لگتا ہے آئی ایم ایف سرکاری ملازمتوں کا چارم بھی ختم کرد ے گا

تحریر : محمد ناصر شریف
مملکت خداداد میں سرکاری نوکریوں کے حصول کیلئے جو جائز و ناجائز کوششیں کی جاتی ہیں اور اسے دیگر مواقع پر ترجیح دی جاتی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ پنشن بھی ہے جو ریٹائرمنٹ کے بعد روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کیلئے ہر ماہ دی جاتی ہے۔ پاکستان میں سرکاری ملازمت کرنے والے افراد میں سول اور فوجی ملازم شامل ہیں، جنہیں ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت کی جانب سے پنشن ادا کی جاتی ہے، جو انہیں اُس وقت تک ملتی ہے جب تک وہ زندہ رہتے ہیں اور اُن کی موت کی صورت میں اس پنشن کی ادائیگی اُن کی بیوہ کو جاری رہتی ہے، بعد ازاں غیر شادی شدہ بچی کو دی جاتی ہے۔
پاکستان کے موجودہ مالی سال کے بجٹ میں پنشن کی ادائیگی کے لئے مختص کی جانے والی رقم میں قرضوں کی ادائیگی، دفاعی بجٹ اور سالانہ ترقیاتی پروگرام کے بعد چوتھے نمبر پر ہے۔ ملک پر قرضوں کے بوجھ، اُن پر سود کی ادائیگی اور بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات کی وجہ سے حکومتوں کے لئے پنشن کی ادائیگی مشکل تر امر بنتی چلی جا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف ملک میں سرکاری ملازمتوں کا چارم بھی ختم کر دے گا۔ وفاقی حکومت نے پنشن اصلاحات سے متعلق آئی ایم ایف کے مطالبے پر سرکاری ملازمین کی پنشن کے حساب کتاب کا طریقہ کار تبدیل کر دیا ۔ اس سلسلے میں جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وفاقی حکومت نے سرکاری افسران اور ملازمین پر ڈبل پنشن لینے پر پابندی عائد کردی ہے، پنشن کی نئی شرائط عائد کرنے سے قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کی بچت ہوگی۔ اہم عہدوں پر فائز افسران صرف ایک پنشن حاصل کرنے کے مجاز ہوں گے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق سالانہ اضافہ پہلی پنشن پر لاگو کیا جائے گا، آئندہ پنشن سروس کے آخری 24ماہ کی بنیاد پر مقرر کی جائے گی۔ اس اقدام سے ریٹائر ہونے والے ملازمین کو پنشن کی مد میں کم پیسے ملیں گے، پے اینڈ پنشن کمیشن ہر 3سال بعد بنیادی پنشن پر نظرثانی کرے گا، وزارت خزانہ نے پے اینڈ پنشن کمیشن 2020کی سفارشات فوری نافذ کردی ہیں اور اس ضمن میں آئی ایم ایف کو بھی آگاہ کر دیا گیاہے ۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ریٹائرڈ ملازمین کسی ادارے میں دوبارہ نوکری کرنے پر تنخواہ یا پنشن لیں گے۔ ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن اور تنخواہ دونوں یکمشت نہیں ملیں گی۔ ریٹائرڈ ملازمین کو نوکری ملنے پر ساری زندگی پنشن نہیں ملے گی جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی بیوی ریٹائرمنٹ تک پہنچی ہوئی تو پنشن مل سکے گی۔ پنشن میں سالانہ اضافہ بھی ایوریج تنخواہ کے مطابق ملنے والی پنشن پر ہو گا۔ وزارت خزانہ نے ریٹائر ہونے والے ملازمین کیلئے پنشن اصلاحات پر تین الگ الگ نوٹیفکیشن جاری کئے۔ فنانس ڈویژن نے یہ نوٹیفکیشن عمل درآمد کیلئے تمام وزارتوں اور ڈویژن کے علاوہ کنٹرولر جنرل آف اکائونٹس اور ملٹری اکایوٹنٹ جنرل کو بھیج دیئے ہیں۔
