Column

حکومتی ملکیتی اداروں کا اوسط خسارہ 851ارب

تحریر : محمد ناصر شریف

جب کوئی ادارہ یا فرد کافی آمدنی حاصل نہیں کرتا یا اسے اپنی مالی ذمہ داریوں کو پورا کرنے یا انہیں ادا کرنے کے لئے مطلوبہ آمدنی میسر نہیں ہوتی تو ادارہ یا فرد خسارے سے دوچار ہوجاتا ہے۔ جس کے اثرات سرکاری ادارہ ہونے کی وجہ سے ملکی معیشت پر پڑتے ہیں۔
وزارت خزانہ کی حکومتی ملکیتی اداروں سے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں حکومتی ملکیتی اداروں کا سال 2024ء میں اوسط خسارہ 851ارب روپے رہا، سال 2024ء کے دوران بڑے خسارے والے حکومتی ملکیتی اداروں میں سرفہرست نیشنل ہائی وے اتھارٹی ( این ایچ اے) کا خسارہ 295ارب50کروڑ روپے ہے، کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی ( کیسکو) کا خسارہ 120ارب40کروڑ روپے ، پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی ( پیسکو)88ارب 70کروڑ روپے ، پی آئی اے 73ارب 50کروڑ روپے، پاکستان ریلوے 51ارب 30کروڑ روپے، سیپکو ( سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی) 37ارب روپے، لیسکو ( لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی )34ارب50کروڑ روپے ، پاکستان اسٹیل ملز 31ارب10کروڑ روپے، حیسکو ( حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی)22 ارب10 کروڑ روپے ،جنکو ٹو 17ارب 60کروڑ روپے ، آئیسکو ( اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی) ، پاکستان پوسٹ 13ارب40کروڑ روپے، ٹیسکو( ٹرائبل ایریا الیکٹرک سپلائی کمپنی) ساڑھے 9ارب روپے ، جیپکو( گوجرانوالہ الیکٹرک سپلائی کمپنی) ساڑھے 8ارب روپے، جنکو تھری 7ارب80کروڑ روپے اور دیگر کمپنیوں کا مجموعی خسارہ 23ارب70کروڑ روپے رہا جبکہ منافع بخش اداروں میں سرفہرست او جی ڈی سی ایل کا منافع 208ارب 90کروڑ روپے ، پٹرولیم لمیٹڈ 115ارب 40کروڑ روپے ، نیشنل پاور پارکس 76ارب 80کروڑ روپے، گورنمنٹ ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹیڈ 69 ارب 10کروڑ روپے ، پاک عرب ریفائنری کمپنی 55ارب روپے ، پورٹ قاسم اتھارٹی 41ارب روپے ، میپکو (ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی)31ارب 80کروڑ روپے ، نیشنل بنک آ ف پاکستان 27ارب 40 کروڑ روپے ، واپڈا کا منافع 22 ارب 20روپے ، کے پی ٹی 20ارب 30کروڑ روپے ، پی این ایس سی 20ارب 10کروڑ روپے ، پی ایس او 19ارب60کروڑ روپے ، اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن 18 ارب 30 کروڑ روپے ، پی کے آئی سی کا 15ارب 20کروڑ روپے منافع ریکارڈ کیا گیا ۔
رپورٹ کے مطابق حکومت نے خسارے میں جانے والے اداروں کی 1586ارب روپے کی مالی معاونت کی ، اس میں 367ارب روپے گرانٹس، 782ارب روپے سبسڈیز ، 336ارب قرض اور 99ارب روپے ایکویٹی کی صورت میں فراہم کیا گیا ، یہ مجموعی وفاقی بجٹ کی وصولیوں کا 13 فیصد ہے، رپورٹ کے مطابق مالی سال 2024میں حکومتی ملکیتی اداروں نے قومی خزانے میں مجموعی طور پر 2062ارب روپے جمع کرائے ان میںٹیکس کی مد میں 372ارب روپے جمع کرائے ، نان ٹیکس ریونیو ، رائلٹی اور لیویز کی مد میں 1400ارب روپے جمع کرائے ، ڈیویڈنڈ کی مد میں 82ارب روپے اور منافع کی مد میں 206ارب روپے جمع کرائے ۔
مالی سال 2024میں حکومتی ملکیتی اداروں کا مجموعی ریونیو 13524ارب روپے پیدا ہوا جو مالی سال 2023میں 12848ارب روپے تھا اس ریونیو میں 5.26فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، حکومت نے حکومتی ملکیتی اداروں کو مالی سال 2024میں 1419ارب روپے کی ساورن ضمانتیں فراہم کیں جو مالی سال 2023کے مقابلے میں 13 فیصد کم ہیں ۔ادھر پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں اسٹیل ملز کے حکام نے انکشاف کیاہے کہ حکومت سندھ نے اسٹیل ملز کی 56 ایکڑ زمین چار افراد کو دیدی ہے ،اسٹیل ملز کی 11ایکڑ زمین پر قبضہ ،بجلی بل ادائیگیوں میں خزانہ کو 1 ارب کا نقصان ہوا، معاملہ نیب کو ارسال کر دیا گیا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ بریگیڈئیر (ر) سعید اللہ خان، لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ سہیل ملک، شہزاد علی اور منظور حسین کو زمینیں لیز پر دی گئیں ، چیئرمین پی اے سی نے نیب سے 2 ماہ میں معاملے کی رپورٹ طلب کرلی، لیکن اول تو کوئی رپورٹ دو ماہ میں بنے گی نہیں اور اگر بن بھی گئی تو پبلک اکائونٹس کمیٹی اس حوالے سے کوئی کردار ادا نہیں کرسکے گی۔
