری معاشرتی روایات ان کے لئے زیادہ معنی نہیں رکھتیں۔ سرمائے اور طاقتور کوریڈور کی درپردہ حمایت حاصل ہونے کا رعب ان کے ہر عمل میں پی ٹی آئی حکومت میں نمایاں نظر آیا۔ اخلاقی اقدار و شرافت کو وہ کمزوری سمجھتے اور اپنے قائد بانی پی ٹی آئی کی واضح اور کھلم کھلا ہدایات کی روشنی میں بڑی سے بڑی گالی دینے اور ہر بھونڈا الزام اپنے سیاسی مخالفین پر لگانے کو ہی اپنی سیاست کا محور و مرکز اور مدعا و منتہا سمجھتے تھے۔ سیاسی تربیت کے فقدان کے باعث جب ان کے پاس کسی بات کا جواب نہیں ہوتا تھا تو فوراً اخلاق کا دامن چھوڑ دیتے تھے اور بد تہذیبی پر اتر آتے تھے۔ واضح رہے کہ یہی رویہ آہستہ آہستہ سے ہماری قومی سیاست میں تشدد اور انتقام کا باعث بنتا جا رہا ہے جس کا نتیجہ مزید سنگین حالات کی صورت میں بھی برآمد ہو سکتا ہے۔ آج گالی اور الزام کے عادی یہ غیر تربیت یافتہ سیاسی کارٹون جس طرح سے سوشل میڈیا پر گالیاں دے رہے ہیں اور تہمتیں لگا رہے ہیں اس کا نتیجہ سب کو علم ہے کہ کیا ہونا چاہئے۔ ذرا سا کانٹا چبھ جانے پر بھی یہ لوگ سوشل میڈیا پر جس طرح فوری طور پر ڈائریکٹ آرمی چیف تک کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں یہ کوئی درست عمل نہ ہے۔
آج کی نئی سیاسی قیادت میں بلاول بھٹو زرداری، حمزہ شہباز اور مریم نواز ایسے نئے چہرے بھی موجود ہیں جن کو اسی عمرانی دور آمریت میں اپوزیشن میں ہونے کی بنا پر انتہائی کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ مریم نواز اور حمزہ شہباز کو تو قید و بند اور ظلم و ستم میں بھی سخت سوالات کرنے والے صحافیوں سے الجھتے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ شاید یہ ان کی سیاسی تربیت ہی کا نتیجہ ہے ورنہ دولت تو ان کے پاس کسی سے بھی کم نہ ہو گی۔ اس کے برعکس بدقسمتی سے گزشتہ تین، چار برسوں میں ہم نے کئی ایسے واقعات بھی دیکھے ہیں کہ کسی صحافی نے کوئی ایسا سوال کیا جو سامنے والے سیاستدان کو پسند نہ آیا تو جواب میں سوال کرنے والے رپورٹر کو نہ صرف توہین آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑا بلکہ سوشل میڈیا پر اسے لفافہ صحافی قرار دینے کے لئے ٹرینڈ بنا دیا گیا۔ بعض واقعات میں تو میڈیا کے نمائندوں کو گالیوں اور تشدد کا نشانہ بنتے بھی دیکھا گیا ہے جو تشویشناک ہی نہیں شرمناک بھی ہے۔ اسی طرح آج یہ لوگ جس طرح آرمی چیف کو یکطرفہ تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں یہ کسی بھی طور پر ملک کی خدمت نہیں قرار دیا جا سکتا۔
سی ایم رضوان