Column

خودی ۔۔۔ خود داری ۔۔۔ خود انحصاری

تحریر : صفدر علی حیدری
خودی کیا ہے ؟
اس کا چشمہ لا الہ الاا للہ سے پھوٹتا ہے
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
کسی نے سچ کہا ہے کہ لا الہ الااللہ انسان کو اس کی پہچان کا پتہ دیتا ہے۔ اسے بے خوف بنا دیتا ہے، خودی تب تک حاصل نہیں ہوتی جب تک خدا کو نہ پہچان لیا جائے، جو خدا کو بھلا دیں وہ خود فراموش ہو جاتے ہیں۔ خودی انسان کو خدا تک لے جاتی ہے۔
جبھی تو مولائے متقیان کا فرمان ذی شان ہے: ’’ من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘۔
( جس نے خود کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا)
جب رب کو پہچان لیا تو گویا سب کو پہچان لیا جگ کو پہچان لیا، پھر رب بھی تو ہمیں سب کی پہچان کرا دیتا۔ انسان کو انسان بنا دیتا ہے۔ اقبالؒ نے بھی تو خودی کا درس دیا ہے۔ اقبالؒ کی شاعری کا تو مرکزی نکتہ ہی خودی ہے۔ ان کی شاعری اسی ایک نکتے کے گرد گھومتی دکھائی پڑتی ہے۔ ویسے بھی جو خود کو پہچان نہ سکے اس سے یہ توقع کب رکھی جا سکتی ہے کہ وہ دوسروں کو ٹھیک ٹھیک پہچان سکے۔ جسے قریب کی چیز دکھائی نہ دے، دور کی کیسے نظر آئے گی ؟۔ خودی انسان جو خدا شناس بناتی ہے۔ خدا شناسی انسان کو بے خوف بناتی ہے۔ وہ اپنی زندگی کے تینوں خوفوں پر غالب آ جاتا ہے، وہ سمجھ لیتا ہے کہ زندگی خدا کے ہاتھ میں، سو اب اسے موت کا خوف نہیں رہتا۔ وہ سمجھ لیتا ہے کہ کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ وہ جان لیتا ہے کہ موت بھی ایک ایڈونچر ہے اگر تیاری ہو تو، وہ جان ہی نہیں لیتا مان بھی لیتا ہے کہ عزت اور ذلت رب کے ہاتھ میں ہے۔ سو اسے عزت کے چھن جانے کا ڈر نہیں رہتا، وہ مان لیتا ہے کہ اس کا دانا پانی رب کے ہاتھ میں ہے، سو وہ رزق کے لیے کسی کے ہاتھوں ذلیل نہیں ہوتا۔ وہ اس بات پر ایمان لے آتا ہے کہ جو اللہ پتھر میں کیڑے کو رزق دے سکتا ہے وہ اسے بھی دے گا۔ دیتا آیا ہے، دے رہا ہے، دیتا رہے گا۔ بچے سے سوال کیا جائے کہ تجھے روٹی کون دیتا ہے تو وہ کہتا امی، اسے پتہ نہیں کہ کما کر کون لایا۔ باشعور انسان کو تو پتہ چل جاتا ہے کہ رزق اللہ دیتا ہے اور اس کو کمانے کی ہمت اور جرات بھی اسی کی دین ہے اور حلال روٹی کمانا عین دین ہے۔ ایک بزرگ نے جسے اسلام کا چھٹا رکن قرار دیا تھا۔ میں تو سمجھتا ہوں اصل رکن ہی روٹی ہے۔ وہی جائز طریقے سے نہ کمائی جائے تو اس سے جنم لینے والے اعمال کیسے مسنون اور پسندیدہ ہو سکتے ہیں۔
ہم سے اکثر خودی کے حامل ہی نہیں ہیں۔ ہماری خودی ہماری انا کے آگے سرنگوں ہے۔ جب انا کا بت انسانی قد سے اونچا ہو جاتا ہے تو انسان کی خودی خود بخود بونی ہو جاتی ہے۔ انسانوں کی اکثریت ساری عمر انا کی پرستش میں گزار دیتے ہیں۔ انھیں انا کے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ کتاب ہدایت نے گواہی دی ہے کہ انسانوں کی اکثریت اپنی ذات کے آگے سجدہ ریز ہوتی ہے۔ سچ کہا ہے کسی دانش مند نے کہ سب سے زیادہ جس بت کی پرستش کی جاتی رہی ہے وہ انسان کا اپنا بت ہے، انا کا بت۔ اس بت کو پالتے پالتے انسان زمین کہ تہہ تک جا پہنچتا ہے۔ دم پرست انسانوں کا اپنا بت اتنا بڑا ہوتا ہے کہ سب کچھ اس کے پیچھے چھپ سا جاتا ہے۔ سو دم پرست انسان دم نکلنے تک دم پرستی کا دم بھرتا رہتا ہے۔
