ColumnRoshan Lal

بھٹو کی یاد اور مسلم دنیا کی بے حسی کا سوال؟

تحریر : روشن لعل
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایسا تگڑا کردار ہے جس کا ذکر مبصر اور تجزیہ نگار کسی نہ کسی بہانے سارا سال کرتے رہتے ہیں۔ 5جنوری کو پیدائش اور 4اپریل کو برسی پر بھٹو کو چاہنے والے اسے خصوصی طور پر یاد کرتے ہیں۔ کچھ ماہ قبل اس وقت بھٹو کی خصوصی طور پر یاد آئی جب نہ اس کی پیدائش اور نہ ہی برسی کا دن تھا۔ بھٹو خصوصی طور پر اس وقت یاد آیا جب ایک مذہبی سیاسی جماعت نے پاکستان بھر میں غزہ کے فلسطینیوں پر جاری اسرائیلی مظالم اور مسلسل بمباری کے خلاف جلوس نکالے اور دھرنے دیئے۔ مذکورہ مذہبی سیاسی جماعت کے لیڈروں نے اپنے جلوسوں کے دوران جہاں اور بہت کچھ کہا وہاں غزہ باسیوں پر اسرائیلی مظالم پر پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان حکمرانوں کی خاموشی اور سرد مہری پر شدید افسوس کا اظہار بھی کیا۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک طرف تو اسرائیل نے غزہ کے فلسطینیوں پر مسلسل بمباری کرتے ہوئے اتنا ظلم کیا کہ اس کے اپنے سابقہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے اور دوسری طرف ان مظالم پر مسلمان حکمرانوں نے ایسی سرد مہری اور بے حسی ظاہر کی جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ مسلمان حکمرانوں کی فلسطینیوں کے لیے اس بے حسی کو مسلم دنیا کی بے حسی کہا جارہا ہے ۔ فلسطینیوں کے لیے جو بے حسی مسلم دینا میں اب نظر آرہی ہے ایسی بے حسی ماضی میں ہر گز نہیں تھی اور جس دور میں ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر اعظم تھے اس دور کی مسلم دنیا میں تو موجودہ بے حسی اور سرد مہری جیسی کوئی مثال دور تک نظر نہیں آتی۔
اکتوبر 1973ء کی عرب ، اسرائیل جنگ بنیادی طور پر شام اور مصر کے اتحاد نے اسرائیل کے خلاف لڑی تھی لیکن اس دور میں عربوں اور اسرائیل کے مابین جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں ان کا محرک مسئلہ فلسطین ہی بنا۔ اس جنگ میں اگر مصر اور شام کو فیصلہ کن کامیابی ملتی تو اسے فلسطینیوں کی بھی فتح تصور کیا جاتا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس جنگ کو فلسطینیوں کے حق کے لیے لڑی جانے والی جنگ تصور کرتے ہوئے پاکستان ایئر فورس کے 16پائلٹ مصر اور شام کی طرف سے اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لیے بھیجے تھے ۔ ان 16پاکستانی ہوا بازوں میں سے 8مصر اور 8شام گئے تھے۔ پاکستانی پائلٹ مصر پہنچنے سے پہلے ہی اسرائیل اور مصر کے درمیان جنگ بندی ہو گئی جس کی وجہ سے پاکستانی ہوا بازوں کو مصر کی طرف سے جنگ لڑنے کا موقع نہ ملا لیکن شام اور اسرائیل کے درمیان کیونکہ بعد ازاں بھی جنگ جاری رہی اس لیے پاکستانی ہوا بازوں نے شام کی طرف سے اس جنگ میں بھر پور حصہ لیتے ہوئے اسرائیلی فضائیہ کو قابل ذکر نقصان پہنچایا۔
عرب اسرائیل کی 197ء کی جنگ سے پہلے بھی عرب اور مسلم ملکوں کے باہمی تعاون کا یہ عالم تھا کہ 1967ء کی عرب ، اسرائیل جنگ کے نتیجہ میں جب نہر سویز پر اسرائیلی قبضہ ہوا تو وہاں تجارتی بحری جہازوں کی آمدورفت بند ہونے کی وجہ سے مصر کو بھاری معاشی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ نہر سویز پر دوبارہ مصری قبضہ ہونے تک سعودی عرب ، کویت اور لیبیا مسلسل سات برس اسے اقتصادی امداد فراہم کرتے رہے۔ جب ، 6اکتوبر1973ء کو عرب ، اسرائیل جنگ شروع ہوئی تو ذوالفقار علی بھٹو نے فوری طور پر اس جنگ کو پاکستان کی جنگ قرار دیا۔ جنگ شروع ہونے کے بعد بھٹو نے نہ صرف مصر کے صدر انور سادات اور شام کے حافظ اسد کو ٹیلیگرام کے ذریعے اپنی بھر پور حمایت کا یقین دلایا بلکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کرٹ والڈ ہیم کو طویل خط لکھ کر انہیں یہ یاد دہانی کرائی کہ خطہ عرب میں جنگ کا خاتمہ، فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ اور امن کی بحالی اقوام متحدہ کی اہم ذمہ داری ہے ۔ اس کے علاوہ بھٹو نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ عرب ملکوں کے علاقوں پر اسرائیلی قبضہ ناجائز اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ بھٹو کے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری کو لکھے گئے خط کے مندرجات کو دنیا کی اہم اخباروں نے نمایاں طور پر شائع کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو خط لکھنے کے بعد بھٹو نے تمام عرب ملکوں کے سفیروں کے ساتھ رکھی گئی خصوصی میٹنگ کے دورا ن یہ کہا تھا کہ وہ اپنی حکومتوں تک یہ پیغام پہنچا دیں کہ پاکستان عربوں کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس کے علاوہ بھٹو نے 20اکتوبر 1973ء کو کراچی میں ایک پریس سٹیٹمنٹ کے ذریعے پوری دنیا کے میڈیا کو یہ باور کرایا کہ پاکستان کبھی بھی فلسطینیوں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران جو دبنگ کردار ادا کیا ، اس کردار سے پہلے بھی عالمی سطح پر ان کی شہرت ایک ایسے لیڈر کی تھی جو دنیا کے بڑے سے بڑے حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بلا خوف اپنا موقف بیان کر سکتا ہے۔ بھٹو، فلسطین اور عرب ملکوں کے لیے ادا کیے گئے اس کردار کے بعد عرب حکمرانوں کے مزید قریب ہو گیا ۔ بھٹو کی عرب حکمرانوں سے قربت کی وجہ سے ہی پاکستان کو دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کا موقع ملا۔ سعودی عرب، فروری 1974ء میں منعقدہ اس کانفرنس میں پاکستان کے ساتھ شریک میزبان تھا۔ اس کانفرنس کے بعد معدنی تیل کی دولت سے مالامال عرب ملکوں نے پاکستان میں ترقیاتی کاموں کے لیے خصوصی امدادی فنڈز جاری کرنا شروع کر دیئے۔ اس کانفرنس کے بعد پاکستان کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستانی محنت کشوں کو متحدہ عرب امارات، سعودی عرب ، کویت اور لیبیا جیسے ملکوں میں ترجیحی بنیادوں پر ویزے دیئے جانے لگے۔ بھٹو کی حکومت کے دوران عرب ملکوں میں پاکستانی محنت کشوں کی تعداد دنیا کے دوسرے کسی بھی ملک سے زیادہ رہی۔
وہ بھٹو کا ہی دور تھا، جس میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے دوران یہ طے پایا کہ دنیا کے تمام ترقی پذیر ملکوں کو اپنے مشترکہ معاشی مفادات کے حصول کے لیے متحد ہونا پڑے گا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ایک ایسا غیر معمولی اجلاس بلایا جانا چاہیے جس کا مقصد دنیا میں مساوی ترقی کی راہ ہموار کرنا ہو اور او آئی سی کے رکن ملکوں کو اپنے قدرتی وسائل اپنے زیر انتظام کرنے کی کوششیں تیز کرنا چاہئیں۔ بھٹو کا وہ دور جس میں مسلمان ملکوں کے اتحاد کو مذہبی اکٹھ بنانے کی بجائے اقتصادی طاقت بننے کی بنیادیں فراہم کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوا وہ دور کب کا ختم ہو گیا۔ بھٹو کا دور ختم کرنے کے لیے بھٹو کو ختم کیا گیا تھا۔ جن لوگوں نے فلسطینیوں کے حق کے لیے بے دھڑک کھڑا ہونے والے، عرب ملکوں کی اسرائیل کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ سمجھنے والے اور پاکستان کے محنت کشوں کی معاشی خوشحالی کے لیے ان پر عرب ملکوں میں روزگار کے دروازے کھولنے والے بھٹو کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا آج وہی لوگ اپنے جلوسوں میں مضحکہ خیز رویہ اختیار کرتے ہوئے بے وقت کی راگنی کی طرح مسلم دنیا کی بے حسی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button