Column

’’ ڈونکی‘‘ پرُ خطر، ایف آئی اے کا کریک ڈائون جاری

تحریر : محمد ناصر شریف
زندگی کو خوبصورت بنانے کے لیے یورپ جانے کا سفر نہایت پرُخطر ہے جو بے رحم موسم، نامانوس علاقوں، تشدد کے امکانات اور موت کے خطرے پر مشتمل ہے۔ یورپ کے سفر میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ سرحدی نگرانی، موسم اور ایجنٹوں کا کردار بھی اہم ہے۔ نوجوانوں اور بوڑھوں کی قسمت اگر یاوری کرے تو وہ بہت مشکلات سے گزر کر منزل پر پہنچ جاتے ہیں ورنہ بے رحم سمندر میں ڈوب کر مر جاتے ہیں۔ غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والوں کیلئے’’ ڈونکی ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے جبکہ انہیں بیرون ملک بھجوانے کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کے لیے’’ ڈنکرز‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ پنجاب کے منڈی بہائوالدین، گوجرانوالہ اور گجرات کے اضلاع جو انسانی اسمگلنگ کے بدنام مراکز ہیں ’’ ڈونکی ‘‘ کی اصطلاح اس سلوک کی نمائندگی کرتی ہیں جو یورپ جانے کے خواہشمند افراد کے ساتھ پاکستان، ایران اور ترکی میں روا رکھا جاتا ہے۔ یورپ تک جانے کے دو راستے ہیں۔ مختصر راستے میں خطرات زیادہ ہیں جبکہ اس کا خرچ بھی زیادہ ہے۔ طویل راستے میں دشوار گزار علاقوں میں روزانہ کم از کم12گھنٹے سفر کرنا شامل ہے۔ پہلا راستہ پنجاب سے شروع ہوتا ہے اور کراچی تک جاتا ہے۔ اس کے بعد تارکین کو بسوں کے ذریعے گوادر پہنچایا جاتا ہے۔ ایران پاکستان سرحد کے آر پار رہنے والے بلوچ آگے کے سفر میں سہولت کاری کرتے ہیں۔ دوسرے راستے میں کوئٹہ کے ذریعے تہران پہنچایا جاتا ہے۔ تارکین ایرانی علاقے میں اسمگلنگ کرنے والوں کی فراہم کردہ گاڑیوں کے ذریعے گروہوں کی شکل میں داخل ہوتے ہیں۔ بیشتر علاقہ ویران ہوتا ہے اور سیکیورٹی والوں سے سامنا ہونے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ ایرانی ساحلی شہر چاہ بہار کے قریب تارکین کو ٹکڑیوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور ہر ڈنکر 20سے 25تارکین کا ذمے دار ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر ’’ ڈونکیز‘‘ کو اپنے اہل خانہ سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ یہ دھندا حقیقی معنوں میں بین الاقوامی ہے۔
انسانی اسمگلر نوکری کا جھانسہ دے کر لاکھوں روپے بٹورتے ہیں اور ملک سے باہر روانہ کر دیتے ہیں۔ جانے والے مجبور لوگ راستے ہی میں حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں یا متعلقہ ملک میں پہنچتے ہی غیرقانونی داخلے پر گرفتار کر لیے جاتے ہیں اور برسوں جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں لیبیا کے راستے کشتیوں میں اٹلی اور یونان جانے والے سیکڑوں افراد سمندر کی نذر ہوگئے۔ اس طرح اب تک سیکڑوں خاندان تباہ ہوچکے ہیں، جنہوں نے اپنے مال مویشی اور زمینیں بیچ کر انسانی اسمگلروں کو فی کس چالیس سے 60لاکھ روپے تک فی کس معاوضہ ادا کیا اور اپنے پیاروں سے بھی محروم ہو گئے۔
حکومت خود بھی اس صورتحال پر فکرمند ہے اور وزیراعظم شہباز شریف نے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے ہونے والے ایک جائزہ اجلاس میں جو، ان کی صدارت میں منعقد ہوا، سختی سے ہدایت کی ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے سہولت کار سرکاری افسروں کے خلاف کارروائی کی جائے، ان کی جائیدادیں اور اثاثے ضبط کئے جائیں اور انہیں نشان عبرت بنایا جائے۔ انہوں نے یہ بھی ہدایت کی کہ وزارت اطلاعات و نشریات بیرون ملک نوکریوں کیلئے صرف قانونی طریقے اختیار کرنے کی آگاہی مہم چلائے، تادیبی کارروائی کیلئے سخت تعزیری اقدامات کئے جائیں اور دفتر خارجہ بیرون ملک سے انسانی اسمگلنگ کا دھندا چلانے والے پاکستانیوں کی جلد از جلد پاکستان حوالگی کیلئے متعلقہ ممالک سے رابطہ کرے۔ وزیراعظم نے انسانی اسمگلروں کی مدد کرنے والے سرکاری اہل کاروں کے خلاف ایف آئی اے کی مہم کو سراہا اور ہدایت کی کہ ایسے افراد کے خلاف استغاثہ کے عمل کو مزید موثر بنایا جائے۔ ہوائی اڈوں پر بیرون ملک جانے والوں کی اسکریننگ کا عمل مزید موثر بنایا جائے۔ ایسے ٹیکنیکل اداروں کی ترویج کی جائے جو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تربیت یافتہ پیشہ ور افراد بیرون ملک مارکیٹ کو فراہم کر سکیں۔ اجلاس میں انسانی اسمگلنگ روکنے کیلئے قانون سازی پر ہونے والی پیش رفت پر وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ اس حوالے سے اب تک کیا اقدامات کئے گئے ہیں۔ اسمگلنگ مال کی ہو یا انسانی جانوں کی، ایک ایسا ناسور ہے جسے جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ایسے اقدامات بھی کرنے چاہئیں، جن سے نوجوانوں کو ملک کے اندر ہی روزگار ملے۔ اس وقت ہنر مند اور پڑھے لکھے لوگ روزگار نہ ملنے کی وجہ سے بیرونی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال جاری رہی تو ملک کے اندر ایسے افراد کی قلت پیدا ہوجائے گی جو ملکی معیشت کیلئے شدید نقصانات کا باعث بنے گی۔ کوئی بھی ملک جو معاشی ترقی کا خواہش مند ہو، برین ڈرین کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان اس وقت اقتصادی مشکلات سے دوچار ہے، اسے ایسی صورتحال پیدا نہیں ہونے دینی چاہئے۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے انسانی اسمگلروں کے خلاف جن تعزیری اقدامات کا اعلان کیا ہے ، ان پر سختی سے عمل درآمد ہونا چاہئے۔
فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی ( ایف آئی اے) نے موجودہ صورتحال میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف ملک گیر کریک ڈائون جاری رکھا ہوا ہے۔ اس حوالے سے جاری ایک رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے حالیہ ایک ماہ کے دوران 185ہیومن اسمگلرز اور ایجنٹس کو گرفتار کیا ریڈ بک میں شامل 38انتہائی مطلوب انسانی اسمگلروں کو حراست میں لیا گیا۔ یونان کشتی حادثے 2024ء میں ملوث 16ایجنٹ بھی پکڑ لیے گئے۔ اس کے ساتھ 20ایف آئی اے اہلکاروں کو بھی حراست میں لے کر تفتیش شروع کی گئی۔ اسی طرح سال 2023ء کے یونان کشتی حادثہ کے حوالے سے 15اشتہاریوں اور 15ماسٹر مائنڈ انسانی سمگلروں کو گرفتار کیا گیا۔ انسانی اسمگلنگ میں ملوث ملزمان کی 45کروڑ روپے سے زائد مالیت کی جائیداد ضبط کی گئی، انسانی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کے زیر استعمال 7کروڑ روپے کے بینک اکائونٹ منجمد کئے گئے۔ انٹرپول کے ذریعے انسانی اسمگلنگ میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لئے 20ریڈ نوٹس جاری کئے گئے۔ ڈی جی ایف آئی اے احمد اسحاق جہانگیر ملک کے مطابق یونان کشتی حادثے میں ملوث 38 ایف آئی اے اہلکاروں کو ملازمت سے برخاست کیا گیا۔ ناقص تفتیش اور پیروی کے باعث 12ڈپٹی ڈائریکٹرز اور اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کو چارج شیٹ کیا گیا اور وزارتِ داخلہ کو رپورٹس بھجوائی گئیں۔ ناقص نگرانی پر 4زونل ڈائریکٹرز سے وضاحت طلب کی گئی۔ لیبیا کشتی حادثے 2024ء کے تناظر میں 30اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی شروع کی گئی۔ کشتی حادثے میں ملوث ایجنٹوں کی گرفتاری کے لئے تمام تر وسائل کو بروئے کار لایا جارہاہے جبکہ تمام ایئر پورٹس پر تعینات افسروں کو ایجنٹوں کے گرفتاری کے لئے کڑی نگرانی کی ہدایت جاری کردی گئی ہے۔
ایف آئی اے انسانی اسمگلنگ، جعلی سفری دستاویزات پر بیرون ملک جانے کی کوشش ناکام بنانے میں مصروف ہے ، چند دن کے دوران متعدد افراد کو بیرونی ملک جانے سے روکا گیا، جب ملزمان تفتیش کی جاتی ہے تو یہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے 30 لاکھ کے عوض ایجنٹ سے ویزا حاصل کیا تھا ۔ جعلی سفری دستاویزات بنانے میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کریک ڈائون کے ساتھ ایجنٹوں اور سہولت کاروں کی گرفتاری کے لئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ ایف آئی اے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد اور سہولت کاروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لئے تمام کوششیں بروئے کار لا رہی ہے۔ انسانی اسمگلنگ کو روکنا صرف ایف آئی اے کی ذمے داری نہیں بلکہ اس کے لیے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اگر وہ بیرون ملک روزگار کا حصول چاہتے ہیں تو اس کو قانونی طریقے اختیار کرنا چاہیے تاکہ قیمتی انسانی جانیں اور وطن عزیز کو بدنامی سے بچایا جا سکے۔

جواب دیں

Back to top button