جمہوریت کی صورت اور حقیقت میں فاصلے

آصف علی درانی
پاکستان میں جمہوریت کا سوال کچھ ایسا ہے جیسے
گائوں کے سکول میں طالب علم سے پوچھا جائے کہ تم نے سبق یاد کیا یا نہیں؟ وہ بیچارہ کنفیوز ہو کر جواب دیتا ہے: ’’ جی ہاں، نہیں، شاید‘‘۔ بالکل اسی طرح کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جمہوریت ہے، کچھ کہتے ہیں کہ نہیں ہے، اور کچھ یہ فلسفہ بیان کرتے ہیں کہ جمہوریت ہے بھی اور نہیں بھی۔ اب ان جوابات پر غور کریں تو ذہن میں وہ لطیفہ آتا ہے، جس میں ایک گائوں کے امیر خان پر چوری کا الزام لگتا ہے، اور وہ بڑے اعتماد سے کہتا ہے، ’’ چوری میں نے کی ہے، مگر ثبوت مانگو تو لالے کا نام آتا ہے‘‘۔
جمہوریت کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ یہ اپنی جگہ ایک لطیفہ ہی ہے۔ جیسے ایک مریض عطائی ڈاکٹر سے کہتا ہے’’ ڈاکٹر صاحب، دوا کے بعد حالت مزید خراب ہوگئی ہے‘‘۔ ڈاکٹر ہنستے ہوئے جواب دیتا ہے’’ یہ تو ہماری دوا کی کامیابی ہے، مرض جڑ سے ختم ہوگا‘‘۔ جمہوریت بھی شاید اس وقت ہمیں یہی دوا دے رہی ہے۔
جمہوریت کے کھیل میں سب ماہر کھلاڑی
ووٹ سے کھیلتے ہیں، عوام بنتی تماشائی
ہر بار جمہوریت کی نئی صورت بنی
مگر غربت بدستور، خوشحالی نہ آئی
جمہوریت میں طاقت عوام کے ساتھ ہے
یہ نعرہ سن کر آنکھیں بند ہو جاتی ہیں ہر بار
جمہوریت کا نعرہ ہے خوشحالی کا
مگر عوام کے حصے میں آتی ہے فقط پریشانی
جمہوریت عوام کی شراکت داری کا دوسرا نام ہے، لیکن پاکستان میں عوام کا کردار محض اتنا ہے کہ وہ ووٹ ڈالیں اور باقی کام ’’ قدرت‘‘ پر چھوڑ دیں۔ انتخابات سے پہلے جلسے جلوس، نعروں، اور وعدوں کا طوفان ہوتا ہے، لیکن نتیجہ وہی نکلتا ہے کہ عوام کو ایک نیا لطیفہ مل جاتا ہے۔ مثلاً: ’’ ہم نے غربت ختم کر دی‘‘۔ اور عوام سوچتے رہتے ہیں کہ غربت ختم ہوئی یا غریب؟۔
کہتے ہیں بدترین جمہوریت، بہترین آمریت سے بہتر ہے۔ اب اس بات پر غور کریں تو لگتا ہے کہ جیسے کسی نے ہمیں کہہ دیا ہو، ’’ گندم کھائو گے یا گھاس؟‘‘، اور ہم خوش ہو کر کہیں ’’ گھاس ہی دے دو، کم از کم مفت میں ملے گی‘‘۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت بھی ہمیں وہی گھاس کھلا رہی ہے، مگر قیمت لگا کر۔
ایک دفعہ گائوں کے پنچایت میں کسی نے کہا، ’’ جمہوریت مسائل کا حل ہے‘‘۔”ایک بزرگ بولے، ’’ مسائل کے حل کا یقین ہے یا جمہوریت کی بات مذاقاً کر رہے ہو؟‘‘۔
ہمارے سیاستدان جمہوریت کو ایسا سمجھتے ہیں جیسے بچے لڈو کا کھیل۔ کوئی کسی کا گوٹ کھا جاتا ہے، کوئی سیڑھی چڑھ کر اوپر پہنچ جاتا ہے، اور کوئی سانپ کا شکار ہو کر نیچے آ جاتا ہے۔ مگر کھیل چلتا رہتا ہے، عوام بیچاری صرف تالیاں بجا کر یہ کھیل دیکھتی رہتی ہے۔
