ColumnQadir Khan

غزہ کو مشرق وسطیٰ کی ریویرا بنانے کا خواب

تحریر : قادر خان یوسف زئی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی اور طویل مدتی امریکی قبضے کا منصوبہ نہ صرف عرب دنیا میں شدید حیرانی اور ردعمل کا باعث بنا ہے بلکہ خود امریکی اتحادیوں کیلئے ان کا بیان غیر متوقع رہا، اپنے تئیں امریکی صدر نے سعودی عرب کو اپنے منصوبے کا حامی قرار دیا لیکن سعودی وزارت خارجہ نے فوراً ہی صدر ٹرمپ کے مضحکہ خیز منصوبے کو مسترد کر دیا اور غزہ پر امریکی صدر کے عزائم کی حمایت کے بجائے اپنے اصولی موقف کو دہرایا۔ ٹرمپ کے اس مضحکہ خیز بیان اور مذموم عزائم، ان کے جارحانہ مزاج اور خود ساختہ بیانات دینے کی روش کے پیچھے یقیناً وہی سوچ کارفرما ہے جس کی وجہ سے غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کیا گیا اور اب جبکہ حماس و اسرائیل کے درمیان دوحہ معاہدے کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہونے جارہا ہے تو ایک طرف معاہدے کی ضمانت دینے سے پیچھے ہٹ گئے بلکہ غزہ کے عوام کو بے دخل کرکے دوسرے ممالک میں آباد کرکے غزہ پر قبضے کا خواب سامنے لے آئے ہیں۔ یہ عزائم مشرق وسطیٰ میں امریکی مداخلتوں کی تاریک تاریخ کی یاد دہانی بھی کراتا ہے۔ عرب ممالک کی مشترکہ مخالفت، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی، اور علاقائی عدم استحکام کے خطرات اس منصوبے کو ایک نئی جغرافیائی تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ امریکہ کی گزشتہ صدی میں کی گئی فوجی مداخلتوں کے نتائج نے ثابت کیا ہے کہ یہ حکمت عملیاں نہ صرف انسانی المیوں کو جنم دیتی ہیں بلکہ طویل مدتی عدم استحکام کو بھی فروغ دیتی ہیں۔
ٹرمپ کا خواب ہے کہ غزہ کو ’’مشرق وسطیٰ کی ریویرا‘‘ میں تبدیل کیا جائے، جہاں امریکی فوجی تعیناتی کے ذریعے امن و امان قائم کیا جائے اور اقتصادی ترقی کی جائے۔ ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ غزہ کی پٹی کی ذمہ داری لے گا اور فلسطینیوں کو دوسری جگہ آباد کرنے کے بعد اس کی دوبارہ تعمیر کرے گا اور اس علاقے کو مشرق وسطیٰ کا ریویرا میں تبدیل کر دے گا جس میں فلسطینیوں سمیت دنیا کے لوگ رہیں گے۔ ریویرا ایک ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے سمندر کا کنارہ لگتا ہے اور لوگ عموماً سیاحتی مقاصد کیلئے جاتے ہیں لیکن صدر ٹرمپ کو یاد ہوگا کہ امریکی مہم جوئی کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔ عراق میں 2003سے 2011تک جاری رہنے والے حملے کے جواز میں تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے جھوٹے بہانے و بیانیہ نے 205,000شہریوں کی جان لی، داعش جیسے گروہوں کو جنم دیا، اور ملک کو فرقہ وارانہ جنگ میں دھکیل دیا۔ موصل اور رقہ جیسے شہر مکمل طور پر تباہ ہوگئے، جبکہ 1.5ٹریلین ڈالر کی معاشی تباہی نے خطے کو عدم استحکام میں دھکیل دیا۔ صدر ٹرمپ نے امریکی تاریخ کی سب سے مہنگی جنگ کا خاتمہ بھی تو دیکھا ہے، کیا وہ اسرائیل کی حمایت میں یہ بھول گئے کہ افغانستان میں2001سے2021تک جاری رہنے والی 20سالہ جنگ میں 2ٹریلین ڈالر کی لاگت، 243,000اموات، اور افغان طالبان کی واپسی نے ثابت کیا کہ امریکی جمہوریت کی برآمد کا خواب ناکام رہا۔ ویتنام میں 1955سے 1975تک جاری رہنے والی جنگ میں 3.8ملین اموات اور ماحولیاتی تباہی کا ورثہ آج بھی موجود ہے، صدر ٹرمپ کو غزہ پر قبضے کے خواب کا اعلان کرنے سے پیشتر ان حقائق سے واقف ہونا ضروری تھا۔
