ColumnImtiaz Aasi

حج انتظامات میں بے قاعدگیوں کی شکایات

تحریر : امتیاز عاصی
حج ایسے مقدس فریضہ کی ادائیگی میں مبینہ طور پر بے قاعدگیوں کا ہونا بہت بڑی بدقسمتی ہے حالانکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے مہمانوں کی خدمت بڑے اعزاز کی بات ہے۔1990ء میں مجھے پہلی بار حجاز مقدس میں ضیوف الرحمٰن کی خدمت کا شرف حاصل ہوا، جس کے بعد 2001ء تک مسلسل حق تعالیٰ کے مہمانوں کی خدمت کا موقع ملا۔1996 ء میں نگران حکومت نے مجھے مدینہ منورہ کے دو پاکستان ہائوسز کا نگران مقرر کر دیا۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان ہائوسز کے فنڈز میں صرف بیس ہزار ریال تھے اور ایک لاکھ بجلی کا بل واجب الادا تھا۔ سیکرٹری مذہبی امور جناب لطف اللہ مفتی کی اجازت سے میں نے پاکستان ہاوسز میں پہلی بار دو ہزار حجاج کو رکھنے کی تجویز دی جسے منظور کر لیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب سپانسر سکیم کے عازمین حج اپنے رہائشی انتظامات خود کر سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ایک ماہ کے دوران میں نے چھ ملین ریال سعودی بینک میں جمع کرائے، جس پر حج مشن کی طرف سے مجھے دو ہزار ریال بطور انعام دیئے گئے۔ عالم اسلام سے آنے والے حجاج کرام کے لئے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں انتظامات کوئی آسان کام نہیں، لیکن سعودی حکومت ہر سال احسن طریقہ سے حجاج کے لئے انتظامات کرتی ہے۔ ایک ہم ہیں دو لاکھ عازمین حج کے لئے تسلی بخش انتظامات کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ حال ہی میں وزارت مذہبی امور نے ڈائریکٹر حج کو واپس بلا لیا ہے اور وہاں کے مقامی ترجمان کے خلاف شکایات کے پیش نظر اسے ملازمت سے فارغ کر دیا ہے۔ اگلے روز پی ٹی آئی کے ایک سنیئر رہنما نے مجھے افغان مہاجرین کی بے دخلی کے سلسلے میں میرے کالم میں حکومت کی ستائش پر شکوہ کیا، جس کے جواب میں انہیں باآور کرایا، چار عشروں سے زیادہ اپنی صحافتی زندگی میں کسی سیاسی جماعت کی ترجمانی نہیں کی اور نہ میں کسی سیاسی جماعت کا زر خرید ہوں۔ پرائیویٹ گروپ لے جانے والوں سے 23اکتوبر تک منی میں زون کے حصول کے لئے رقوم ڈائریکٹر جنرل حج کو بھیجنے کو کہا گیا۔ ہماری معلومات کے مطابق ٹور آپریٹروں کی بڑی تعداد نے مطلوبہ رقم سعودی عرب بھیج دی۔ جیسا کہ ہمیں بتایا گیا حج مشن نے ٹور آپریٹروں کی بھیجی ہوئی رقم سے جمرات کے قریب زون بی میں سرکاری سکیم
والے حجاج کے لئے جگہ حاصل کر لی ہے حالانکہ گزشتہ کئی برسوں سے زون اے، بی اور سی کی جگہ پرائیویٹ سکیم والے حجاج کو الاٹ کی جاتی رہی ہے ۔ ہمارے لئے سرکاری اور پرائیویٹ سکیم والے دونوں حجاج برابر ہیں، لیکن سوال ہے زون اے بی اور سی کے خیموں کا کرایہ زون ڈی سے خاصا زیادہ ہے، تو کیا وزارت مذہبی امور سرکاری سکیم کے حجاج سے زون بی میں خیموں کے واجبات زیادہ وصول کرے گی یا انہی تین سو ریال کے عوض انہیں زون بی کی سہولت میا کی جائے گی؟۔ گزشتہ برسوں میں سرکاری سکیم والے عازمین حج کو منی میں زون ڈی میں اس لئے جگہ دی جاتی رہی ہے، انہیں ٹرین کی سہولیت کے لئے ریلوے سٹیشن قریب پڑتا ہے۔ سعودی وزارت حج نے زون اے کا کرایہ پندرہ سو پچاس مقرر کیا ہے۔ اسی طرح زون بی کا کرایہ گیارہ سو ریال ہے۔ جب کہ زون ڈی کے خیموں کا کرایہ تین سو ریال ہے لہذا یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے حج مشن سرکاری سکیم والے عازمین حج سے اضافی کرایہ وصول کرے گا۔ بعض حلقوں نے یہ الزام لگایا ہے پاکستان حج مشن نے پرائیویٹ گروپ آرگنائزرز کی طرف سے بھیجی گئی رقوم سے سرکاری سکیم کے حجاج کے لئے خیموں کے لئے زون بی کی جگہ کے واجبات ادا کر دیئے ہیں۔ عجیب تماشہ ہے سرکاری سکیم حجاج کے خیموں کا کرایہ تین سو ریال ہے جب کہ زون اے کے خیموں کا کرایہ پندرہ سو پچاس ریال ہے۔ سوال ہے کیا یہ ممکن ہے پاکستان حج مشن نے پرائیویٹ سکیم کے عازمین حج سے وصول ہونے والی رقم ریگولر سکیم کے حجاج پر خرچ کر دی ہو؟۔ ہماری معاشی صورت حال کے پیش نظر یہ ممکن ہے حج مشن نے سرکاری سکیم کے حجاج کو خوش کرنے کی خاطر زون بی میں جگہ لے کر پرائیوٹ گروپس
والوں کی رقم سے ادا کر دیئے ہوں۔ قانونی طور پر یہ ممکن نہیں نہ کوئی سرکاری ملازم خواہ وہ کسی عہدے پر کام کر رہا ہو ایسی بے قاعدگی کا مرتکب ہو سکتا ہے، کیونکہ بعد ازاں آڈٹ پیروں کا جواب اسی کو دینا ہوگا اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے روبرو پیش ہو کر وضاحت کرنا پڑے گی۔ کچھ اس طرح کے حالات دکھائی دے رہے ہیں جیسے وزارت مذہبی امور پرائیویٹ گروپ جانے لے جانے والوں کے مقابلے پر کھڑی ہے، حالانکہ حج مشن کے لئے دونوں کیٹگریز کے حجاج ایک جیسے ہیں۔ ایک الزام یہ بھی ہے 41حج گروپس میں سے چند ایک کو جمرات کے قریب جگہ الاٹ کر دی گئی ہے، اگر یہ بات سچ ہے تو اس کی انکوائری ہونی چاہیے اور اس بے قاعدگی کے ذمہ داران کے خلاف تادیبی کارروائی ہونی چاہیے۔ تعجب ہے پرائیویٹ گروپ لے جانے والوں نے مشاعر مقدمہ میں خیموں کے حصول کے لئے واجبات چھ ماہ قبل حج مشن کو بھیج دیئے تھے تاہم اس کے باوجود تمام پرائیویٹ آرگنائزرز کو منی میں جگہ کا الاٹ نہ ہونا سوالیہ نشان ہے۔ سعودی وزارت حج منی میں جمرات کے قریب واقع خیموں میں عازمین حج کو خاصی سہولتیں مہیا کرتی ہے خصوصا خیموں کا جمرات سے فاصلہ بہت کم ہونے کی وجہ سے حجاج کو زیادہ پیدل چلنا نہیں پڑتا ۔پرائیویٹ گروپس میں جانے والے عازمین حج کا نجی گروپس میں جانے کا مقصد بڑا واضح ہے انہیں جمرات کے قریب خٰیموں کی سہولیت کے علاوہ اور کئی سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔ کئی عشرے قبل منی میں جمرات کی رمی کے دوران بھگڈر میں حجاج کرام کی بڑی تعداد شہید ہو تی تھی لیکن اب سعودی حکومت نے جمرات کو جانے والے راستوں کو ون وے کر دیا ہے، جس سے حادثات میں بہت کمی واقع ہو گئی ہے۔ ہمیں یاد ہے 1990ء میں منیٰ کی ایک سرنگ میں ایگزاسٹ بند ہونے سے انڈونیشا کے حجاج کی بڑی تعداد شہید ہو گئی تھی۔ بہرکیف وفاقی وزیر مذہبی امور کو اس الزام کی تحقیقات کرانی چاہیے جس میں پرائیویٹ سکیم کے حجاج کی رقم سرکاری سکیم کے حجاج کی سہولتوں کے لئے خرچ کر دی گئی ہے۔

جواب دیں

Back to top button