Ali HassanColumn

امن و امان اور قانون کی بالادستی کس کی ذمہ داری ؟

تحریر: علی حسن
ایک معاملہ پر حیدرآباد میں وکلاء پولس کے ساتھ ایسا الجھے کہ تین روز قومی شاہراہوں سمیت وکلاء دھرنے پر بیٹھ گئے۔ دھرنے کی وجہ سے تمام چھوٹا بڑا ٹریفک معطل ہو گیا۔ وکلاء حیدرآباد کے پولس سربراہ کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ حکومت معاملہ کو طول دے رہی تھی۔ حکومت کے کان اس وقت کھڑے ہوئے جب صوبائی انتظامیہ کو یہ اطلاع ملی کہ وزیر اعلیٰ کے آبائی علاقے میں قائم میڈیکل اسپتال میں بیس کے قریب مریضوں کی جان کو خطرہ ہے کہ ان کے لئے آکسیجن کی فراہمی ممکن نہیں رہی ہے۔ آکسیجن لانے والی گاڑیاں آکسیجن لدی سلنڈر لئے سڑک پر کھڑی ہیں۔ وکلاء کو سمجھانے کی کوشش جاری تھی لیکن وہ ٹس سے مس ہونے پر رضامند نہیں تھے۔ بہرحال وکلاء نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھرنا اس وقت ختم کر دیا جب انہیں بتایا گیا کہ ایس ایس پی کا تبادلہ کیا جارہا ہے اور دوسرا ایس ایس پی متعین کیا جا رہا ہے۔ دھرنا ختم ہونے کے بعد انتظامیہ نے اعلان کیا کہ ایس ایس پی فرخ علی لنجار کی رخصت منظور کر لی گئی ہے اور ان کی جگہ میر پیر خاص ضلع کے ایس ایس پی کو ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ فرخ کی غیر موجودگی میں حیدرآباد میں بھی ذمہ داری ادا کریں۔
ہوا یہ تھا کہ ٹنڈو اللہ یار کے ایک نوجوان وکیل علی رضا بوزدار جس کار میں سفر رکھتے اس پر نمبر پلیٹ نہیں تھی۔ کار کی شیشوں پر کالا رنگ کیا ہوا تھا۔ پولس نے وہ ہٹا دیا تھا۔ کار کو تھانے لے گئی تھی لیکن چالان نہیں کیا تھا۔ اس معاملہ کو وکیلوں کے ضلعی رہنمائوں نے ناک کا مسئلہ بنالیا تھا۔ ایس ایس پی کے دفتر پر دھاوا بولا گیا۔ دھینگا مستی کا ایسا مظاہرہ کیا گیا جو عام طور پر طالب علم بھی نہیں کرتے ہیں۔ وکیلوں کے حملہ کی صورت میں ایس ایس پی دفتر میں موجود پولس ملازمین خوفزدہ ہو گئے تھے اور انہوں نے ادھر ادھر ہو کر اپنی اپنی جانیں بچائی تھیں۔ جب پولس سربراہ کے دفتر پر دھاوا سے معاملہ حل نہیں ہوا تو وکلاء جو قانون سے بہت اچھی طرح واقف ہوتے ہیں، سڑکوں پر دھرنا لگانے پہنچ گئے۔ قومی شاہراہ، انڈس ہائی وے اور کراچی جانے والی سپر ہائی وے پر بیک وقت دھرنا لگایا گیا جس کی وجہ سے سامان لدے ہوئے لوڈنگ ٹرکوں سمیت سارا ٹریفک معطل ہو گیا تھا۔ کسی کو کسی قسم کے سفر کی اجازت نہیں تھی۔ پولس کسی بھی کارروائی کے لئے بوجوہ تیار نہیں تھی۔ سڑکوں پر عملا کالا کوٹ والے وکلاء کا راج تھا۔ وہ وکلاء جن سے عدالتوں میں قانون کی وضاحتیں کرنے کی توقع کی جاتی ہے، انہیں نے قانون کو اپنے پائوں تلے ہی کچل دیا تھا۔ پولس کارروائی کرنے سے اس لئے خوف زدہ تھی کہ معاملہ کہیں کوئی اور شکل اختیار نہ کر لے اور پولس کے لئے جواب دہی مشکل ہو جائے۔ پولس، صوبائی حکومت نے اس بات کی قطعی پروا نہیں کی کہ کارروائی کرنے سے خوف زدہ پولس اور صوبائی انتظامیہ کی وجہ سے عام شہری کس درجے پریشانی کو شکار ہیں۔ کیوں نہیں وکیلوں یا ہر طبقہ کو باور کیا جاتا ہے کہ انہیں کرنے کا کس حد تک قانونی اختیار حاصل ہوگا۔ اس کے بر خلاف پولس، انتظامیہ یا حکومت کارروائی کرنے کیں حق بجانب ہو گی۔ حکومت کو اپنی ساکھ ( رٹ) برقرار رکھنے کے لئے اقدامات کرنا چاہئے ۔ حکومت ہا یا انتظامیہ اسے اپنی رٹ بحال رکھنا چاہئے اگر کوئی انتظامیہ، ادارہ، حکومت اپنی رٹ بحال نہیں رکھ سکتی ہے تو اس کے لئے حکومت کی کرسی پر براجمان رہنا فضول سی بات ہوتی ہے۔
ایس ایس پی فرخ علی لنجار نے دھرنا ختم ہونے کے دوسرے روز ایک ٹی وی چینل کے نمائندے گفتگو کرتے ہوئے جو کہا نی سنائی وہ پورے دھرنے کا سبب بنی۔ ایس ایس پی نے بتایا کہ وکلاء کی ایک مقامی رہنما اپنے کچھ ساتھیوں سمیت اپنے لئے پولس گارڈ مانگنے آئے تھے۔ خاصی بحث کے بعد ایس ایس پی نے انہیں گارڈ فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ رہنما برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چلے گئے تھے۔ حیدرآباد کے موجود پولس سربراہ نے اکثر افراد کی ذاتی ڈیوٹی پر معمور پولس گارڈ اس لئے واپس طلب کر لی تھی کہ تھانوں کی نفری پوری کرنا پہلی ضرورت ہے۔ حیدرآباد یا سندھ کے دیگر شہروں میں یہ رجحان عام ہو گیا تھا کہ لوگ اپنے لئے کسی سرکاری معاوضہ کے بغیر پولس گارڈ حاصل کرتے ہیں کہ یہ بھی اسٹیٹس کی نمائش تصور کی جاتی ہے۔ اس کو بڑا پن محسوس کیا جاتا ہے کہ ان کی گاڑیوں میں مسلح پولس گارڈ موجود ہو۔ حالانکہ ’’ صاحب‘‘ کے ساتھ ان کی گاڑی میں بیٹھا ہوا پولس گارڈ بوقت ضرورت اس لئے کارآمد نہیں ہوتا ہے کہ حملہ آور ’’ صاحب ‘‘ سمیت گارڈ کو بھی نہیں بخشتے ہیں۔ ایسا معاملہ ہم نے کئی مواقعوں پر دیکھا ہے۔ بعض سینئر وکلاء نے اعتراف کیا کہ صورت حال کو ’’ مس ہینڈل‘‘ کیا گیا جس کی ذمہ داری وکلاء کے نوجوان رہنمائوں پر جاتی ہے۔
ْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْحیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد سلیم میمن نے وکلاء اور پولیس کے درمیان تنازع کے نتیجے میں شہر میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی مہذب معاشرے میں عوامی مفاد کو نقصان پہنچا کر اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ احتجاج کی وجہ سے مسلسل ٹریفک جام کے باعث تاجر برادری کو شدید نقصان اْٹھانا پڑا، جبکہ شہر میں غذائی قلت کا خدشہ پیدا ہوا۔ وکلاء کی ایک اور لاقانونیت یہ بھی رہی کہ ایس ایس پی حیدرآباد ڈاکٹر فرخ علی لنجار کی تبادلے کے خلاف شہر کے مختلف علاقوں میں جو بینرز آویزاں کردئیے گئے تھے انہیں اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔

جواب دیں

Back to top button