ColumnFayyaz Malik

وزیر اعلیٰ مریم نواز کے ’’کی پرفارمنس انڈیکیٹرز‘‘

تحریر : فیاض ملک
قانون کے نفاذ میں ایک اہم پہلو قانون کی حفاظت کا ہے، اس بات کی نگرانی بھی ضروری ہوتی ہے کہ کہیں کوئی بندہ قانون کو توڑنے کا مرتکب تو نہیں ہورہا ہے، وہ دوسروں پر ظلم تو نہیں کر رہا ہے؟ دوسروں کو ان کے جائز حقوق سے محروم کرنے کا مرتکب تو نہیں ہورہا ہے؟ قانون اور حقوق کے تحفظ کی یہ ذمہ داری جس سے متعلق ہے، وہ ہے پولیس۔ پولیس ہی معاشرہ کو کنٹرول کرتی ہے، لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ بے جا خواہشات کو اپنے کنٹرول میں رکھیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ظلم و زیادتی کے مرتکب نہ ہوں۔ معاشرہ میں عدل و انصاف کو قائم رکھنے اور ظلم و زیادتی اور حق تلفی کو روکنے میں پولیس کا نہایت اہم رول ہے، ارض پاک میں اگر ایک جانب سندھ میں جرائم کی نوعیت تشویشناک ہے، وہیں پنجاب میں بھی حالات کسی لحاظ سے بہتر نہیں ہیں۔ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح اور اس طرح کے دلخراش واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ صوبے میں قانون اور انصاف کے نظام میں کئی خامیاں موجود ہیں، روز بروز بڑھتے ہوئے جرائم کے باوجود پنجاب پولیس میں آئی جی سے لیکر آر پی او ، ڈی پی او اور سی پی او تک کے تمام افسران ہر میٹنگ میں دعوے کرتے ہوئے نظر آئے کہ صوبے میں، انکی ریجن میں ، ضلع میں اور ڈویعن میں جامع پالیسیوں کی وجہ سے گزشتہ سالوں کی نسبت سنگین و عام نوعیت کے جرائم کی شرح میں کمی آئی ہے، امن کا بول بالا ہے ، کرائم کنٹرول میں ہے، یہی وجہ ہے کہ پولیس افسران کے ان دعوئوں کے پیچھے چھپی ہوئی اصل حقیقت کو جانچنے اور اصلی کارکردگی کو منظر عام پر لانے کیلئے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے چند ماہ قبل کی پرفارمنس انڈیکیٹرز کے نام سے ایک پیمانہ متعارف کروایا تھا، جس کے طریقہ کار میں کارکردگی کی بنیاد پر تشخیص کا نظام 33کلیدی کارکردگی کے اشارے (KPIs)پر مبنی ہے جو پولیس اہلکاروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، اس سسٹم کے مطابق اہلکاروں کو مخصوص اہداف کے حصول کیلئے نشانات دیئے جاتے ہیں جیسے مقدمات کو فوری حل کرنے کیلئے تین پوائنٹس، جرائم کی شرح میں کمی کیلئے تین پوائنٹس، پتنگ بازی اور ہوائی فائرنگ کی روک تھام کیلئے چار پوائنٹس اور دہشت گردی کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے چار پوائنٹس ترتیب دئیے گئے، اسی طرح دوسری طر ف ہم بڑے ہی ماہر ہیں اور تجربہ کار بھی ہیں ، ہم بڑے کرائم فائٹر ہیں اور کرائم کو کنٹرول کرنے کا ہنر کے بلند و بانگ دعوے کرنیوالے پولیس افسران کو ناقص کارکردگی پر سزا دینے کا طریقہ اس ’ کی پرفارمنس انڈیکیٹرز‘ میں شامل ہے، اگر پولیس ایک مخصوص مدت کے اندر مقدمات کو حل کرنے میں ناکام ہوئی تو اس پر پر تین پوائنٹس کاٹے جائیں گے اور جرائم کی شرح کو کم کرنے میں ناکامی پر بھی تین پوائنٹس کاٹے جائیں گے اور اگر پولیس افسران یا اہلکار تین ماہ تک اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہتے ہیں تو ’ کی پرفارمنس انڈیکیٹرز‘ کے تحت ان افسران کے تبادلے بھی ہو سکتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ پنجاب حکومت نے پولیس کو غیر سیاسی کرنے کیلئے اپنے ایم این ایز اور ایم پی اے کی مداخلت کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے محکمہ پولیس میں ناصرف تبادلوں اور پوسٹنگ کے معاملات میں پولیس افسران کو مکمل، خود مختاری، دی ہوئی ہیں بلکہ ان کو کرائم کے خاتمے کیلئے منہ مانگے بھاری فنڈز اور لاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کر رکھی ہیں، گاڑیاں اور دیگر کئی طرح کی سہولیات انہیں میسر ہیں لیکن وہ نہ جانے کہاں پر استعمال ہورہی ہیں؟ اگر ان تمام تر سہولیات کے باوجود جرائم کی شرح قابو میں نہیں آرہی، پنجاب میں جرائم کی شرح میں خوفناک حد تک اضافے کا انکشاف بھی پنجاب پولیس کے ہی 2024ء کے جرائم کا ریکارڈ میں سامنے آیا ہے، جرائم میں اضافہ ان اعلیٰ ترین اور سخت ترین افسران کے ان بلندو بانگ دعوئوں کی واضح طور پر نفی کرتا دکھائی دیتا ہے، رپورٹ کے مطابق سال2024ء کے دوران سنگین جرائم کی شرح میں کمی ہونے کی بجائے الٹا 5فیصد اضافہ ہو گیا اور 2023ء کی نسبت57ہزار مقدمات زیادہ درج ہوئے ہیں، اب اس صورتحال میں عوام کو تحفظ کی بجائے عدم تحفظ کا احساس ہی ہورہا ہے تو یقینا یہ پنجاب کی وزیر اعلی مریم نواز کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے، شاید اسی لئے وزیر اعلیٰ مریم نواز نے پنجاب میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے گزشتہ دنوں ایک میٹنگ میں پولیس افسران کی سخت سرزنش
کی اور انہیں متنبہ کیا کہ اوسط سے کم کارکردگی دکھانے والوں کو ہٹا دیا جائے گا، وزیر اعلی کی اس میٹنگ میں فیلڈ افسران کی کارکردگی کا جائزہ لیا، جس میں ایف آئی آر کے نشانات، جرائم پر قابو پانے کی کوششیں، مقدمات کی تفتیش میں بہتری، منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی، امن و امان کی صورتحال، خواتین اور کمزور گروہوں کا تحفظ، شکایات سے نمٹنے اور ان تک رسائی شامل تھی، اس میٹنگ کی حیران کن بات یہ تھی کہ پورے صوبے میں پولیس افسروں کی کارکردگی جانچنے کیلئے تشکیل دی جانیوالی ’ کی پرفارمنس انڈیکیٹرز‘ میں صرف ڈی پی او وہاڑی منصور امان، سی پی او گوجرانوالہ رانا ایاز سلیم، ساہیوال کے سابق ڈی پی او فیصل شہزاد جوکہ اس وقت سیالکوٹ میں تعینات ہے اور قصور کے ڈی پی او عیسیٰ سکھیرا کی ہی کارکردگی بہتر تھی جبکہ باقی اضلاع کے آر پی اوز، ڈی پی اوز اور سی پی اوز کی کارکردگی قابل ذکر بھی نہیں تھی ، وزیر اعلی نے ان اضلاع میں سزا کی کم شرح پر، خاص طور پر منشیات کی فروخت اور اسٹریٹ کرائم کے مقدمات میں اپنی مکمل ناراضگی ظاہر کی، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پرفارمنس انڈیکٹرز میٹنگ میں پولیس کو کارکردگی بہتر بنانے کی ہدایت کی، وزیر اعلیٰ اس میٹنگ کے بعد پنجاب پولیس میں اعلیٰ سطح کے افسران کی جلد و بدیر ٹرانسفرز پوسٹنگ کا بھی امکان پیدا ہوگیا، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پنجاب میں بڑھتا ہوئے جرائم ایک تلخ حقیقت ہے جس سے آنکھیں نہیں پھیری جا سکتیں، 13کروڑ عوام کے صوبے کی ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے وزیر اعلیٰ مریم نواز کی جانب سے محکمہ پولیس کو گاڑیاں، آلات، اسلحہ، ٹریننگ،سمیت دیگر وسائل مہیا کئے بھی جارہے ہیں تاکہ ہر قسم کے جرائم پر بآسانی قابو پایا جاسکے، اس قدر وسائل کے اب پولیس کو بھی چاہیے کہ وہ زبانی کلامی دعوئوں کی بجائے عملی طور پر کارکردگی دکھاتے ہوئے جرائم کنٹرول کرے اور صوبے بھر میں کرائم ریٹ کو ہر صورت نیچے لائے۔ ہم جمہوری ملک کے شہری ہیں ہمارے تحفظ کے مقصد سے قانون کی بالادستی کو قائم رکھنا پولیس کی ذمہ داری ہے مگر عموماً پولیس اپنے منصبی تقاضوں اور فرائض کو بھول جاتی ہے ایسے میں انصاف کو یقینی بنانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ضرورت ہے کہ پولیس اپنی کارکردگی کو عملی طور پر بہتر بنائے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عوام انہیں اپنا محسن سمجھیں گے۔

جواب دیں

Back to top button