Column

روزے کی اہمیت اسلام سے پہلے اور بعد میں

ایم فاروق قمر
روزہ اسلام کی عبادت کا تیسرا رکن ہے، عربی میں اس کو صوم کہتے ہیں، اس کے لفظی معنی رکنے اور چپ رہنے کے ہیں۔ قرآن پاک میں اس کو کہیں کہیں ’’ صبر‘‘ بھی کہا گیا ہے ، جس کے معنی ضبط نفس، ثابت قدمی اور استقلال کے ہیں۔ روزہ ایک بدنی عبادت ہے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے کے لیے صبح صادق کے وقت کچھ کھا پی کر سورج غروب ہونے تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات کو مکمل طور پر ترک کر دینے کا نام روزہ ہے۔ روزہ رکھ کر مسلمان اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی فرمانبرداری کا اظہار کرتا ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے، ترجمہ : ’’ مسلمانوں روزہ تم پر اسی طرح فرض ہوا جس طرح تم سے پہلی قوموں پر فرض ہوا تاکہ تم پرہیزگار بنو‘‘ ( سورۃ بقرہ آیت نمبر :83)۔
اس سے معلوم ہوتا ہے روزہ اسلام سے پہلے بھی کل مذاہب میں فرض رہا ہے۔ ہندوستان کو سب سے زیادہ قدامت کا دعویٰ ہے لیکن روزہ سے وہ بھی آزاد نہیں۔ ہر ہندی مہینے کی گیارہ، 12کو برہموں پر اکادشی کا روزہ فرض ہے۔ اسی حساب سے سال میں 24روزے ہوئے، بعد برہمن کاتک کے مہینے میں دو شنبہ کو روزہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح اگر دیکھیں تو قدیم یونان میں عورتیں تھمو فیریا کی تیسری تاریخ کو روزہ رکھتی ہیں۔ اسی طرح پارسی مذہب کی الہامی کتاب کی آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ روزے کا حکم ان کے ہاں موجود تھا خصوصا مذہبی مذہبی پیشوائوں کے لیے پنجسالہ روزہ ضروری تھا۔
( بحوالہ انسائکلوپیڈیا برنا نیکا)
یہودیوں میں بھی روزہ فریضہ الٰہی ہے حضرت موسی علیہ السلام نے کوہ طور پر 40دن بھوکے پیاسے گزارے ۔ ( خروج 33 34)
عیسائی مذہب میں آکر ہم کو روزوں سے دو چار ہونا پڑتا ہے، چنانچہ عیسیٰ نے بھی 40دن تک روزہ جنگل میں رکھا۔ حضرت یحییٰ جو حضرت عیسیٰ کے گویا پیش رو تھے، وہ بھی روزہ رکھتے تھے اور ان کی امت بھی روزہ دار تھی۔ اہل عرب اسلام سے پہلے روزہ سے کچھ نہ کچھ مانوس تھے۔ مکہ کے قریش جاہلیت کے دنوں میں عاشورہ یعنی دسویں محرم کو اس لیے روزہ رکھتے تھے کہ اس دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا۔ اسی طرح مدینہ میں یہود اپنا عاشورہ الگ بناتے تھے۔
قرآن کریم نے روزہ کو تقویٰ قرار دیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ مسلمانوں تم پر روزہ اسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلی قوموں پر فرض ہوا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو”۔ ( بقرہ ،آیت نمبر 83)
یعنی روزے کی غرض و غایت تقویٰ ہے ۔ اپنی خواہشوں کو قابو میں رکھنا اور جذبات کے تلاتم سے اپنے آپ کو بچا لینا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روزہ ہمارے لیے ایک قسم کا روحانی علاج ہے، آگے چل کر قرآن کریم اسلامی روزے کی دو حقیقتوں کو بھی واضح کرتا ہے۔
ترجمہ: خدا نے تم کو راہ دکھائی، اس پر تم اس کی بڑائی کرو اور شکر ادا کرو۔ ( بقرہ، رکوع نمبر 23)
روزہ ایک قسم کی دوا ہے اور دوا کو بقدر دوا ہی ہونا چاہیے۔ اگر پورا سال اس دوا میں صرف کر دیا جاتا تو ایک غیر طبعی علاج ہوتا اور مسلمانوں کے جسمانی جدوجہد کا خاتمہ ہو جاتا اور ان کا شگفتہ مزاج مٹ جاتا جو عبادات کا اثر قبول کرتا ہے۔ اس لیے اسلام نے روزے کے لیے سال کے 12مہینوں میں سے صرف ایک مہینہ ان کے لیے مقرر کیا اور اسی مہینے رمضان میں قران کا نزول ہوا۔ میرے کریم نبیؐ اور صحابہ کرامؓ نے ہمیشہ رمضان میں روزے رکھے اور
پوری امت مسلمہ اسی مہینے میں روزے رکھتی ہے۔ اسی مہینے میں قرآن نازل ہوا ، اسی مہینے میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینے سے افضل ہے اور وہ شب قدر ہے اور اسی شب قدر کو قرآن پاک اترا۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’ روزہ رکھا کرو ، تندرست رہا کرو اور روزے سے جس طرح ظاہر و باطنی مضرات زائل ہوتے ہیں اس طرح اس سے ظاہری و باطنی مسرت حاصل ہوتی ہے‘‘۔ ( اسوہ رسول بحوالہ الطبرانی)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان مبارک مقدس مہینہ ہے، جس میں قرآن سب سے پہلے دنیا میں نازل ہوا، ہمارے پیارے پیغمبر امیؐ کو رہنمائی اور انسانوں کی دستگیری کے لیے دستور نامہ الٰہی کا سب سے پہلا صحیفہ عنایت کیا گیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ ( اے نبیؐ! ) کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے‘‘ ( آل عمران)۔
رسول کریمؐ کی پیروی و اطاعت ہی دراصل اللہ پاک کی اطاعت ہے اور روزہ وہ واحد عبادت ہے جو مسلمان اللہ تعالیٰ کی اطاعت، اس کی فرمانبرداری حاصل کرنے کے لیے رکھتے ہیں، یہ ایسا عمل ہے جو نمود و نمائش اور دکھاوے کی سے پاک ہے اور یہ ایک ایسی عبادت ہے جس کی جزا بھی اللہ پاک ہی دیتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہےص: ’’ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا‘‘۔
ہمیں چاہیے کہ رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ عبادت کریں اس مہینے میں کثرت سے قرآن پاک کی تلاوت کریں۔ سحر و افطاری بنانے میں گھر والوں کی مدد کریں اور رمضان المبارک میں غریبوں مسکین و یتیموں کو بھی یقینی یاد رکھیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکے۔
ایم فاروق قمر

جواب دیں

Back to top button