Abdul Hanan Raja.Column

ٹیکسز، رئیل اسٹیٹ سیکٹر اور سرمایہ کاری

تحریر : عبدالحنان راجہ
رئیل اسٹیٹ سیکٹر ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ کو دیوار سے لگا کر اس پر ٹیکسوں کی ایسی دیوار چن دی گئی کہ جس سے مغلیہ دور کی یاد تازہ ہو گئی. بلا جواز اور بلا ضرورت ٹیکسز کی بھر مار نے حکومت خزانوں کا منہ کیا بھرنا تھا ہاں البتہ گزشتہ دو سال میں لاکھوں بے روزگار ہی نہیں ہوئے بلکہ ہزاروں تعمیراتی کمپنیاں اور بڑے بڑے ہائوسنگ و کمرشل پراجیکٹس کو بھی ایسی بریک لگی کہ اب سرکار کی نظر عنایت ہی اسے دوبارہ فعال کر سکتی ہے. غیر متوازن نظام سے نہ صرف یہ سیکٹر بلکہ اس سے منسلک دو درجن انڈسٹریز بھی براہ راست ایسی متاثر کہ روبہ زوال. ٹیکسوں کی بھر مار سے نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم والا حساب، کہ مزید ٹیکس کیا ملنے تھے جو مل رہے تھے ادارے ان سے بھی گئے. اداروں نے بھی ٹیکس کے مقررہ اہداف پورے کرنے کا آسان طریق ڈھونڈ رکھا ہے کہ ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکس. بجائے اس کے کہ فائلرز کی تعداد میں اضافہ اور مختلف شعبہ جات کو آسان انداز میں ان شعبہ کے نمائندگان کی مشاورت سے ٹیکس نیٹ میں لایا اور ٹیکس وصولی کا سہل طریق متعارف کرایا جائے، کاروباری طبقات پر عرصہ حیات ہی تنگ کر دیا جاتا رہا. معلوم نہیں ہمارے ہاں سرمایہ کاری کا ماحول ساز گار کیوں نہیں اور ادارے کاروبار اور کاروباری افراد کو پھلتا بھولتا
کیوں نہیں دیکھنا چاہتے. کیوں پیچیدہ قوانین، ٹیکسوں کی رکاوٹیں کھڑی کر کے ان طبقات کو رشوت پر مجبور کیا جاتا ہے. بلکہ ہراساں بھی. کیا یہ سچ نہیں کہ پاکستان میں ون ونڈو آپریشن صرف اعلان کی حد تک ہی محدود اور آج بھی نیا کاروبار رجسٹرڈ کرانے یا نئی صنعت لگانا جوئے شیر لانے کے مترادف، حتی کہ بیرون ممالک کے سرمایہ دار جو حکومت کی دعوت پر آتے ہیں وہ بھی ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں. کراچی کے تاجر متعدد بار ان نادیدہ مسائل کا ذکر کر چکے جو انہیں درپیش. پھر انڈسٹریز کو مہنگی بجلی اور گیس کے بھاری بھرکم بل بھی مار دیتے ہیں اور ٹیکس اتنے کہ الاماں الحفیظ. اتنے مسائل کے انبار کے ساتھ کاروبار آسان ہے اور نہ بقا ممکن. حکومت ہو یا بیوروکریسی اپنی عیاشیاں اور کروفر ٹیکس در ٹیکس لگا کر جاری رکھنے کی خواہاں، آج تک کس حکومت نے اپنے اخراجات اور پروٹوکول کم کئے سوائے مرحوم محمد خان جونیجو کے. قرض کی مے پی پی کر ہم اتنے بے سدھ ہو گئے کہ دیانت و امانت کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا اور سادگی تو ہمیں زہر لگتی ہے. جس ملک میں ایک لاکھ سے زائد سرکاری گاڑیاں ہوں وہاں سادگی کا تصور کیسا. ان مسائل پر بات کرنے اور لوٹ مار کے اس نظام کی اصلاح کے لیے عوام اراکین کو منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں مگر ماشاء اللہ ہمارے اراکین اسمبلی کو مختلف شعبہ جات طبقات اور عام آدمی کی مشکلات کا اندازہ ہے اور نہ دلچسپی، کاروباری سیکٹر کی نمو کے لیے ان کے پاس تجاویز ہیں اور نہ ٹیکسوں کے پیچیدہ نظام کا کوئی حل. اسمبلی میں متوسط اور ایس ایم ایز بارے کبھی مباحثہ ہوا اور نہ بڑی صنعتوں کی مشکلات کے ازالے کے لیے تجاویز آئیں. ہر جماعت کے چنیدہ ممبران اسمبلیوں میں بولتے ہیں، اگر حکومت کی طرف سے ہوں تو اپوزیشن کو رگید کر اپنی قیادت کی داد طلب نگاہوں کے منتظر ہوتے ہیں اور اپوزیشن ارکان بد تہذیبی اتنی بڑھ