سچ ہی تو ہے کہ انسان کا نفس اس کا کم ظرف دوست ہے۔ اس پر جتنا احسان کیا جائے اتنا اس کی سرکشی بڑھتی جاتی ہے ۔ خودی سے خوداری جنم لیتی ہے۔ خود داری انسان کی غیرت کی آواز ہے۔ انسان ہاتھ نہیں پھیلاتا، مانگتا نہیں، بوجھ نہیں بنتا۔ زندگی اس کے لیے بوجھ نہیں بنتی نہ وہ کسی پر بوجھ بنتا ہے۔ وہ قطاروں والا اونٹ نہیں بنتا باروں والا بنتا ہے۔ وہ ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتا ہے اور اسے فرض عین سمجھتے ہوئے ذرا سا بھی نہیں گھبراتا۔ وہ غیرت مند انسان بن جاتا ہے۔
اقبال نے کہا تھا
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کوتاجِ سرِ دارا
خودی اور خوداری کا اگلا قدم خود انحصاری ہے۔ انسان اپنے پروں پر اڑنا، اپنے وسائل سے اپنے مسائل کا حل تلاشنے لگتا ہے۔ یہ خود انحصاری انسان کو خود اعتماد بناتی ہے اور اسے وقار عطا کرتی ہے۔ انسان پورے قد سے کھڑا ہوتا ہے تو اس کا قد اس کے قد سے بڑا دکھائی پڑتا ہے۔
اب اس خودی، خود داری اور خود انحصاری کو ایک بڑی تناظر میں دیکھیے۔ اسے ایک فرد سے بڑھا کر قوم تک لے جائیے اور سوچیے کہ جن قوموں نے ترقی کی ہے کیا وہ قرض ، بھیک اور سہارے سے اس مقام تک پہنچے ہیں۔ کیا خودی خود داری نے انھیں خود انحصاری تک نہیں پہنچایا۔ گویا خودی اور خود داری کا لازمہ خود انحصاری ہے اور فرد سے لے کر قوم تک یہی ترقی کا واحد راستہ ہے۔
پرسوں ایک خبر آئی۔ اسے پڑھ لیجے ۔ کہ آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمٹیڈ ( او جی ڈی سی ایل) نے خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں گیس کے نئے ذخائر دریافت کئے ہیں اور ان کے بارے میں پاکستان سٹاک ایکسچینج کو آگاہ کر دیا گیا ہے کہ 2کنویں سے قدرتی ذخائر کو 5ہزار 80میٹر گہری کھدائی سے حاصل کیا گیا ہے۔ کنویں سے 2.14ملین مکعب فٹ گیس اور 74بیرل ہلکا خام تیل روزانہ 435پائونڈ فی مربع انچ پریشر سے مل رہا ہے۔ او جی ڈی سی ایل کے مطابق ولی بلاک ساماناسک فارمیشن میں یہ پہلی ہائیڈرو کاربن دریافت ہے جس سے ملک میں ہائیڈرو کاربن کی مقامی فراہمی کو بڑھانے اور گیس کی طلب کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ملکی معیشت کے لیے یہ ایک ابھی خبر ہے مگر خود انحصاری کے امن کے فضا ضروری ہے۔ اگر ملک میں امن کی فضا و امان کی صورتحال تسلی بخش ہو تو یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے کہ ہم محض چند سال میں اپنے قرض اتار کر خود انحصاری کی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔ پھر وہ وقت دور نہیں ہو گا جب ہم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں داخل ہو جائیں گے مگر۔۔۔
ہمیں اس کے لیے ایک میر کارواں درکار ہو گا۔ ایک ایسی قیادت چاہیے ہو گی، جس کے بارے اقبالؒ فرما گئے ہیں
نگہ بلند سخن دل نواز جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

جواب دیں

Back to top button