Column

کفن کی ضرورت ہے نہ دفن کی

تحریر : سیدہ عنبرین
معیشت کی بہتری کے سبز باغوں پر یقین کرنے کا ارادہ باندھنے کا سوچتے ہی ہیں کہ آسمان کی طرف پرواز کرتی سٹاک مارکیٹ کریش ہونے کی خبر ملتی ہے، جاری برس کا بارہواں مہینہ ختم نہیں ہوا کہ چھٹی مرتبہ ہونے والا کریش کئی ارب روپے کھا گیا، فضا میں پرواز کرتا ہوا جہاز کریش ہوتا ہے تو پیچھے کچھ نہیں بچتا، سمندر کے سینے پر سفر کرتی کشتی جب ڈوبتی ہے تو سب کچھ ڈوب جاتا ہے، مضبوط بازوئوں والے شاید چند نفوس بچتے ہیں، لیکن کنارے پر پہنچ کر ادھ موئے نظر آتے ہیں، پائوں پر کھڑے ہونے میں بہت وقت لگتا ہے۔ ان حقائق کو تسلیم نہ کرنے والے طفل تسلیاں دیتے کہتے ہیں، سٹاک مارکیٹ کریش ہونا معمول کا فنکشن ہے، اگر ایسا ہے تو پھر اسے کریش کیوں کہتے ہیں، پرواز کا نام دے دیں، یہ کیوں کہا جاتا ہے اتنے ارب روپے ڈوب گئے، کہہ دیں مٹی میں مل کر دوگنے ہو گئے، اگر یہ اتنا ہی اچھا کام ہے جو تسلسل سے صرف ہمارے یہاں ہوتا ہے، بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا، ایران، ترکی اور خلیجی ریاستوں میں کیوں نہیں ہوتا۔ سال میں کم از کم 6مرتبہ امریکہ اور یورپ میں کیوں نہیں ہوتا، اب تو یہ سوچنا پڑے گا کہ یہ کریش پاکستان میں کس کس کی سرپرستی میں ہوتا ہے، کس کی فرمائش پر ہوتا ہے اور اس کا فائدہ کس کس کو ہوتا ہے۔
ملک میں معیشت کی بحالی کیلئے جو اہم فیصلے کئے گئے ہیں ان میں عام آدمی کی پنشن پر کٹوتی سے ملک کو ناقابل بیان فائدہ ہونے کی توقع ہے، جبکہ ارکان پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں میں 5سو فیصد سے لے کر 9سو فیصد اضافے سے اسے چار چاند لگ جائیں گے، سرکاری افسروں اور وزرا کیلئے مہنگی گاڑیوں کی خریداری بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کرے گی۔ حیرت ہے ابھی ان کے 5سے 10کروڑ روپے بلاسود قرضے کی سہولت کا اعلان نہیں کیا گیا۔ یاد رہے یہ ملک کا کم ترین مراعات یافتہ طبقہ ہے جو اپنی تنخواہ میں بمشکل دو وقت روکھی سوکھی کھا کر گزارا کرتا ہے، اسے تیسرے وقت کا کھانا نصیب نہیں ہوتا، وہ گھر بنانے کا تو سوچ بھی نہیں سکتا، ان کے مقابلے میں سب سے چھوٹے گریڈ میں رہنے والے کو ماہانہ 37ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے، جو ایک خطیر رقم ہے، اس پر انکم ٹیکس لگانا چاہئے، بلکہ اس پر تو سپر ٹیکس کی بھی گنجائش نکالنی چاہئے۔
معیشت کی بہتری سے نئے ایجاد شدہ پیمانوں کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر 22ارب ڈالر ہوں تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہوتا ہے، اگر یہی ذخائر 10، 12ارب ڈالر رہ جائیں ان میں سے نصف صرف دکھاوے کیلئے رکھے ہوں تو اسے ترقی کی تیز رفتاری کہتے ہیں۔ چینی 70روپے کلو کا مطلب 12فیصد مہنگائی جبکہ 135روپے کلو ہو تو مہنگائی 7فیصد سمجھنا چاہئے، گھی کی قیمت 4سو روپے فی کلو کا مطلب 13فیصد مہنگائی اور 6سو روپے کلو کا مطلب 7فیصد مہنگائی ہوتی ہے۔ آٹا 70روپے کلو سے 100روپے کلو ہو جائے تو یہ مثبت رجحان ہوتا ہے۔ بجلی 20سے 25روپے یونٹ بہت مہنگی جبکہ 50سے 60روپے فی یونٹ خطے میں سستی ترین شمار ہوتی ہے، اس ریٹ پر کارخانہ دار کو بجلی فروخت کی جائے تو اس کی مصنوعات بہت سستی تیار ہوتی ہیں اور ایکسپورٹ میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ پٹرول ڈیڑھ سو روپے لٹر ہو تو اس کے ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، یہی پٹرول اگر پونے 3سو یا اڑھائی سو روپے فی لٹر ہو تو اس کا فائدہ تو ناقابل بیان ہوتا ہے۔
