امریکا اور چین میں اے آئی کی جنگ تیز

تحریر : محمد ناصر شریف
ڈیپ سیک، چینی شہر ہانگ جو میں قائم ایک اسٹارپ اپ کمپنی ہے جس کے زیادہ شیئرز لیانگ وین فانگ کے پاس ہیں۔ 40سالہ لیانگ ایک انفارمیشن اینڈ الیکٹرانک انجینئرنگ گریجویٹ ہیں۔ وہ ٹیک کے شعبے کے ایک بڑے سرمایہ کار ہیں۔ انہوں نے 2023ء میں اپنے مالی وسائل مصنوعی ذہانت کے شعبے پر صرف کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کی کمپنی کے پاس 10ہزار این ویڈیا H100مائیکرو چپ موجود ہیں۔
ڈیپ سیک کی شاندار کامیابی کا سہرا اس کی نوجوان اختراع کاروں کی باصلاحیت ٹیم کو دیا جا سکتا ہے، جنہوں نے محدود وسائل کے باوجود یہ اے آئی ٹیکنالوجی تیار کی ہے۔ اس ٹیم کی ایک ممتاز ممبر لو فولی ہیں جنہیں چین میں AI prodigy کہا جاتا ہے ( یعنی اے آئی کی غیر معمولی صلاحیتوں والی)29سالہ اے آئی محقق نے نیچرل لینگویج پروسیسنگ ( این ایل پی) میں اپنی اہم شراکت کے لئے وسیع پیمانے پر توجہ حاصل کی ہے۔ لو کا سفر بیجنگ نارمل یونیورسٹی سے شروع ہوا، جہاں انہوں نے ابتدا میں کمپیوٹر سائنس میں جدوجہد کی لیکن آخر کار انہوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد انہوں نے پیکنگ یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف کمپیوٹیشنل لینگویج میں جگہ حاصل کی جہاں انہوں نے 2019ء میں اے سی ایل کانفرنس میں آٹھ مقالے پیش کئے۔ اس قابل ذکر کامیابی نے علی بابا اور ژیائومی جیسے ٹیک جائنٹس کی توجہ لو کی طرف موڑ دی۔ علی بابا میں ایک محقق کے طور پر لو نے کثیر لسانی پری ٹریننگ ماڈل VECOکی ترقی میں مدد کی۔ اس کے بعد انہوں نے 2022ء میں ڈیپ سیک میں شمولیت اختیار کی۔ نیچرل لینگیج پروسیسنگ میں ان کی مہارت نے ڈیپ سیک کو تیار کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ڈیڑھ سالہ چینی کمپنی ڈیپ سیک نے صرف 56لاکھ ڈالر کے عوض امریکی کمپنیوں کے طاقتور اے آئی سسٹمز مثلاً چیٹ جی پی ٹی، لاما اور جیمنی جیسا اپنا سسٹم ’’ڈیپ سیک آر 1‘‘ بناکر مغربی دنیا میں ہلچل مچادی ہے۔ ہر امریکی کمپنی نے کروڑ ہا ڈالر خرچ کرکے اپنا سسٹم تخلیق کیا مگر چینی کمپنی نے بانی لیانگ وین فینگ کی زیر قیادت معمولی رقم میں انہی کے ہم پلہ سسٹم بناکر سبھی کو حیران کر ڈالا ۔ 27جنوری کو جب چینی کمپنی کی ایپ ایپل اسٹور پر نمبر 1ہوئی تو امریکی اسٹاک مارکیٹ میں مقامی ٹیک کمپنیوں کے حصص کی مالیت 1.2ٹریلین ڈالر گر گئی۔ مشہور چپ ساز کمپنی، نوڈیا کی مالیت تو 60کروڑ ڈالر کم ہوئی ۔ یہ امریکی اسٹاک مارکیٹ کی تاریخ میں ایک دن میں سب سے بڑی گراوٹ تھی۔ وجہ یہ کہ امریکا نے سات آٹھ سال سے چین کو جدید ترین چپس سے دور رکھنے پر پابندیاں لگارکھی ہیں۔
ڈیپ سیک، اوپن اے آئی اور میٹا کے مقابلے میں کہیں زیادہ کم قیمت ہے اور ڈیپ سیک۔ R1کا استعمال ان دونوں کے مقابلے میں 20سے 50گنا تک سستا ہے۔ ڈیپ سیک کی زبردست کامیابی نے ثابت کردیا، چینی کمپنیاں بھی طاقتور چپس بنانے پر قادر ہوچکی ہیں۔ گویا اب امریکی کمپنیاں اے آئی مارکیٹ میں لیڈر نہیں ، اسی لئے ان کی مالیت کم ہوئی۔ ڈیپ سیک ۔ V3نے مصنوعی ذہانت نے ایک اور معروف اور مروجہ پروگرام چیٹ جی ٹی پی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پہلی حیثیت حاصل کر لی ہے اور اب اس کا ایپ امریکہ کے ایپل کمپیوٹر اسٹور پر مفت ڈاؤن لوڈ کیلئے دستیاب ہے۔
