CM RizwanColumn

ملک دشمن عالمی سازش کا ہر اول دستہ

تحریر : سی ایم رضوان
اس کھلی حقیقت کے باوجود کہ بانی پی ٹی آئی پاکستان کے خلاف رچائی گئی ایک عالمی سازش کے طاقت ور مہرے ہیں ان کے ساتھ رعایت کے طور پر حکومت اور پی ٹی آئی کے نمائندوں کے درمیان ایک اعلیٰ سطح کا بیک چینل رابطہ ہوا ہے جبکہ اس سلسلے میں منعقدہ گزشتہ اجلاس میں حکومت کے دو اہم نمائندوں ( جن میں ایک وزیر اور ایک دوسری شخصیت شامل تھی) نے شرکت کی جبکہ تحریک انصاف کی نمائندگی پارٹی کے ایک اہم رہنما نے کی۔ اس ملاقات میں یہ طے پایا ہے کہ تحریک انصاف کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ یہ پارٹی شورش اور کشیدگی کی سیاست جاری رکھنا چاہتی ہے یا واقعی مفاہمت چاہتی ہے اور اگر پی ٹی آئی اپنی شورش، تشدد، فوج اور اس کی اعلیٰ کمان پر تنقید اور معیشت کو نقصان پہنچانے کی پالیسی جاری رکھتی ہے تو ایسی صورت میں اِن بیک چینل رابطوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ تاہم، اگر وہ مفاہمت کا انتخاب کرتی ہے تو اسے پالیسی میں واضح تبدیلی اور گزشتہ برسوں کی سیاست سے دوری اختیار کرنا پڑے گی۔ اب بنیادی طور پر یہ فیصلہ بانی پی ٹی آئی کو کرنا ہوگا کہ وہ انتشار جاری رکھیں گے یا کوئی سلجھائو والا راستہ اپنائیں گے۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو یہ بھی علم ہے کہ یہ بیک چینل رابطے اگر وہ ملک کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں اور اس میں امن و امان چاہتے ہیں تو کتنے اہم ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر پی ٹی آئی سیاسی اسپیس چاہتی ہے اور معمول کی سیاست کی طرف لوٹنا چاہتی ہے تو اسے فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ محاذ آرائی روکنا ہو گی اور ایسی کوئی سیاست نہیں کرنا ہوگی جس سے ملکی معیشت کو نقصان ہو۔ تاہم ان بیک چینل مذاکرات کا مستقبل اور ان کی کامیابی کا انحصار پی ٹی آئی کی جانب سے اعتماد سازی کے ضروری اقدامات پر ہے۔ یہ بھی توقع ہے کہ گزشتہ ڈھائی سال کی پالیسی سے علیحدگی کے واضح آثار پی ٹی آئی کو بہت ضروری سیاسی سپیس حاصل کرنے میں مدد کریں گے۔ اعتماد سازی کے جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ پورے کرنے کی صورت میں تحریک انصاف کو بھی بہتر
تبدیلی نظر آئے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تبدیلی فوراً نہ ہو لیکن یہ بتدریج اور پائیدار ہوگی البتہ شورش کی سیاست، فوج پر تنقید اور معیشت کو نقصان جاری رکھنے کی روش کی صورت میں پی ٹی آئی کو مزید مشکلات کا سامنا کرنے اور ملک کو بدامنی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ دریں اثنا پی ٹی آئی کے دوسرے درجے کی قیادت کو یہ بھی احساس ہے کہ پارٹی کو اپنی صفوں میں موجود سخت گیر عناصر کو کنٹرول کرنا ہو گا کیونکہ اس وقت نہ صرف ملک کو بلکہ خود پی ٹی آئی کو مذاکرات و مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے۔ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پارٹی کو علم ہے کہ مفاہمت اور مذاکرات کی پالیسی پر عمل کی صورت میں تحریک انصاف کی مشکلات فوراً ختم نہیں ہوں گی بلکہ حالات بہتری کی جانب تبدیل ہونا شروع ہوں گے۔ یہ امر خود پی ٹی آئی کے حق میں بہتر ہے کہ اگر مفاہمت کے آثار فوری اور واضح نظر آئے تو پھر پی ٹی آئی کا وہ نوجوان جو اب تک یہ سمجھتا ہے کہ ڈٹ کے کھڑا ہے خان وہ پی ٹی آئی سے دور ہو جائے گا۔ ہاں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ جو لوگ ایبسولوٹلی ناٹ