جب بھی پاکستان میں جمہوریت کمزور ہوتی ہے، تو سب کی انگلیاں ایک دوسرے کی طرف اٹھتی ہیں۔ سیاستدان کہتے ہیں کہ فوج نے مداخلت کی، فوج کہتی ہے سیاستدان نالائق ہیں، اور عوام کہتے ہیں کہ ’’ ہمیں کچھ
سمجھ نہیں آ رہی، روٹی دیں۔
یہاں جمہوریت کا حال اس شادی والے کھانے جیسا ہے، جہاں ہر کوئی کھانے پر ہاتھ صاف کرنا چاہتا ہے، لیکن جب پلیٹوں میں کچھ نہیں بچتا، تو سب ایک دوسرے کو کوسنے لگتے ہیں۔
فوجی مداخلت، بدعنوانی، اور ناقص انتخابی نظام جمہوریت کے دشمن ہیں، اور یہی عناصر پاکستان کی جمہوریت کو مسلسل کمزور کرتے ہیں۔ جب انتخابات کے دوران تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتی ہیں اور فوجی مداخلت کا شکوہ کرتی ہیں، تو عوام کو ہمیشہ یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ جمہوریت صرف ایک دکھاوا ہے۔ جیسے ایک کہانی میں استاد بچے سے پوچھتا ہے، ’’ بیٹا، امتحان میں نقل کیوں کی؟‘‘، بچہ معصومیت سے جواب دیتا ہے، ’’ سر، نقل بھی ضروری ہے، ہر سوال کا جواب معلوم ہونا ضروری تو نہیں‘‘۔ یہی حال ہمارے سیاسی نظام کا بھی ہے۔ لیکن اصل مسائل کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ بدعنوانی اور دھاندلی انتخابات کا حصہ بن چکی ہیں، اور فوج کی مداخلت اس کھیل کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ عوام ہر بار نیا وعدہ سنتے ہیں، مگر حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ انتخابی عمل میں جو جوڑ توڑ ہوتا ہے، اس سے جمہوریت کی اصل روح مجروح ہو رہی ہے، اور عوام کے حقوق ہمیشہ کسی نہ کسی طرح پامال ہو جاتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر یہ کھیل جاری رہتا ہے، اور عوام اس میں صرف تماشائی بن کر رہ جاتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کی حالت ایسی ہے جیسے ایک بوسیدہ گاڑی ہو، جس کا انجن عوام ہیں، ڈرائیور سیاستدان ہیں، اور مالک فوج۔ مگر سوال یہ ہے کہ گاڑی کی سمت کون طے کرتا ہے؟ عوام کا کام صرف انجن کی طرح دھکا لگانا ہے، سیاستدان ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر خوب بریک اور کلچ سے کھیلتے ہیں، اور فوج مالک کی طرح جب چاہے چابی نکال کر کہہ دیتی ہے: ’’ آج سفر نہیں ہوگا‘‘۔
تو، سوال وہی ہے کیا پاکستان میں جمہوریت ہے؟ اگر ہے، تو ہمیں کیوں دکھائی نہیں دیتی؟ اور اگر نہیں ہے، تو دعوے کیوں کیے جاتے ہیں؟ شاید ان سوالات کا جواب ملنے تک ہم جمہوریت کے لطیفوں سے ہی دل بہلاتے رہیں گے۔
جمہوریت کے نعرے ہیں، وعدے ہیں حسین
بس عوام کا کام ہے، خود کو رکھے یقین