ColumnQadir Khan

غزہ: ایک اور جنگ بندی ایک اور مایوسی؟

قادر خان یوسف زئی
مشرق وسطیٰ میںجنگ، خونریزی، اور انسانی المیہ کا یہ تسلسل کب تک جاری رہے گا؟ غزہ، جو تاریخ کا ایک المیہ باب بن چکا ہے اور عالمی قوتوں کے لئے بلند بانگ دعوئوں کہ مشق گاہ، جہاں انسانیت کو جس بری طرح طریقے سے روندا گیا اس کی تاریخ انسانی میں بہت کم مثال ملتی ہیں۔ غزہ میں گزشتہ پندرہ مہینوں سے جاری خونریزی نے نہ صرف یہاں کے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ، بلکہ عالمی ضمیر کو بھی بے نقاب کیا کہ ان کے نزدیک غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے کیا معنی تھے اور انسانی زندگیوں کو بچانے کے بجائے اپنے فروعی مفادات کو اپنانے کا معیار کتنا یکطرفہ تھا۔ فلسطینی عوام جو خود کو ایک آزاد قوم کے طور پر دیکھنے کا خواب دیکھتے تھے، آج ان کے سر پر چھت اور پیٹ کی بھوک کا سوال ہے۔ یہ جنگ، جو صرف سرحدوں کے تنازع کا نتیجہ نہیں، بلکہ فلسطینیوں کی شناخت، آزادی، اور وجود کی جنگ ہے، وہ سوالات جنم لاتی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتے۔
غزہ، ایک بار پھر پریشانی میں ہے۔ ایک اور جنگ بندی معاہدہ، ایک اور دعویٰ، ایک اور وعدہ جو شاید محض ہوا میں اُڑ جائے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ جنگ بندی تین مراحل میں تقسیم ہے، لیکن کیا یہ معاہدہ واقعی غزہ کو کھنڈرات سے باہر نکالنے میں مدد کرے گا؟ کیا یہ فلسطینی عوام کے خونریزی، تباہی اور تکالیف کو روکنے کے لیے کافی ہوگا؟ سوال یہ ہے کہ آیا یہ معاہدہ دیرپا امن حاصل کرنے کے مقصد میں معاون ثابت ہوگا یا یہ محض سیاسی مفادات کے پیچھے ایک دھوکہ دہی کا اثر ہوگا۔ جنگ بندی کا پہلا قدم اسرائیلی افواج کا جزوی انخلا ہے، تاہم، اصل تشویش یہ ہے کہ آیا یہ جزوی انخلا پائیدار امن کے قیام کے لیے بنیاد فراہم کرے گا؟ جہاں زندگی کی روشنی کم سے کم ہے، جیسے غزہ کی پٹی میں ہے، وہاں تعمیر نو کیسے شروع کی جا سکتی ہے؟ وہ علاقے جو برسوں کی لڑائی کی وجہ سے تباہ ہو چکے ہیں، ان کی بازیابی کیسے ہوگی؟ یہ دراصل ایک نامکمل علیحدگی ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے فلسطینی علاقوں پر تسلط برقرار رکھنے کے اصرار کے ساتھ، فلسطینی عوام کو مزید سالوں تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جب تک غزہ کے لوگ آزادی، خودمختاری اور اپنے حقوق کی کوئی ٹھوس ضمانت نہیں پائیں گے، اس جنگ بندی کا ہر وعدہ محض سراب کی طرح ہوگا۔
کیا ہم اس حقیقت کو تسلیم کر سکیں گے کہ غزہ کی موجودہ حالت، جہاں لاکھوں افراد جنگ، فاقہ کشی اور بیماریوں کا شکار ہیں، ایک ایسا المیہ ہے جسے صرف سیاسی کاغذی معاہدے یا جنگ بندی کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا؟ جنگ بندی معاہدہ، جو ابھی تک مکمل طور پر نافذ نہیں ہوا، غزہ کی تباہی کی گہری سطح کو چھپانے کے لیے ایک عارضی مرہم بننے کی بجائے، عالمی طاقتوں کے مفادات کا کھیل بن چکا ہے۔ یہ معاہدہ، اپنے آپ میں ایک سوال بن چکا ہے، کیا یہ محض ایک وقتی حل ہے؟ یا اس کے پیچھے دنیا کی سب سے طاقتور ریاستوں کے مفادات کا کھیل چھپا ہوا ہے؟