کے بعد اب ادرکنی امریکہ جیسی بڑی تبدیلی پر بھی نہیں چونکے وہ شاید کل کلاں پی ٹی آئی کی اس مفاہمانہ پالیسی کو بھی قبول کر لیں۔
تاہم پارٹی کے کئی رہنما اس امر پر متفق ہیں کہ فوج پر تنقید اور معیشت کو نقصان پہنچانے سے پارٹی یا اس کے بانی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ پارٹی کی جانب سے گزشتہ دنوں گلوکار سلمان احمد کو تحریک انصاف سے نکالے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے ایک پی ٹی آئی رہنما نے کہا ہے کہ ایسے تمام عناصر کو پارٹی سے نکال دینا چاہیے کیونکہ ایسے ہی سخت گیر عناصر نے پارٹی ہائی جیک کر کے اسے محاذ آرائی کی ڈگر پر ڈال دیا ہے جو کہ اب پابندی عائد کئے جانے جیسے خطرات سے دوچار ہے حالانکہ خود اس کے سربراہ بھی یہی چاہتے ہیں بہرحال یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے حال ہی میں واضح کیا ہے کہ اس کا تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان جاری پس پردہ رابطوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ ایک ذریعے نے لوگوں کی جانب سے دیئے جانے والے یا لوگوں کی طرف سے سمجھے جانے والے اس تاثر کی بھی نفی کی ہے کہ گویا پس پردہ یہ رابطے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اقدام کا نتیجہ ہیں یا پھر ادارے اور تحریک انصاف کے درمیان کوئی رابطہ ہے یا ادارے کی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی خواہش ہے کیونکہ پاکستان اور دنیا بھر کے ہر ذی شعور کو علم ہے کہ روزانہ گرگٹ کی طرح کئی رنگ بدلنے والے بانی پی ٹی آئی کی بات اور ذات پر کوئی اعتماد نہیں کرے گا۔ تاہم یہ بات تو سچ ہے کہ بانی پی ٹی آئی جن کو چور ڈاکو کہہ کر بات کرتے حتیٰ کہ جن سے ہاتھ تک ملانا پسند نہیں کرتے تھے اب اُن کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں اور وہ بات جو بانی پی ٹی آئی اور تحریک انصاف کو کئی سال سے سمجھائی جا رہی تھی وہ ایسے وقت میں سمجھ آئی ہے جب پی ٹی آئی سیاسی طور پر مقبولیت کے باوجود بہت کمزور ہو چکی ہے اور اقتدار سے نکلنے کے بعد اب تک جو چال چلی ہے وہ الٹی ہی پڑی ہے۔ اب جبکہ ہر چال میں ناکام ہونے بعد بانی اور تحریک انصاف مذاکرات کرتے نظر آ رہے ہیں دوسری طرف یعنی حکومت میں شامل ن لیگ اور پیپلز پارٹی بھی نخرے دکھا رہی ہیں۔ وہ بھی بجا طور پر یہ کہتی ہیں کہ خان پر اعتبار کون کرے؟ بانی چیئرمین کی گارنٹی کون دے گا؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شرائط کے ساتھ بات چیت کرنے کا کیا جواز ہے؟ اصل میں بانی پی ٹی آئی جنہوں نے جند ہفتے پہلے تک ایک ہی رٹ لگائے رکھی کہ بات چیت ہو گی تو صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ، اُن کو پہلے اپنی اور اپنی پارٹی کی مشکلات کو سمجھنا چاہیے تھا اور یہ دیکھنا چاہئے تھا کہ آخر اُن سے کیا کیا غلطیاں ہوئیں کہ مقبولیت کے باوجود وہ جیل میں اور اُن کی پارٹی مشکلات میں سے نکل نہیں رہی۔
