جنرل تجمل ( سابقہ) سے جنرل فیض ( ریٹائرڈ) تک

تحریر: روشن لعل
کسی بھی ملک کی فوج میں اچھے فوجی افسر تو کئی مل سکتے ہیں مگر ایسے افسر بہت کم دستیاب ہو نگے جو اچھے سپاہی بھی ہوں۔ یہ کوئی ایسی انہونی بات نہیں ہے میدان سیاست میں بہت کم ایسے لیڈر ہوتے ہیں جنہیں اچھا سیاسی کارکن کہا جا سکے۔ جہاں تک افواج پاکستان کی بات ہے تو یہاں شاید ہی کوئی ایسا دوسر ا افسر ہو جسے سابقہ میجر جنرل تجمل حسین ملک سے بہتر سپاہی تصور کیا جاسکے۔ جو فوجی افسر کسی جنگ کے میدان سے بہت دور محفوظ دفتر میں تعینات ہو مگر آرام دہ کرسی میز چھوڑ کر خود ہی محا ذ پر جانے کی درخواست کر د ے تو اچھا سپاہی تصور کرنے کے علاوہ اسے کچھ اور نہیں سمجھا جا سکتا۔ سابقہ میجر جنرل تجمل حسین ملک نے کرسی میز چھوڑ کر محاذ پر جانے والا کام اپنے فوجی کیریئر میں ایک سے زیادہ مرتبہ کیا۔ 1950ء میں جب پاک بھارت جنگ کا خطرہ پیدا ہوا اس وقت کے کیپٹن تجمل حسین ملک جی ایچ کیو راولپنڈی میں تعینات تھے مگر متوقع جنگ میں حصہ لینے کے لیے انہوں نے رضا کارانہ طور پر ان فوجیوں میں شامل ہونے کے لیے درخواست دی جو سرحد پر پہنچ چکے تھے۔ اعلیٰ حکام نے ان کی درخواست کو حیران کن مسرت کے ساتھ منظور کر لیا۔ گو کہ یہ جنگ نہ ہو سکی مگر تجمل حسین ملک جنگ میں حصہ لینے کے پر خطر امکانات سے آگاہ ہونے کے باوجود دو برس تک سرحد پر موجود رہے۔ 1965 ء میں اس وقت کے کرنل تجمل حسین ملک کو جنگ میں حصہ لینے کے لیے کوئی درخواست نہیں دینی پڑی کیونکہ جہاں وہ تعینات تھے اسی بٹالین کو لاہور کے پہلے دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی۔ کرنل تجمل حسین ملک کی کمانڈ میں لڑنے والی 3بلوچ بٹالین کی بے مثال دفاعی و جارحانہ کارکردگی کو آج بھی انتہائی قابل تحسین سمجھا جاتا ہے۔1971ء کی جنگ سے پہلے تجمل حسین ملک بریگیڈئیر کے عہدے تک ترقی حاصل کر چکے تھے اور جی ایچ کیو راولپنڈی میں ڈائریکٹر آف سٹاف ڈیوٹی کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ اس وقت بھی ان کی اپنی خواہش پر انہیں راولپنڈی کے محفوظ مرکز سے مشرقی پاکستان کے محاذ جنگ پر ٹرانسفر کیا گیا۔ یاد رہے کہ ان دنوں مشرقی پاکستان میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے نہ صرف پاکستانی فوجیوں پر مکتی باہنی کے شدید حملوں بلکہ ان کی شہادت کی خبریں بھی مغربی پاکستان کے میڈیا میں رپورٹ ہو رہی تھیں۔ مشرقی پاکستان کے حالات کی وجہ سے کئی فوجی اپنی وہاں ٹرانسفر کے بعد ہسپتال میں داخل ہونے کے بہانے تلاش کیا کرتے تھے مگر عین جنگ کے دنوں میں بریگیڈئیر تجمل حسین کو ان کی خواہش پر مشرقی پاکستان کے علاقے ہلی بوگرہ میں ٹرانسفر کر کے 205بریگیڈ کی کمان سونپی گئی۔ ہلی بوگرہ کے علاقے میں لڑی جانے والی جنگ کے متعلق یہ بات کسی پاکستانی ایجنسی یا میڈیا کی رپورٹ میں نہیں بلکہ جنگ میں حصہ لینی والے انڈین میجر جنرل لکشمن سنگھ کی لکھی ہوئی کتابThe Indian Sword Strikes in East Pakistan میں بیان کی گئی ہے کہ ہلی بوگرہ کے علاقے میں چار بریگیڈ بھارتی فوج نے بریگیڈئیر تجمل حسین ملک کی کمان میں لڑنے والی ایک بریگیڈ فوج کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا مگر بھارتی فوج اپنے بھاری نقصان کے باوجود کو اس کی قیادت کرنے والے کمانڈر کی شاندار حکمت عملی کی وجہ سے پاکستانی فوج کو زیر نہ کر سکی۔ مشرقی پاکستان میں ہلی بوگرہ واحد محاذ تھا جہاں بھارتی فوج اپنی افرادی قوت اور تکنیکی برتری کے باوجود جنگ کے اختتام تک کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ ہلی بوگرہ کے جس محاذ پر بریگیڈئیر تجمل حسین پاکستانی فوج کی قیادت کر رہے تھے اس کی خاص بات یہ ہے کہ وہاں باقاعدہ جنگ کے آغاز سے پہلے ہی جھڑپیں شروع ہو چکی تھیں اور جنگ کے خاتمے کے اعلان اور پاکستانی فوج کے ہتھیار پھینکنے کے بعد بھی وہاں جنگ جاری رہی ۔ جب بریگیڈئیر تجمل نے ہتھیار پھینکنے سے انکار کیا تو ان کی جگہ میجر جنرل نذر حسین شاہ نے ہتھیار پھینکنے کی تقریب میں حصہ لیا۔ بریگیڈئیر تجمل حسین جب جنگ لڑنے والے اپنے سپاہیوں کا معائنہ کرتے ہوئے مکتی باہنی کے اچانک حملے کے دوران شدید زخمی ہوکر بے ہوش ہوئے تو انہیں اسی حالت میں انڈین فوج کے حوالے کیا گیا۔ بھارتی فوج کے کئی افسروں نے بعد ازاں بریگیڈئیر تجمل حسین کی بہادری اور جنگی حکمت عملی کی تعریف کی۔ جب بھارت نے پاکستانی جنگی قیدیوں کو رہا کیا تو تجمل حسین ملک بھی رہا ہو کر وطن واپس آگئے۔ بھارتی قید سے رہا ہونے والے32بریگیڈئیرز میں سے تجمل حسین ملک واحد بریگیڈئیر تھے جنہیں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ تجمل حسین ملک کے متعلق جو باتیں سامنے آچکی ہیں ان کو جاننے کے بعد بلا مبالغہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ پاکستانی فوج میں شاید ہی کوئی ایسا افسر ہو جو ان کی طرح کا بہترین سپاہی بھی ہو۔ شاندار فوجی کیرئیر کے حامل اس بہترین سپاہی کا انجام اس کے ماضی کے شایان شان نہ ہو سکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس فوجی افسر کے شاندار ماضی کو نظر انداز کر کے اس سے جونیئر افسروں کو اس پر ترجیح دیتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ یہ عمل یقیناً بہترین کیرئیر کے حامل اس سپاہی کی حق تلفی تھا مگر سروس رولز کے مطابق اس حق تلفی کی مکمل گنجائش موجود تھی۔ تجمل حسین ملک نے حلف لے رکھا تھا کہ وہ ہر صورت میں اپنے ادارے کے ڈسپلن اور ضوابط کی پابندی کریں گے مگر اپنی حق تلفی پر دل برداشتہ ہو کر ہر جنگ میں ہیرو کی طرح لڑنے والے سپاہی نے اپنے حلف سے انحراف کرتے ہوئے بغاوت کا منصوبہ بنایا جو افشا ہو گیا اور یوں اپریل 1976ء میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیا الحق نے انہیں جبری ریٹائر کر دیا۔ اس کے بعد تجمل حسین نے 1980ء میں اپنے حاضر سرود میجر بیٹے نوید تجمل حسین اور درمیانے درجے کے فوجی افسر رشتے داروں کو ساتھ ملا کر اس وقت کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیا الحق کی حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنایا جو ناکام ہوا۔ یہ حلف کی دوسری خیانت تھی جس کے بعد انہیں عمر قید کی سزا کے ساتھ تمام فوجی اعزازات سے محروم کرتے ہوئے ریٹائرڈ سے سابقہ میجر جنرل تجمل حسین ملک بنا دیا گیا ۔ یہ ایک ہیرو سپاہی کی مختصر سی کہانی ہے جس کے حلف سے انحراف کے بعد دی جانے والی سزا پر افسوس کا اظہار تو ہو سکتا مگر اس سزا کو ناجائز تصور نہیں کیا جاسکتا۔
اب بات کرتے ہیں جنرل ( ریٹائرڈ) فیض حمید کی، جنہیں اس وقت سابقہ جنرل ہونے کے قریب تر سمجھا جارہا ہے ۔ فیض حمید کے متعلق یہاں کوئی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ، کیونکہ بحیثیت فوجی افسر حلف سے انحراف کے ساتھ ان پر عائد اخلاقی جرم کے الزام سے ہر کوئی آگاہ ہے۔ کوئی تفصیل بیان کرنے کی بجائے یہاں صرف اس سوال پر غور کرنے کی دعوت دی جارہی ہے کہ اگر حلف سے انحراف کی وجہ سے شاندار فوجی کیرئیر کے حامل تجمل حسین ملک کی سزا جائز ہو سکتی ہے تو پھر جنرل ( ر) فیض حمید کا کچا چٹھا سب کے سامنے آنے کے باوجود کیوں کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں کسی بھی سزا سے مبرا تصور کیا جانا چاہیے۔