چڑھ کر کرتے ہیں کہ میڈیا کو بریکنگ نیوز میسر آتی ہے تو دوسری طرف قیادت انہیں سند وفاداری عطا کرتی ہے. ہاں حکومت و اپوزیشن میں اتفاق رائے ہوتا ہے مگر اپنی مراعات کے لیے، باقی معاشی مسائل یا ملکی ترقی پر یکجا ہونا ان پر حرام. یہ تو احوال ہیں ہماری اسمبلیوں کے. اب کوئی سنے، نہ سنے ہر سیکٹر اور شعبہ کو اپنی جنگ خود ہی لڑنا پڑتی ہے. یہ طبقات دیگر تنظیموں اور ہمارے ہاں کے رواج کے مطابق اپنے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے احتجاج توڑ پھوڑ کر نہیں سکتے، سوائے بات چیت، سیمینار یا پریس کانفرنس، ایسی نحیف آواز ارباب اختیار تک کب پہنچتی ہے کہ جب ہر سو شور و غل اور ہنگامہ. ہمارے ہاں تو حکومتیں مخالفین کو زچ کرنے اور نااہلی کے باوجود اپنی حکومت کی بقا میں مدت پوری کر کے رخصت ہو جاتی ہیں اور وراثت میں مسائل کے انبار اگلی حکومت کے لیے چھوڑ جاتی ہیں. بدقسمتی یہ بھی ہے کہ حکومتیں تجاویز اور پالیسیوں کی تیاری میں صنعت کاروں اور کاروباری طبقات کی جن پر معیشت کا انحصار اور جو اقتصادی ترقی کی ضامن کو اعتماد میں لیتی ہے اور نہ ان کے آراء کو پالیسیوں کا حصہ بنایا جاتا ہے وہی روایتی طریق کہ ہر مسئلہ کا حل بیوروکریسی. تو پھر کیا یہ حقیقت نہیں کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے ساتھ بھی یہی ہوا، ٹیکسوں کی بھر مار سے ایک طرف کاروبار جمود کا شکار ہوا، سرمایہ کاری رک گئی اور بے روزگاری کا سیلاب الگ، اوورسیز پاکستانیوں نے بھی ہاتھ کھینچا تو یہ شعبہ دھڑام سے ایسا نیچے آیا کہ نقصان 35سے 50فی صد تک. جبکہ اس شعبہ سے جڑی لگ بھگ 30سے زائد انڈسٹریز یا تو بند ہیں یا آخری سانسوں پر. جس سے ٹیکس وصولی کے اہداف بھی دھرے کے دھرے رہ گئے اور بدنامی الگ. یہ بھی درست کہ ہمارے ہاں ڈیلرز ہوں بڑی کمپنیاں، اکثریت ٹیکس دائرے میں آنا سے گریزاں، افراط و تفریط کے اس ماحول کو اعتدال پر لائے بغیر معیشت چلے گی نہ کاروبار. حد تو یہ کہ بڑی تعمیراتی کمپنیاں، سیمنٹ، سریا، بھتہ خشت، فٹنگز کے کاروبار سے وابستہ مختلف شعبہ جات جو روزانہ کی بنیاد پر کئی ملینز کا لین دین کرتے ہیں ٹیکس نیٹ سے باہر اور وہ ٹیکس وصولی کے اہل کاروں سے مل ملا کر یا دیگر طریقوں سے معاملات کر کے قومی خزانے کو ڈس رہے ہیں. ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت اور اتنا بوجھ کہ جو یہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر اور دیگر طبقات اٹھا سکیں اور بخوشی ٹیکس دھارے میں آئیں، رئیل اسٹیٹ شعبہ میں بلا وجہ سٹے آرڈر اور سال ہا سال تک کیسوں کو معرض التوا میں رکھنے کا سلسلہ ختم کئے بغیر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا اور نہ بیرون ممالک پاکستانیوں کی جانب سے رکی سرمایہ کاری. ہر شعبہ سے ملک اور معیشت کو ڈسنے والے بدعنوان اہل کاروں کو نشان عبرت بنایا جانا بھی ضروری کہ یہی ناسور ہی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ.خدا را اپنا خیال رکھئے مگر پاکستان کا بھی !۔

جواب دیں

Back to top button