سلیکون ویلی وینچر کیپیٹلسٹ اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر مارک اینڈریسن نے ڈیپ سیک آر ون کو اے آئی کی دنیا میں سپوٹنک کے لمحے کے طور پر بیان کیا ہے۔ انہوں نے اس کا موازنہ 1957ء میں سوویت یونین کے ذریعے لانچ کئے گئے پہلے مصنوعی زمینی سیٹلائٹ سے کیا ہے۔ سنگاپور میں مقیم ٹیکنالوجی ایکویٹی ایڈوائزر وے سرن لنگ کے مطابق یہ ممکنہ طور پر پوری اے آئی سپلائی چین کیلئے سرمایہ کاری کو پٹری سے اتار سکتا ہے لیکن وال اسٹریٹ بینکنگ کمپنی سٹی نے خبردار کیا ہے کہ ڈیپ سیک اوپن اے آئی جیسی امریکی کمپنیوں کے غلبے کو چیلنج کر سکتا ہے اور چینی فرمیں ان کی ترقی کو روک سکتی ہیں۔ واضح رہے 2022ء کے آخر میں اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی کے اجرا نے چینی ٹیک کمپنیوں میں ہلچل مچا دی، جنہوں نے مصنوعی ذہانت سے چلنے والے اپنے چیٹ بوٹس تیار کرنے کی دوڑ شروع کر دی لیکن جب سرچ انجن کی بڑی کمپنی بائیڈو (9888.HK)نے پہلا چینی چیٹ جی پی ٹی متبادل جاری کیا، تو چین میں امریکی اور چینی کمپنیوں کی مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوں کے فرق پر وسیع پیمانے پر مایوسی دیکھنے میں آئی۔ چینی ایپ کے محققین کا کہنا ہے کہ وہ دستیاب ٹیکنالوجی کو استعمال کر رہے ہیں اور یہ ایک ایسا سافٹ ویئر ہے جسے کوئی بھی مفت میں استعمال اور تبدیل کر سکتا ہے۔
امریکی نیوی نے اپنے عہدیداروں کو ای میل کے ذریعے خبردار کیا ہے کہ ڈیپ سیک اے آئی کا استعمال کسی صورت نہ کریں کیونکہ اسکے ماڈل ماخذ اور استعمال سے سکیورٹی اور اخلاقی خطرات جڑے ہوئے ہیں۔ امریکی نیوی کے ترجمان نے اہلکاروں کو ای میل بھیجنے کی تصدیق کی اور کہا کہ یہ اقدام نیوی کے چیف انفارمیشن افسر کی جانب سے اے آئی سے متعلق بنائی گئی پالیسی سے جڑا ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک کی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈیپ سیک کے بعد ہماری انڈسٹری کو جاگ جانا چاہئے۔.
ٹرمپ نے کہا کہ ہمیں اب دھیان بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے لئے مثبت چیز ہو سکتی ہے، ہم اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بجائے کم قیمت میں ایسا ہی حل نکال سکیں گے۔بلومبرگ کے مطابق امریکہ کی وال سٹریٹ کو ایک کھرب ڈالر کا نقصان جھیلنا پڑا اور اس کی وجہ یہ بنی کہ ڈیپ سیک نے اپنا نیا مصنوعی ذہانت پر مشتمل آر ون ماڈل لانچ کیا۔ ڈیپ سیک کے مطابق ان کا چیٹ بوٹ انتہائی مشکل سوالوں کے حل بآسانی تلاش کر سکتا ہے اور اس کی کارکردگی چیٹ جی پی ٹی جیسی ہی ہے، مگر اس پر آنیوالی لاگت انتہائی کم ہے اور صارفین بغیر کوئی رقم ادا کئے اس کے تمام فیچرز استعمال کر سکتے ہیں۔
ڈیپ سیک کا آر ون بھی ایک اوپن سورس ماڈل ہے، یعنی دوسری کمپنیاں اس کے کوڈ تک رسائی حاصل کرتے ہوئے متبادل مصنوعی ذہانت کے ماڈلز ایجاد کر سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہفتے میں ڈیپ سیک چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ایپل کے ایپ سٹور پر موجود فری ایپلی کیشنز میں سرفہرست آ چکی ہے۔ بلومبرگ کو ایک بیان میں این ویڈیا کے ترجمان نے کہا کہ ڈیپ سیک مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ایک ترقی ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح ایک کمپنی ٹیسٹ ٹائم سکیلنگ کے طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے نئے اے آئی ماڈلز بنا سکتی ہے اور وہ بھی بڑے پیمانے پر دستیاب ماڈلز اور کمپیوٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جو مکمل طور پر ایکسپورٹ کنٹرولڈ ہیں۔
امریکہ میں کھلبلی مچانے کے بعد ڈیپ سیک کو سائبر حملوں کا سامنا ہے۔ ماہرین کے نزدیک چین و امریکا کے مابین اے آئی جنگ میں اب مزید شدت آئے گی، وی پی این ، اے آئی استعمال کرنے والے سائبر حملوں کی زد میں آئیں گے۔