مریم نواز اور ان کے میڈیا مشیر

تحریر : روشن لعل
محترمہ مریم نواز کی میڈیا ٹیم نے گزشتہ دنوں ان کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کارکردگی کو60 صفحات پر مشتمل تشہیری مواد کے ذریعے مثالی بنا کر پیش کیا۔ مریم کی نیک نامی کے لیے جس روایتی میڈیا پر کروڑوں روپے کے عوض تشہیر کی گئی اسی میڈیا کے لوگوں نے اس تشہیری مہم کو جدید سوشل میڈیا پر اس حد تک تنقید نشانہ بنایا کہ شہرت دو چند ہونے کی بجائے معاملہ الٹ ہو گیا۔ ہر سیاستدان کی طرح اگر مریم کی بھی یہ خواہش ہے کہ ان سے متعلق عوامی رائے کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنایا جائے تو اس خواہش کو عجیب تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے سیاستدان اپنے میڈیا مشیروں یا خاص طور پر بنائی گئی میڈیا ٹیم پر انحصار کرتے ہیں۔ شریف خاندان اپنی میڈیا ٹیم بنانے اور اسے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرنے میں خاص شہرت رکھتا ہے۔ ان کی روایتی میڈیا ٹیم نے 2025ء میں وہی طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے مریم نواز کی کارکردگی کو مشتہر کرنے کی کوشش کی جو طریقہ 1980ء کی دہائی میں میاں نواز شریف کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ شریف فیملی کی 1980ء کی دہائی سے سرگرم اور اپنے ماضی کی طرح ہو بہو کام کرنے والی میڈیا ٹیم کو تجربہ کار تو کہا جاسکتا ہے لیکن اس کے متعلق یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ اسے گزشتہ چالیس برسوں کے دوران میڈیا کی ہیئت اور میڈیا سے وابستہ لوگوں کے کردار میں آنے والی تبدیل کا مکمل ادراک ہے۔ میڈیا کی ہیئت اور اس سے وابستہ لوگوں کے کردار میں آنے والی تبدیلی پر یہاں تفصیلی بات نہیں کی جاسکتی لیکن اس حوالے سے یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ’’ پیکا ‘‘ کی مخالفت کرنے والے میڈیا کو اگر مریم نواز کی تشہیری مہم کے اشتہارات مل جائیں تو انہیں شائع کرنے سے قطعاً انکار نہیں کیا جائے گا لیکن اس عمل سے کروڑوں روپے حاصل کرنے کے فوراً بعد یہ ابلاغ بھی شروع کر دیا جائے گا مریم کو اس قسم کی اشتہاری مہم کی ا ٓ خر کیا ضرورت تھی۔ میڈیا سے وابستہ لوگوں کے اس کردار کو نہ سمجھنے والے مریم نواز کے جن مشیروں نے خود یہ سمجھا اور مریم کو بھی یہ سمجھایا کہ 60صفحات پر مشتمل تشہیری مواد کی اشاعت سے ان کی شہرت کو چار چاند لگ جائیں گے، ان سے زیادہ مورکھ کوئی او ر نہیں ہو سکتا۔ یہ مشیر اندازہ نہیں کر سکتے کہ ان کی مشاورت نے مریم نواز کو فائدہ پہنچانے کی بجائے کس حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ ان مشیروں کی مشاورت سے مریم نواز سے منسوب جن کاموں کی تشہیر کی گئی ، ان کاموں کی تفصیل سامنے آنے پر مریم کے مخالف انہیں ناکام سمجھے جانے والے ایک سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے نقش قدم پر چلنے والی وزیر اعلیٰ بھی کہہ سکتے ہیں۔
پنجاب میں اس بات کا بہت چرچا کیا گیا کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز نے لاہور کی اہم شاہراہوں پر موٹر سائیکل سواروں کے لیے الگ سبز لین مختص کر کے بہت عظیم کام کیا ہے۔ موٹر سائیکل سواروں کے لیے الگ لین پر کیا جانے والا سبز رنگ چند دن بعد برسنے والی پہلی بارش نے بری طرح دھو کر رکھ دیا۔ جب مریم نواز کے نام سے موٹر سائیکل سواروں کے لیے الگ سبز لین مختص کیے جانے کی تشہیر ہوئی تو ذہن میں آیا کہ یہ کام تو ایک سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی کچھ برس پہلے کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ ڈی جی پی آر پنجاب میں کام کرنے والے ایک دوست سے جب اس حوالے سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ پنجاب کے سٹاف کو جس طرح مریم نواز کی طرف سے سڑکوں پر بنائی گئی سبز لین کی تشہیر کے لیے مصروف کیا گیا ، اسی کام کی مشہوری کے لیے وہ 2019ء میں اس وقت مصروف ہوئے تھے جب عثمان بزدار نے موٹر سائیکل سواروں کے لیے سڑکوں پر سبز رنگ کی الگ لین بنوائی تھی ۔ اس بات کی شہادت مارچ ، اپریل 2019ء کے اخبارات میں تلاش کی جاسکتی ہے کہ موٹر سائیکل سواروں کے لیے الگ سبز لین بنانے کا عثمان بزدار کا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ اب مریم نواز کا سبز لین کا منصوبہ چاہے کامیاب ہو یا ناکام، مگر ریکارڈ یہی گواہی دے گا کہ سبز لین بنانے کا، کام مریم نواز نے نہیں بلکہ عثمان بزدار نے شروع کیا تھا۔موٹر سائیکل سواروں کے لیے سڑکوں پر سبز لین مختص کرنے کے علاوہ ان دنوں مریم نواز کے جس دوسرے کام کو سراہا جارہا ہے وہ لاہور شہر میں چلائی گئی الیکٹرک بسیں ہیں۔ پنجاب کے عام لوگ عثمان بزدار صاحب کی کارکردگی کے حوالے سے کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہیں ہیں مگر کیا کیا جائے کہ مریم نواز کے الیکٹرک بسیں چلانے کے کام کا ’’ کھرا ‘‘تلاش کرنے پر پائوں کے نشانات سبز لین کی طرح عثمان بزدار کے گھر کی طرف ہی جاتے ہیں۔ اب چاہے کسی کو اچھا لگے یا برا مگر حقیقت یہی ہے کہ لاہور میں الیکٹرک بسیں چلانے کے منصوبے کی بنیاد عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ کے دور میں رکھی گئی تھی۔ اس بات کی تصدیق کے لیے12نومبر 2020ء کو شائع ہونے والے ایکسپریس ٹربیون اخبار کا لنک (https://tribune.com.pk/story/2271959/cm-approves-electric-buses-for-lahore) کھول کر دیکھا جا سکتا ہے۔ جب 2020ء میں عدالتوں نے پنجاب حکومت کو سموگ کے خاتمہ کے لیے اقدامات کرنے کا کہا تو عثمان بزدار نے بحیثیت وزیر اعلیٰ لاہور میں الیکٹرک بسیں چلانے کی منظوری دی تھی۔ حکومت پنجاب کے لیے کسی بیرونی ایجنسی سے قرضہ لیے بغیر الیکٹرک بسیں چلانے جیسے منصوبے پر عمل درآمد نہ عثمان بزدار اور نہ ہی مریم نواز کے دور میں ممکن ہو سکتا ہے۔ عثمان بزدار کے بعد جب پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تو انہوں نے بزدار کے شروع کیے گئے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے لاہور میں الیکٹرک بسیں چلانے اور دیگر ماحول دوست اقدامات کرنے کے لیے پنجاب گرین ڈویلپمنٹ منصوبہ کے نام پر ورلڈ بینک سے 200ملین ڈالر قرض لینے کی کارروائی شروع کی۔ جس کام کے لیے پرویز الٰہی نے ورلڈ بینک سے 200ملین ڈالر لینے کا منصوبہ بنایا مریم نواز نے وہی کام ورلڈ بینک سے 300ملین ڈالر قرض لے کر شروع کیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ مریم نواز کی ایک سالہ کاکردگی کو 60 صفحات تک وسیع کرنے کے لیے الیکٹرک بسیں چلانے کے پائلٹ پراجیکٹ کو انتہائی تیز رفتاری سے مکمل کیا گیا ہے۔ مریم نواز کی حکومت نے لاہور میں الیکٹرک بسیں چلانے کا کام چاہے جتنی بھی سرعت سے کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کام کی بنیاد اگر عثمان بزدار نے 2020ء میں نہ رکھی ہوتی تو یہ کام کبھی بھی مریم نواز کی ایک سالہ کارکردگی کی تشہیر کا حصہ نہ بن پاتا۔ عجیب بات ہے کہ عثمان بزدار کو تو ہر کوئی نامعقول وزیر اعلیٰ کہتا ہے لیکن ان کے شروع کیے گئے کاموں کو آگے بڑھانے والی کی کارکردگی کی تشہیر پر کروڑوں خرچ کر دیئے جاتے ہیں۔ اگر میڈیا مشیروں نے مریم نواز سے منسوب کاموں کی بنیاد عثمان بزدار کے ہاتھوں رکھے جانے سے متعلق مریم کو آگاہ کیا ہوتا تو شاید اپنی تشہیری مہم کے متعلق وہ کچھ اور فیصلہ کرتیں۔