وزارت خزانہ کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق وفاقی حکومت کے کسی بھی ملازم کو دہری پنشن نہیں ملے گی۔ نوٹیفکیشن میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر کوئی وفاقی ملازم ایک سے زیادہ پنشن کا اہل ہوجائے تو وہ صرف ایک پنشن وصول کرنے کے مجاز ہوگا، انہیں ایک پنشن اختیار کرنا ہوگی، اگر کوئی حاضر سروس ملازم پنشن کا بھی اہل ہو جائے تو وہ اس دوران پنشن وصول کرنے کے حق دار نہیں ہو نگے۔ اگر کسی حاضر سروس یا پنشنر کا خاوند یا بیوہ خود بھی تنخواہ دار یا پنشنر ہو تو ایسی صورت میں وہ پنشن لینے کے اہل ہوں گے۔ دوسرے نوٹیفکیشن کے مطابق ریٹائر ملازمین کی پنشن کا تعین آخری24ماہ کی قابل پنشن مراعات کی اوسط کی بنیاد پر ہوگا۔ اس اقدام سے ریٹائر ملازمین کو پنشن کی مد میں پہلے سے کم پیسے ملیں گے۔ وزارت خزانہ کے تیسرے نوٹیفکیشن میں مستقبل کیلئے پنشن کا طریقہ کا ر وضع کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق ریٹائر منٹ کے وقت کی نیٹ پنشن کو بیس لائن پنشن شمار کیا جائے گا، اگر پنشن میں کوئی اضافہ کیا گیا تو وہ بیس لائن پنشن کی بنیاد پر دیا جا ئے گا، ہر اضافہ الگ رقم تصور کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت اضافی پنشن فوائد کی منظوری دے گی، پے اینڈ پنشن کمیٹی ہر تین سال کے بعد بیس لائن پنشن پر نظر ثانی کرے گی۔ ا ن اصلاحات سے سالانہ پنشن بل کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔
اس سے قبل حکومت نے کنٹری بیوٹری پنشن فنڈ اسکیم متعارف کرائی تھی جس کا اطلاق گزشتہ مالی سال کے آغاز یعنی یکم جولائی 2024سے کیا گیا تھا۔ نئی پنشن اسکیم موجودہ مالی سال میں بھرتی ہونے والے وفاقی سویلین ملازمین اور آئندہ مالی سال میں افواج میں بھرتی ہونیوالے ملازمین پر لاگو ہو گی۔ موجودہ قوانین کے مطابق بیوہ کی وفات کے بعد بھی اگر کسی سرکاری ملازم کی کوئی غیرشادی شدہ بیٹی ہے تو اس کو اپنے والد کی پینشن اس وقت تک ملتی رہتی ہے، جب تک اس کی شادی نہ ہو جائے، تاہم اب حکومت کی جانب سے جاری کی گئی نئی پنشن اسکیم میں اصلاحات متعارف کروائی کی گئی ہیں جس کے خدو خال پرانی اسکیم سے کافی مختلف ہیں۔ اس اسکیم کا یکم جولائی 2024 سے ایسے ملازمین پر اطلاق ہوگا، جو وفاقی سول اداروں میں بھرتی ہوں گے جبکہ ملک کی افواج میں بھرتی ہونیوالے ملازمین پر اس اسکیم کا اطلاق آئندہ مالی سال یعنی یکم جولائی 2025کے بعد سے ہو گا۔ اس اسکیم کے تحت ملازمین اپنی بنیادی تنخواہ ( بیسک پے) میں سے 10فیصد اس نئے پنشن فنڈ میں ڈالیں گے جبکہ وفاقی حکومت کا حصہ یا شیئر 20فیصد ہو گا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اس پنشن فنڈ کیلئے موجودہ مالی سال میں 10ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
موجودہ نظام کے تحت پنشن کا سارا مالی بوجھ حکومت پر ہوتا ہے تاہم مذکورہ اسکیم کی تحت ملازمین کو بھی دوران ملازمت اس میں حصہ ڈالنا پڑے گا اور ان کا حصہ اور حکومت کی جانب سے دی جانے والی رقم ایک پنشن فنڈ میں جمع ہو گی۔
کسی بھی ملک میں پنشن کا ایسا نظام ہی کامیاب ہو سکتا ہے جو مالی طور پر دیرپا اور مستحکم ہو۔ اِس وقت پاکستان کا جو پنشن دینے کا قانون رائج ہے وہ کام نہیں کر رہا کیونکہ ملک کی موجودہ مالی حالت اِس کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے اور اسی لئے پنشن کو معاشی حالات کے مطابق ڈھالنا ضروری ہے۔ کسی بھی معاملے میں اصلاحات اچھی ہوتی ہیں اور انہیں جدید تقاضوں کے مطابق ہونا چاہئے تاہم حکومت کو بھی چاہیے کہ ان مالی مشکلات کے دور میں اپنے شاہانہ اخراجات کم کرے اور سالوں سے خدمات انجام دینے والے ملازمین پر شب خون نہ مارے، سرکاری ملازمین 20سے 25سال نوکری اس امید پر کرتے ہیں کہ انہیں ریٹائرمنٹ کے وقت ملنے والی اکٹھی رقم سے وہ بچوں کی شادیاں، گھر کی تعمیر، عمرے یا حج کیلئے رقم مل جائے گی، لیکن حکومت نے آئی ایم ایف کو خوش کرنے کیلئے سرکاری ملازمین کو مایوس کیا ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین پہلے ہی اس بات کا رونا روتے ہیں کہ مہنگائی اور بے روزگاری آسمان کو چھو رہی ہے لیکن ہماری پنشن میں پہلے سے ہونیوالا اضافہ بھی واپس لیا جارہا ہے۔
محمد ناصر شریف