جبکہ یہ معاہدہ پوری دنیا کے لیے کامیاب کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، حقیقت میں یہ عالمی برادری کو وقتی طور پر مطمئن رکھنے کے لیے ایک سیاسی چال ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس معاہدے کے محرکات اور مقاصد کو سمجھنا بہت آسان ہے۔ چونکہ امریکی صدارتی حلف برداری قریب ہے، یہ معاہدہ ایک کامیابی کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، اور اس سے عالمی سطح پر ایک سازگار ماحول پیدا ہو گا۔ جنگ بندی صرف ایک جغرافیائی سیاسی کھیل کا حصہ ہے، جو امریکہ یا کسی اور رہنما کی سیاسی قوت کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگی، اگر یہ معاہدہ سیاسی فائدے کے لیے کیا گیا ہے، تو اس کا غزہ کے لوگوں کو کیا عملی فائدہ ہوگا؟ جب تک اسرائیل اور امریکہ اس معاہدے کے پیچھے موجود اصلی مفادات کا اعلان نہیں کرتے، غزہ کے باشندوں پر اس کے براہ راست اثرات غیر واضح رہیں گے۔
اسرائیل کی طویل المدتی پالیسی فلسطینی علاقوںپر قبضہ، ان کے وسائل کا استحصال اور کسی بھی مقدس جگہوں کی بے حرمتی ہے۔ سابقہ رہائشی جو کبھی یہاں مستقل طور پر رہتے تھے، اب سڑکوں پر ہیں اور ان کے پاس رہنے کی جگہ نہیں ہے، ضروریاتِ زندگی تو دور کی بات۔ ان کی اراضی، ان کے گھروں پر قبضہ کیا جا رہا ہے اور ان کی موجودگی کی بنیاد کو ختم کیا جا رہا ہے۔اس معاہدے کے پیچھے جو قوتیں اور جو مفادات چھپے ہیں، وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی کا مسئلہ کبھی بھی عالمی سطح پر اہمیت نہیں پاتا۔ یہ معاہدہ، جو بنیادی طور پر اسرائیلی حکومت کی تسلط کو مستحکم کرنے کی کوشش ہے، فلسطینی عوام کی آزادی کے لیے کوئی سنگ میل نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطین کا مسئلہ کبھی بھی اسرائیل کی نوآبادیاتی پالیسیوں کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکا۔ اسرائیل کے اقدامات، جو فلسطینیوں کے لیے مسلسل مشکلات کا باعث بنے ہیں، ان کا حل صرف سیاسی معاہدوں سے نہیں آ سکتا۔
اگر عالمی برادری فلسطینیوں کے مسئلے کو محض ایک انسانی مسئلہ سمجھے گی تو یہ مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہوگا۔ فلسطینیوں کی جدوجہد اب عالمی سیاسی ایجنڈے کا حصہ بن چکی ہے، اور ان کی کامیابی کے لیے انہیں اپنے آپ کو علاقائی اور عالمی سطح پر سیاسی طاقت کا حصہ بنانا ہوگا۔ اگر ہم اسرائیل کی نسل کشی کی پالیسیوں کو بے نقاب نہیں کرتے، تو ہم فلسطینی عوام کے حقوق اور ان کی زندگیوں کی جدوجہد میں ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ غزہ کے لوگوں کا خواب بھی کسی دوسرے معاشرے کی طرح سیدھی سی حقیقت پر مبنی ہے یعنی حقیقی آزادی اور خود مختاری۔
فلسطینیوں کی خواہش ہے کہ ان کے اپنے وطن میں ان کی آزادی اور استحکام ہو۔ یہ بحران صرف ایک سرحدی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ انسانی حقوق کا بھی مسئلہ ہے اور یہ عالمی سطح پر ایک ادھورا معاملہ ہے۔ فلسطینیوں کو اپنے اختیار کی بحالی کا حق دیا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا تعین کر سکیں، اپنی ثقافت اور تاریخ کا احترام ہو، اور ان کی اپنی ایک ریاست ہو۔ جب تک فلسطینیوں کو اپنے حقوق کی کوئی ضمانت نہیں ملتی، جب تک اسرائیل کی نسل کشی کی حقیقت کو بے نقاب نہیں کیا جاتا، غزہ کا امن کا خواب صرف افق پر دھندلا سا منظر بن کر رہ جائے گا۔ فلسطین ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس کا حل عالمی برادری کی سنجیدہ کوششوں پر منحصر ہے۔ فلسطین کے مسئلے کا حل عالمی برادری کی ذمہ داری ہے، اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، فلسطینی عوام کا دکھ اور درد یونہی جاری رہے گا۔

جواب دیں

Back to top button