علاوہ ازیں سینیٹ کی میری ٹائم افیئرز کمیٹی نے پورٹ قاسم کی 500ایکڑ اراضی کی فروخت میں قومی خزانے کو 60ارب سے زائد کا نقصان پہنچانے کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر لیز منسوخ کرنے کی ہدایت کی ہے چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل واوڈا نے انکشاف کیا کہ کراچی پورٹ کی40 ارب مالیت کی سرکاری زمین 5 ارب میں دی گئی زمینوں کی لیز میں قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا مگر اب معاملات ڈنڈے کے زور پر ٹھیک کریں گے۔ سیکرٹری بحری امور سید ظفر علی شاہ نے کمیٹی کو بتایاکہ آئندہ چند دن میں نئی میری ٹائم پالیسی پیش کریں گے، کمیٹی نے پی ٹی آئی دور حکومت میں ہونے والے تمام معاہدوں کی تفصیلات طلب کر لیں، بدھ کو چیئرمین سینیٹر فیصل واڈا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی بحری امور کا اجلاس ہوا۔ سیکرٹری بحری امورظفر علی شاہ نے کمیٹی کو بندرگاہوں پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں پورٹس کو ڈیجیٹل کرنے روڈ اور ریلوے انفرا سٹرکچر پر کام کررہے ہیں، کابینہ نے تین سالہ پورٹس پلان کے لئے کمیٹی تشکیل دیدی ہے گوادر میں نیا ایئرپورٹ بن چکا، وہاں پر سیکیورٹی کو مزید بہتر کررہے ہیں اور گوادر میں فشنگ اور سکیورٹی پر 1ارب 20 کروڑ مالیت خرچ کررہے ہیں ،افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لئے انشورنس گارنٹی کا معاہدہ کررہے ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب تازہ گزارشات کے مطابق ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا، رائٹ سائزنگ کا مکمل پلان تیار کر لیا ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو استعمال کرکے ٹیکس بڑھائیں گے۔ ملک کی معیشت درست سمت میں جا رہی ہے، پالیسی ریٹ میں کمی سے کاروباری برادری اور سرمایہ کاروں کو فائدہ ہو رہا ہے جبکہ حکومت معیشت کے تمام شعبوں میں بنیادی اصلاحات کر رہی ہے، اصلاحات سے ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ان کا کہنا تھاکہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم معاشی استحکام کیلئے پر عزم ہے، رائٹ سائزنگ کے لئے مکمل پلان تیار کیا ہے، اداروں کے تمام معاملات کو دیکھ کرہی رائٹ سائزنگ کی جائے گی، نجکاری کے عمل کو مزید شفاف کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے معاشی اہداف کا مکمل ادراک ہے، حکومتی اخراجات میں کمی کے لئے اقدامات کر رہے ہیں، پائیدار معاشی استحکام کے لئے تمام اقدامات کئے جائیں گے، ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ معیشت میں ریٹیل سیکٹر کا حصہ 19فیصد ہے جبکہ ٹیکسز میں ریٹیل سیکٹر کا حصہ ایک فیصد ہے، آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو استعمال کرکے ٹیکس بڑھائیں گے۔ 9.4ٹریلین کیش کی ڈاکومینٹیشن کرنی ہے، قومی ایئر لائن کی نجکاری کو ری لانچ کر رہے ہیں، 30جون تک تمام اداروں کی رائٹ سائزنگ کا عمل مکمل کریں گے، مینو فیکچرنگ، سروسز اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز کا تناسب پائیدار نہیں ہے۔
عالمی بینک نے نقصانات کو کم کرنے اور ریاستی ملکیتی کمپنیوں کی مالیاتی عملداری کو بہتر بنانے کے لئے حکومت کو تجویز دی ہے کہ بجٹ کے ذریعے اداروں کے نقصانات کو پورا کرنے کے رواج کو کم یا ختم کیا جائے۔ جو ادارے خسارے کا شکار ہیں، ان کے افسران اور ملازمین کی کارکردگی کو صحیح انداز میں مانیٹر کرنے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی خسارے میں چلنے والے اداروں کے افسران و ملازمین کی مراعات خسارے سے نکالنے سے مشروط ہونی چاہیے، جب کہ ہو یہ رہا ہے کہ افسران اور ملازمین کی مراعات اور سہولتوں میں کوئی کمی نہیں ہوتی تو ان کی توجہ بھی ادارے کو خسارے سے نکالنے پر نہیں ہوتی بلکہ اپنا وقت پورا اور سہولتوں کو انجوائے کرنے پر صرف کرتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ معاشی حالات قدرے بہتر ہوئے ہیں، اور مسائل ماضی قریب کے مقابلے میں کم ہوئے ہیں، تاہم سامنے نظر آتے ’’سفید ہاتھیوں‘‘ کو نہ روکا گیا، تو یہ حکومت اور اس کی معاشی ٹیم کی کوششوں کو روند دیں گے۔
محمد ناصر شریف

جواب دیں

Back to top button