آئی ٹی کے شعبے نے دنیا میں بہت کم عرصے میں حیرت انگیز ترقی کی ہے، کئی غیر ممالک نی اس شعبے میں پاکستان میں انویسٹمنٹ کرنے کیلئے متعدد ایم او یو سائن کئے ہیں۔ ٹیلی کام کے شعبے میں بھی انقلابی پیشرفت ہوئی ہے۔ ایک سرکاری جائزے کے مطابق موبائل استعمال کرنے والوں کی تعداد قریباً ساڑھے 19کروڑ ہو گئی ہے۔ جس ملک کی آبادی 24کروڑ ہو، نصف سے زیادہ خط غربت سے نیچے جا چکے ہوں، وہاں اتنی بڑی تعداد میں آبادی کا موبائل فون استعمال کرنا خوشحالی نہیں تو اور کیا ہو سکتا ہے۔ قریباً 14کروڑ افراد موبائل ڈیٹا استعمال کرتے ہیں، لینڈ لائنز کی تعداد فقط 30لاکھ رہ گئی ہے، براڈ بینڈ والی فائی کنکشنز کی تعداد 14کروڑ سے زائد ہو چکی ہے۔ اس شعبے میں تازہ ترین اقدامات کے نتیجے میں ترقی کی رفتار پہلے کچھوے کی سی تھی جو بڑھ کر خرگوش کی رفتار سے بہتر ہو گئی، اب فائر وال ایکٹو کرنے، ٹویٹر بند کرنے اور وائی فائی کو سست کرنے سے یہ رفتار ترقی دنیا کے تمام ریکارڈ توڑ دے گی۔
بینکنگ کے شعبے میں شکنجہ سخت کرنے کے معیشت پر مزید بہتر اثرات مرتب ہوں گے، شرح منافع کم کرنے سے زیادہ بڑے قرض حاصل کرنے میں آسانیاں حاصل ہوں گی، جبکہ یہی قرضے ہڑپ کرنے، معاف کرانے کے رجحان میں اضافہ معیشت کو آسمان پر لے جائے گا۔ نئے وجدان کے مطابق رئیل اسٹیٹ پر کمر توڑ ٹیکس لگانے کا جو فائدہ ہو سکتا ہے اس کے بارے میں آج تک کسی نے سوچا نہیں، نئے ٹیکس عائد کرنے سے گھروں کی تعمیر، زمین کی خریداری مشکل ہو جائے گی۔ سیمنٹ، سریا، اینٹیں اور دیگر تعمیراتی سامان مزید مہنگا ہو گا تو لوگ جھونپڑیوں میں رہنے کی طرف مائل ہوں گے، اس طرح یہ تمام تعمیراتی سامان ہم ایکسپورٹ کر کے قیمتی زرمبادلہ کما سکیں گے، یہ قیمتی زرمبادلہ بعد ازاں آئی پی پیز کو کپیسٹی پے منٹ کرنے میں استعمال ہو سکے گا۔ جھونپڑیوں میں رہنے کے سبب بجلی کے کنکشن لینے کے رجحان میں کمی آئے گی، بجلی کی بچت ہو گی، اسی طرح لوگ لال ٹین کے زمانے میں پہنچ جائیں گے۔ سوئی گیس کے کنکشن کی مانگ بھی ختم ہو جائے گی، یوں عام آدمی کے استعمال سے بچ رہنے والا ایندھن ہم سبسڈی کے ساتھ کارخانہ دار کو دے سکیں گے، وہ سستی پراڈکٹ تیار کر کے ایکسپورٹ کرے گا اور پھر حکومت سے ایکسپورٹ ریفنڈ حاصل کر سکے گا، یوں ایک اور ستم رسیدہ طبقہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکے گا، اس حوالے سے ایک اور اہم کام پر توجہ دینا ہو گی، تمام تعلیمی اداروں کو بند کر دینے سے لوگ مزدوری اور ہنر کی طرف دھیان دیں گے اور مزدوری کیلئے باہر کی دنیا کی طرف سفر کریں گے، جو غیر ممالک پہنچ جائیں وہ زرمبادلہ پاکستان بھجوائیں گے، کیونکہ ہماری لیبر کی دنیا میں بہت مانگ ہے، جو لوگ کشتیوں کے ذریعے یعنی سمندری سفر کو ترجیح دیں گے وہ کشتی الٹنے سے بڑی تعداد میں مارے جاتے رہیں گے، یوں غیر محسوس طریقے سے ہماری آبادی کم ہوتی رہے گی، اس طرح جو اناج اجڑنے سے بچ جائے گا وہ بھی ہم ایکسپورٹ کر دیا کریں گے، اس منصوبے پر عمل پیرا ہونے سے خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں رہے گی، ہم بآسانی یہ محکمہ بھی اس طرح بند کر سکیں گے جس طرح ہم نے اپنی سٹیل ملز اور قومی ایئر لائنز کو اس حال کو پہنچا دیا ہے، وہ اب زندوں میں ہے نہ مردوں میں، انہیں کفن کی ضرورت ہے نہ دفن کی۔ موت پر بھاری ٹیکس لگانا ضروری ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان تا قیامت قبر میں لیٹا رہے اور وہ بھی مفت میں۔

جواب دیں

Back to top button