عقل کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر بانی پی ٹی آئی یہ چاہتے تھے کہ آنے والے وقت میں اُن کیلئے سیاست کا رستہ ہموار ہو اور مشکلات کم ہونا شروع ہوں تو اُنہیں اپنے طرز سیاست کو بدلنا چاہیے تھا اُن کو منفی اور الزامات کی سیاست سے دوری اختیار کرنا چاہیے تھی اور سب سے اہم یہ کہ خود بانی پی ٹی آئی کو، اپنی سیاسی جماعت اور خصوصاً اپنے سوشل میڈیا کو فوج اور فوجی قیادت کے خلاف منفی اور ملک دشمن پروپیگنڈا سے سختی سے روکنا چاہئے تھا لیکن ان کی ایک طرف سے گالم گلوج جاری رکھنے اور دوسری طرف سے مفاہمت کی کوشش کرنے کی پالیسی ناکام ہوئی اور وہ مذاکرات کے بجائے مذاق رات کا شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ خود حکومتی وزیر خواجہ آصف نے یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر اور درست کہی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی گارنٹی کون دے گا جو دن میں کئی بار بیانات بدلتے ہیں۔ بیانات بدلنے اور پوزیشن بدلنے کے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے انداز کا اندازہ اس امر بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے حالیہ اسلام آباد مارچ سے متعلق گولیاں چلنے اور پہلے سیکڑوں اور پھر بارہ ورکرز کی شہادت ( جس کو حکومت سمیت کوئی بھی ذی شعور پاکستانی ماننے کے لئے تیار نہیں) کے الزامات بھی بغیر کسی ثبوت کے فوج پر لگائے گئے جبکہ فوج کی ذمہ داری صرف اسلام آباد کی اہم عمارتوں کی حفاظت تک محدود تھی۔ اگر ایک طرف تحریک انصاف کے چند رہنماں نے اشارتاً یا کھل کر یہ الزام لگایا تو دوسری طرف پارٹی کے سوشل میڈیا اور بیرون ملک حمایتیوں نے اس بنا پر فوج مخالف پروپیگنڈا اس قدر چلایا گیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو پریس کانفرنس کرنا پڑی مگر اس منفی پروپیگنڈا کو نہ تو پی ٹی آئی کی طرف سے روکا گیا اور نہ ہی اُس کی بانی پی ٹی آئی کی طرف سے کوئی مذمت کی گئی جس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کو ملک و قوم سے پاکستان کے مفاد سے یا اپنے مذاکرات سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ دلچسپی ہے تو اس عالمی سازش کے ہر اول دستے کے طور پر پاکستان کے خلاف اقدامات کرنے سے جن اقدامات کا ارتکاب وہ سابقہ نواز شریف دور کے دھرنوں اور سول نافرمانی کی تحریک کے دوران بجلی کے بل جلانے سے کر چکے ہیں اور جن اقدامات کا ارتکاب وہ اب حالیہ سول نافرمانی کی تحریک چلانے میں ناکامی تک کر چکے ہیں۔ ویسے تو ان سے مذاکرات نہیں کرنے چاہئیں تھے لیکن شاید یہ بھی موجودہ حکومت کی سیاسی پالیسی کا حصہ ہو کہ اب مفاہمت کی خواہش کو کچل کر بانی کو بتایا جائے گا کہ ریاست اس کے عالمی سازش کے مہرے ہونے سے بخوبی واقف ہے اور اب وہ اقتدار کی دھول تک کو کبھی بھی نہیں چھو سکے گا۔
سی ایم رضوان

جواب دیں

Back to top button