Column

قسم ہے قلم کی

تحریر : صفدر علی حیدری
کتاب ہدایت میں خداوند متعال نے قلم کا ذکر فرمایا ہے: ’’ قسم ہے قلم کی اور اس کی جسے ( لکھنے والے) لکھتے ہیں‘‘۔ قلم کے اصل معنی سخت چیز تراشنے کے ہیں، لہٰذا ناخن ، بانس کی گرہ اور سرکنڈے وغیرہ تراشنے پر قلم کا لفظ بولا جاتا ہے۔ کہتے ہیں لوح و قلم ان اولین چیزوں میں سے ہے جن کو خالق کل نے پیدا فرمایا۔ اب قلم کی اہمیت کیا ہے کسی ذی ہوش انسان سے مخفی نہیں ہے۔
انسان کے تبادلہ افکار اور معانی و مطالب کو ایک دوسرے کے ذہن میں منتقل کرنے کا ایک ذریعہ یہ ہو سکتا ہے کہ خود معنی کو مخاطب کے سامنے پیش کیا جائے۔ مثلآ اگر کسی کو پانی کے بارے بتانا ہو تو خود پانی پیش کر کے اس کو سمجھائے گا لیکن یہ کام تو کبھی مشکل اور کبھی نا ممکن ہوتا ہے۔ اس مشکل کو دور کرنے کے لیے انسان نے تصاویر کا سہارا لیا ۔ اس کے نمونے قدیم غاروں میں دکھائی دیتے ہیں مگر مسئلہ یہ تھا کہ ہر جگہ دیوار دستیاب نہیں ہو سکتی تھی سو انسان نے ان اشکال کو مختصر ترین صورت میں لکھ کر حروف ( اہل بابل آشوریوں نے یہ طریقہ ایجاد کیا ۔ اس کی ابتدائی صورت تصویری کتابت تھی جس میں مسماری کتابت شامل ہے) اور ان کو جوڑ کر الفاظ ایجاد کیے اور لفظوں کے ذریعے معانی و مطالب کا افہام و تفہیم آسان ہو گیا ۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ لکھا کہاں جائے، سو پتوں، درختوں کی کھال ، چمڑے اور آخر میں کاغذ ایجاد کر کے اس نے الفاظ کو محفوظ کرنے کا طریقہ بھی ایجاد کیا۔ اس کے بعد رموز و علامات ایجاد ہوئے۔ آخر میں آواز کے لیے علامات وضع ہوئیں۔ اس طرح حروف کی ایجاد عمل میں آ گئی اور الفاظ کو لکیروں کی شکل میں آنے والے حروف کے ذریعے محفوظ کر لیا گیا اور حروف کو مکتوبی شکل میں لانے والا آلہ قلم ہے۔ لہٰذا قلم انسان کی دوسری زبان ہے۔
جب سے انسان نے قلم ہاتھ میں لیا، تہذیب و تمدن میں قدم رکھا اور قلم ہی کے ذریعے علوم و افکار محفوظ ہوئے اور علوم و فنون نے ترقی کی اور قلم ہی کے ذریعے آنے والی نسلیں اپنے اسلاف کے علوم کی وارث بن گئیں اور علم و فن، تہذیب و تمدن وراثت میں مل گئے ۔ یوں پچھلی نسلوں کے تجربات اگلی نسلوں کی طرف منتقل ہو گئے۔
آگے بڑھنے سے پہلی ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ مجھے لفظ صحافی سے سخت اختلاف ہے۔ یہ لفظ اخبار نویس اور خبر نگار کے لیے مستعمل ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک مقدس لفظ ہے۔ اس کی تقدیس کا اندازہ یوں لگائیں کہ یہ صحیفہ سے نکلا ہے اور صحیفہ یا صحائف آسمانی اور الہامی ہدایات یعنی کتب کے لیے بولا جاتا ہے۔ ان معنوں میں کسی خبر نویس کے لیے صحافی کا لفظ استعمال کرنا پرلے درجے کی ناانصافی ہے۔ وجہ اس سب کی آپ بخوبی جانتے ہیں ۔
یاد پڑتا ہے اپنے بچپن میں ایک آدمی کے بارے سنا کہ وہ صحافی ہے۔ بتانے والے نے یہ بھی بتایا کہ اگر اس بات کی بھنک اس صحافی کو پڑ گئی تو پھر خیر نہیں۔ وہ آدمی خبر کو چھپانے کے پیسے لے گا۔ اس دن پتہ چلا کہ خبر نویس ( صحافی) کو خبر بتاتے نہیں ہیں، اس سے خبر چھپاتے ہیں۔
روزانہ کئی تحریریں نظر سے گزرتی ہے مگر ہر تحریر کو مکمل طور پر پڑھنا میرے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اب یا تو تحریر نثر کا اعلیٰ نمونہ ہو دلچسپ ہو تب پڑھی جاتی ہے۔ لیکن اگر کوئی ایسی تحریر ہو جس میں حق کا قتل عام کیا جا رہا ہو تو میرے قدم رک جاتے ہیں۔ میں اسے ایک طرف رکھ دیتا ہوں۔ مجھ پر واجب کب ہے کہ میں ہر چیز پڑھوں اور مکمل پڑھوں۔ جس نے ایسی تحریر لکھی ہوتی ہے وہ مجھے یاد رہتا ہے۔ پھر میں بھول کر بھی اس کے لکھے کو منہ نہیں لگاتا۔ آپ اسے میری انتہا پسندی بھی کہہ سکتے ہیں مگر میں کیا کروں کہ میرے لیے جھوٹ پڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔
ابھی کل کی بات ہے ہماری ایک جاننے والی ادیبہ نے کتاب رو ( فیس بک ) پر تین سطروں کی ایک تحریر لکھی۔ پڑھ کر مجھے دکھ بھی ہوا اور غصہ بھی آیا کہ ایک ادیبہ ایسا لکھ رہی ہے۔ میں نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوا اس کو ان فرینڈ تو نہیں لیکن ان فالو ضرور کر دیا ہے۔ میرے لیے یہ بات ناقابل برداشت ہے کہ ایک ادیب ایسی حرکت کرے۔ کسی سے اختلاف اپنی جگہ مگر دشمنی کے بھی تو کچھ آداب ہوا کرتے ہیں، محسن نقوی تو ایک قدم اور آگے بڑھ گئے
صلح کر لی یہ سوچ کر میں نے
میرے دشمن نہ تھے برابر کے
ہم کچھ لکھتے ہوئے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ خالق نے قلم کی، قلم سے لکھنے والوں کی اور خود الفاظ کی قسم اٹھا کر ان کو تقریم بخشی ہے۔
یہ تو وہی بات ہوئی کہ اس نے ہمیں انسان بنا کر فخر کیا ہے اور انسان فخریہ کہتا ہے کہ نہیں جی ہم تو جانور ہیں۔ کبھی خود کو سماجی جانور کہتے ہیں، کبھی بولنے والا جانور، کبھی ہنسنے والا اور کبھی سوچنے والا جانور۔ گویا انسان کو عزت راس نہیں آتی ۔
ہم لوگ جو قلم سے وابستہ ہیں، کیوں بھول جاتے ہیں یہ بھی جہاد کی ایک قسم ہے۔ جہاد بالقلم جہاد کا ایک اہم ترین شعبہ ہے۔ ایک صاحب قلم شخص معاشرے میں برائی دیکھتا ہے تو اس کو بیان کیے بنا نہیں رہ پاتا۔ ظلم و زیادتی دیکھتا ہے تو تڑپ اٹھتا ہے۔ اس کا علم تلوار سے زیادہ کاری ہوتا ہے ۔ وہ معاشرے کے لوگوں کو جگانے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے مگر ۔۔۔ اب اگر وہ خود غفلت میں کھویا ہوا ہو۔ خود سویا ہوا ہو تو اسے کون جگائے گا ؟۔
اس کے لیے کہنا ہو گا کہ سوئے کو تو جگایا جا سکتا ہے، پر اسے کون جگائے جو جاگا ہوا ہو ( مگر پھر بھی سویا سویا سا ہو ) زمانہ قدیم سے بعض انسانوں کی یہ روش رہی ہے کہ وہ تھوڑی سی مالی منفعت کے لیے حقائق کو مسخ کر دیتے ہیں ۔ اس نے الہامی کتب تک کو بدل ڈالا۔ خداوند متعال کو اپنی آخری کتاب کی ذمہ داری خود لینا پڑی لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ نہیں رک سکا۔ انسان اپنی مرضی کا ترجمہ کر کے وہ اپنا الو سیدھا کر لیتا ہے۔
اقبالؒ نے خوب اشارہ فرمایا ہے
خود بدلنے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
آج سیاسی جماعتوں نے بندے خرید رکھے ہیں۔ میڈیا ونگ بنائے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرنے اور حقائق کو مسخ کرنے، سچ بات کو توڑ موڑ اپنے حق میں ڈھالنے والے پالتو لکھاری بھرتی کر رکھے ہیں، جو پاپی پیٹ کے دن رات قلم کو خون کے آنسو رلاتے ہیں ۔
ایک صحافی ایک ادیب کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے کہ اسے اپنے لکھے ہوئے ایک ایک لفظ کا حساب دینا ہے۔ میزان عمل میں اس کے الفاظ بھی تولے جائیں گے۔ جب ذرے ذرے کا حساب ہونا ہے تو ہمارے لکھے ہوئے الفاظ کیسے بچ سکتے ہیں۔
ادب اطفال پر میری تیسری کتاب ’’ کمزور چوزا ‘‘ شائع ہوئی تو میرے ایک دوست محمد شاہد محمود صاحب نے جو اعلیٰ پائے کے ادیب ، افسانہ نگار اور تنقید نگار ہیں، اس پر ایک تبصرہ مجھے لکھ بھیجا۔ انہوں نے کتاب کی تعریف تو کی لیکن چند باتوں پر اعتراض بھی کیا۔ ایک بات یہ تھی کہ میں نے پرانی بائیک کو پرانی محبوبہ لکھ تھا۔ شاید مجھے پرانی دوست لکھنا چاہیے تھا۔ اس دن مجھے پہلی بار اپنی عظیم ترین ذمہ داری کا احساس ہوا۔ مجھے شدید شرمندگی کا احساس ہوا کہ مجھے کم از کم یہ تو سوچ لینا چاہیے تھا کہ وہ بچوں کی کتاب ہے۔
اگر آپ محتاط ہیں۔ لکھنے کو ایک فریضہ گردانتے ہیں۔ یہ مانتے ہیں کہ ہمیں اپنے لکھے کا حساب دینا ہے تو ہمیں یقینًا ہمارا قلم پھونک پھونک کر اٹھے گا۔ اپنی عظیم ترین ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ہمیں سچ کا ساتھ دینا چاہیے۔ ہمیں ہر لحظہ یہ یاد رہنا چاہیے کہ قلم کی قسم ہمارے رب نے اٹھائی ہے اور قلم سے لکھنے والوں کی بھی اور جو لکھا جا رہا ہے اس کی بھی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس ذمہ داری کو بطریق احسن نبھانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الامین۔

جواب دیں

Back to top button