جماعت اسلامی ایک مرتبہ پھر میدان میں

تحریر : رفیع صحرائی
حکومت نے قوم کو یہ خوشخبری سنا دی ہے کہ بجلی کی قیمت میں جلد ہی دس سے بارہ روپے فی یونٹ کمی کی جا رہی ہے۔ مہنگائی کے ستائے عوام کے لیے یہ خبر یقیناً خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک بن چکا ہے جہاں ایک مرتبہ بڑھنے کے بعد قیمتیں مشکل سے ہی نیچے آتی ہیں۔ اس کی ذمہ داری حکومت سے زیادہ عوام اور ہمارے تاجر حضرات پر عاید ہوتی ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ تیل کی قیمتیں بڑھنے کے ساتھ ہی دیگر اشیاء کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں فوری اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور تو اور سرکاری ٹرانسپورٹ یعنی ریلوے بھی اپنے کرائے بڑھا دیتا ہے۔ دکان دار حضرات کیرج کا کرایہ بڑھنے کی وجہ سے اشیاء مہنگی کر دیتے ہیں۔ ہر طرف مہنگائی کا ایک طوفان سا آ جاتا ہے لیکن تیل کی قیمت کم ہونے کے بعد بڑھی ہوئی قیمتیں بیک گیئر لگانا بھول جاتی ہیں۔ یہی حال بجلی اور ڈالر کی قیمت بڑھنے کی صورت میں ہوتا رہا ہے۔ مہنگی بجلی نے تو نہ صرف صنعتوں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے بلکہ عام آدمی کی زندگی کو بھی اجیرن بنا دیا ہے۔ اس پر ظلم کی انتہا سلیب ریٹس کے نفاذ کی صورت میں جاری ہے۔ بیسیوں قسم کے ٹیکسز سے دل نہیں بھرا تو فکسڈ چارجز کی صورت میں ایک اور جگا ٹیکس نافذ کر دیا گیا ہے۔ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کرنے والے جیبیں بھر کر چلتے بنے عذاب عوام بھگت رہے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ جب بجلی اور تیل کی قیمتوں میں کمی ہو تو ان قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک پہنچانے کے لیے اقدامات کرے۔ ہر شہر میں ٹائون کمیٹیاں میونسپل کمیٹیاں یا یونین کونسلز موجود ہیں۔ ان کے سیکرٹریز یا چیف آفیسرز کو پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کے اختیارات دے کر خود ساختہ مہنگائی پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ذکر ہو رہا تھا بجلی کی قیمت میں کمی کا۔ وزیرِ اعظم جناب شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے بات کر کے عوام کو بجلی کی قیمتوں میں ریلیف دے دیا جائے گا۔
دوسری طرف جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے 17جنوری سے ملک گیر مظاہروں کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے منصورہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ جب آئی پی پیز معاہدوں کے خاتمے سے حکومت کو 1500ارب روپے کا فائدہ ہوا ہے تو یہ فائدہ عوام کو منتقل کیوں نہیں کیا جا رہا۔ بعض ناقدین یہ سوال کر رہے ہیں کہ حافظ نعیم الرحمان کئی ماہ خاموش بیٹھنے کے بعد ایسے وقت میں کیوں متحرک ہوئے ہیں جب حکومت خود ہی بجلی کی قیمت میں کمی کا اعلان کر چکی ہے۔ وہ تو یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ چھ ماہ پہلے یعنی جولائی 2024میں اسی مقصد کے تحت دیئے گئے کامیاب دھرنے کا نتیجہ کیا نکلا تھا؟ حکومت نے ان کے ساتھ بجلی کی قیمت میں کمی کا تحریری معاہدہ کیا اور دھرنے کے خاتمے کے اگلے ہی روز پانچ روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت میں اضافہ کر دیا تھا۔
بلاشبہ یہ سوالات اپنے اندر وزن رکھتے ہیں لیکن تھوڑا سا غور کریں گے تو آپ کو حافظ نعیم الرحمان کے گزشتہ دھرنے کے ثمرات نظر آ جائیں گے۔ اس دھرنے سے پہلے حکومت آئے روز بجلی کی قیمت میں بے تحاشہ اور مسلسل اضافہ کیے چلی جا رہی تھی۔ دھرنے کے نتیجے میں وہ تسلسل ٹوٹ گیا۔ فوری پانچ روپے فی یونٹ کا اضافہ آئی ایم ایف سے معاہدے کی وجہ سے مجبوری تھا۔ اس کے بعد عوام کو بتدریج ریلیف ملنے کا آغاز ہو گیا۔ دھرنے کاسب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ عوام کا شعور جاگ اٹھا۔ الیکٹرانک پرنٹ اور سوشل میڈیا پر یہ معاملہ اجاگر ہوا جس سے حکومت پر شدید دبائو پڑ گیا اور وہ حافظ صاحب کے ساتھ مذاکرات اور تحریری معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئی۔ خود وزیرِ داخلہ جناب محسن نقوی نی رابطہ کر کے جناب لیاقت بلوچ سے رابطہ کر کے جماعت کو مذاکرات کی دعوت دی۔ جماعت اسلامی کی طرف سے دس مطالبات کی فہرست پیش کی گئی اور انہی کی بنیاد پر مذاکرات ہوئے تھے۔ حکومت نے جماعت اسلامی کے بہت سے مطالبات مان لیے تھے مگر ان کو پورا کرنے کے لیے وقت مانگا تھا۔ حکومت کے ساتھ ساتھ اس دھرنے کا دبائو آئی پی پیز پر بھی پڑا تھا۔ انہیں بھی سمجھ آ گئی تھی کہ اب ان کی موجیں نہیں لگیں گی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کی طرف سے بعض آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم اور کچھ کے ساتھ ری وزٹ کیے گئے۔ اس سے خزانے کو 1500ارب روپے کا فائدہ ہوا۔ باقی آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومتی آئی پی پیز کی باری بھی آنے والی ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جماعت اسلامی کا گزشتہ دھرنا بڑے دور رس نتائج کا حامل رہا۔ حکومتوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ جب تک عوام اپنے حقوق کے حصول کے لیے سڑکوں پر آ کر احتجاج نہ کریں انہیں ان کے جائز حقوق یا ریلیف نہیں دیا جاتا۔ حافظ نعیم الرحمان کا ملک گیر احتجاج کا فیصلہ بروقت ہے۔ کیا پتا حکومت آئی ایم ایف سے منظوری نہ ملنے کا بہانہ بنا کر عوام کو بجلی کی قیمت میں کمی کرنے سے معذرت کر لے۔ احتجاج سے جہاں حکومت پر دبائو پڑے گا وہیں پر آئی ایم ایف کو حکومت کی مجبوری کا احساس بھی ہو جائے گا۔ ویسے جماعت اسلامی کے علاوہ کسی دوسری سیاسی پارٹی کو عوام کی فکر بھی نہیں۔ سبھی تو مرکز یا کسی صوبے میں اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