ٹرمپ کا غزہ پلان دراصل پرانی غلطیوں کو دوبارہ دہرانے کا منصوبہ ہے۔ غزہ کے 2.3ملین فلسطینیوں کو بے دخل کرنے اور امریکی قبضے کی تجویز میں قانونی اور اخلاقی دیوالیہ پن، علاقائی عدم استحکام کا خطرہ، اور فوجی اور معاشی ناکامی کا تسلسل جیسے خطرات پوشیدہ ہیں۔ فلسطینیوں، مصر، یا اردن سے مشاورت کے بغیر پیش کردہ منصوبہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی کے الفاظ میں ’’فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنا امن کیلئے زہر ہے‘‘۔ مصر اور اردن پہلے ہی 2.3 ملین فلسطینی پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ غزہ کی 70فیصد آبادی پہلے ہی بے گھر ہو چکی ہے، جبکہ 47,000سے زائد فلسطینی اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں قیمتی جانوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ غزہ کی تعمیر نو کے لیے درکار 40بلین ڈالر کی لاگت درکار ہوگی جو 15سالہ عرصہ ٹرمپ کے منصوبے میں نظرانداز کیا گیا ہے۔
امریکی فوجیوں کی تعیناتی سے حماس۔اسرائیل جیسے تنازعات میں الجھنے کا خطرہ ہے، جیسے عراق میں داعش کیخلاف جنگ نے امریکہ کو 9سال تک الجھائے رکھا۔ 3فروری 2025کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، مصر، اردن اور فلسطینی نمائندے حسین الشیخ نے مشترکہ خط میں ٹرمپ کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے فلسطینی ایجنسی، دو ریاستی حل، اور عرب یکجہتی پر زور دیا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے امریکی اتحادیوں کا ٹرمپ کو کھلی مخالفت خطے میں طاقت کے نیٹ ورکس میں تبدیلی کی علامت ہے۔ عرب لیگ نے اسے ’’نسلی صفائی‘‘ اور فلسطینی حقوق کی پامالی قرار دیا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی کے لیے خطرات میں علاقائی اتحادوں کو نقصان، ایران اور روس کو فائدہ، اور داخلی سیاسی خطرات شامل ہیں۔ جیسے افغانستان میں طالبان کی واپسی یا عراق میں داعش کا عروج ثابت کرتا ہے کہ فوجی طاقت کے ذریعے خطے کو تبدیل کرنے کی کوششیں ناکام رہتی ہیں۔ ٹرمپ کا منصوبہ نہ صرف فلسطینیوں کے جائز حقوق کو پامال کرتا ہے بلکہ امریکہ کو ایک نئی دلدل میں دھکیلنے کا باعث بن سکتا ہے۔ عرب دنیا کی یکجہتی اس امرکی غمازی کرتی ہے کہ اب مشرق وسطیٰ میں پرانی ڈکٹیٹرشپ والی پالیسیوں کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کی پٹی پر امریکی قبضے اور وہاں کے 2.3 ملین فلسطینیوں کی بے دخلی کا منصوبہ نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ خطے میں امریکی مداخلتوں کی ناکام تاریخ کا ایک اور باب بھی ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنا اور غزہ پر امریکی قبضہ کرنے کا خواب انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امن صرف فلسطینیوں کے حقوق کی بحالی سے آ سکتا ہے۔967 1کی سرحدوں پر مبنی فلسطینی ریاست ہی واحد حل ہے۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ اس عمل میں مددگار بنے، نہ کہ رکاوٹ۔ صدر ٹرمپ نے پہلے بھی امریکی پالیسی میں اسرائیل کیلئے خارجہ پالیسی کو تبدیل کیا تھا جس نے دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مزید سنگین بنایا، انہیں اپنے عزائم و خوابوں کی تکمیل کیلئے بولنے سے پہلے تولنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button