شعور

علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
زندگی فقط سورج کے شرق و غرب سفر کرنے کی داستان نہیں ہے۔ بلکہ زندگی اقوام میں بیداری اور اس ’’ شعور‘‘ کے بیدار کرنے کی تحریک کا بھی نام ہے جو شعور بعض قوموں میں یا تو کبھی بیدار ہی نہیں ہوا ہوتا یا بعض قوموں میں شعورِ زندگی کو ماضی کے مزاروں میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ ایسے میں انہی اقوام میں سے کچھ مرد قلندر اٹھتے ہیں اور اپنی قوم کو پھر سے باشعور زندگی کو پلٹنے کی راہ دکھلاتے ہیں۔ پھر کیا ہوتا ہے کہ ایسے مردان حق کی آواز خواہ تقریر میں ہو یا تحریر میں ایک آفاقی پیغام کی صورت صدیوں کا سفر طے کرتی ہے اور آنے والی نسلوں کو نویدِ سحر دیتی ہے۔
خلیل جبران ایک ایسے ہی قلندرانہ فکر کے حامل شاعر، مصنف اور فلسفی کا نام ہے جس نے آج سے تقریبا پونے دو صدی قبل لبنان کی سرزمین پر آنکھ کھولی تھی۔ لبنان کا قدیم نام البانیہ بھی ہے۔ یہ بحیرہ روم کے مشرقی کنارے پر ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ جس کا دارالحکومت بیروت ہے اور لبنان زیادہ تر پہاڑی علاقے پر مشتمل ہے۔ شام اور اسرائیل کے پڑوس میں یہ وادی قدیم تہذیبوں کا مخزن ہے۔ اور مدت سے اس کی آغوش میں مسلم اور مسیحی قومیں ایک ساتھ رہتے رہتے اپنے خیالات, اور رسم و رواج میں میں ایک دوسرے کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ حتی کہ تصوف سے متعلق خلیل جبران کی تحریروں کو پڑھتے ہوئے بھی بعض اوقات یہ فیصلہ نہیں ہو پاتا کہ مصنف مسیحی تھا یا مسلمان تھا۔
اس عظیم مصنف نے تصوف، عشق ، سیاست ہر موضوع پر ایسا عمیق تجزیہ پیش کیا جو صدیوں تلک اقوام کیلئے نقارہِ انقلاب بنا رہے گا۔ ایک ایسا انقلاب جو مذہب سے بغاوت کو نہیں اکساتا تاہم مذہب کی آڑ میں انسانی اذہان کو یرغمال بنا دینے والے جھوٹے پیشوائوں کو ضرور للکارتا ہے۔ اور ان کی بے عملی پر ان کی کھلے بندوں سرزنش کرتا ہے۔
خلیل جبران مسیحی اکثریتی شہر بشاری میں ایک عیسائی پادری خلیل کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں کا نام کملہ تھا۔ غربت کی وجہ سے جبران باقاعدہ طور پر ابتدائی تعلیم سکول یا مدرسے حاصل نہیں کر پایا تھا لیکن پادریوں کے پاس اس نے عربی اور شامی زبان میں انجیل کا مطالعہ کیا اور تفسیر پڑھی۔
جبران کے بچپن میں ان کے گھر کے حالات سے متعلق جو سوانح نگاری ہوئی ہے، اس کے مطابق ان کے والد نے بے پناہ معاشی مسائل اور پریشانیاں دیکھیں۔ بے تحاشہ جوا کھیلنے کی وجہ سے مقروض بھی ہوئے۔ تاہم سلطنت عثمانیہ کی ریاست کی جانب سے جب ایک دستے کے سپہ سالار بنائے گئے۔ تو حالات کچھ سنبھلے لیکن 1891ء میں انہیں اس نوکری سے بھی معطل کر دیا گیا اور جب احتساب ہوا تو نہ صرف قید کی سزا ملی۔ بلکہ خاندانی جائداد بحق سرکار ضبط کر لی گئی۔ جبران کی والدہ کملہ اور جبران نے امریکہ ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا جہاں کملہ کے بھائی رہائش پزیر تھے۔ جبران کے والد کو 1894ء میں رہا کر دیا گیا مگر ترکِ وطن کا فیصلہ ترک نہ ہوا۔ اور 25جون 1895ء کو جبران کے والد نے خاندان سمیت نیویارک ہجرت کی۔ امریکہ میں جبران کو سکول میں داخل کرایا گیا اور سکول کے رجسٹر میں ان کا نام غلطی سے خلیل جبران درج ہوا اور یہی نام ان کی ادبی پہچان بن گیا۔ جبران کی زندگی میں غموں کا سلسلہ مسلسل تھا۔ ان کی بہن سلطانہ تپ دق میں مبتلا ہو کر چودہ سال کی عمر میں وفات پا گئی۔ اور اس کے اگلے ہی سال ان کے بھائی پیٹر تپ دق کی وجہ سے اور ماں کینسر میں مبتلا ہو کر فوت ہوئیں۔ جبران کی بہن ماریانہ نے جبران کی دیکھ بال کی۔ ماریانہ ایک درزی کے پاس نوکری کرتی رہیں۔ جبران نے 30ستمبر 1895ء کو سکول کی تعلیم شروع کی۔ سکول کی انتظامیہ نے انھیں ہجرت کرکے آنے والے طالب علموں کی مخصوص جماعت میں داخل کیا تاکہ وہ انگریزی زبان سیکھ سکیں۔ سکول کے ساتھ ساتھ جبران نے اپنے گھر کے پاس ہی ایک فنون لطیفہ کے سکول میں بھی داخلہ لے لیا، گو جبران نے امن کا پرچار کیا مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے شامی علاقوں کی سلطنت عثمانیہ سے علیحدگی کا بھی مطالبہ کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جبران، شیکسپئیر اور لائو تاز کے بعد تاریخ میں تیسرے سب زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔ اس کے ایک مجموعہ ’’ النبی ‘‘ کا دنیا کی تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ خلیل جبران کی آخری نظم جو انہوں نے مرنے سے کچھ منٹ قبل کہی تھی۔
ہم دھندلکوں میں چلے جائیں گے۔
شاید ایک دوسری دنیا کی صبح میں جاگنے کے لئے
تاہم محبت موجود رہے گی۔
اور اس کی انگلیوں کے نشان مٹائے نہیں جا سکیں گے۔
جبران خلیل جبران کہتے ہیں کہ زندگی پیدائش سے نہیں بلکہ شعور سے شروع ہوتی ہے
شعور کا پہلا درجہ ۔۔ خاموش رہنے کی عادت اپنانا ہے۔۔ شعور کا دوسرا درجہ۔۔ بدتمیزی پر جواب نہ دینا اور شعور کا تیسرا درجہ۔۔ بداخلاقی کا جواب اخلاق سے دینا ہے۔
کسی نے کہا کہ وقت کا سامراج آپ کے ’ شور‘ سے نہیں ’’ شعور‘‘ سے خوفزدہ ہوتا ہے۔
شعور آپ کو تکلیف میں ڈال دیتا ہے۔ اور یہ وہ تکلیف ہے جو عوام کی سمجھ سے بھی بالاتر ہے۔ جس تکلیف میں آپ اکیلے ہوتے ہیں۔
عدو مٹانے کو بیٹھا ہے ہر شعور و فکر،
میں راہبروں کی جہالت میں مارا جائوں گا،
میرا شعور ہے ماضی سے متصل ہر پل،
میں اپنے ذوق قدامت میں مارا جائوں گا،
گھٹن نے کر دیا وحشت میں مبتلا مجھ کو،
میں اپنے قفس جسامت میں مارا جائوں گا،
وہ لوگ بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں جو شعور سے عاری ہوں۔ سوچیں کبھی انکی راتوں کی نیند نہیں چھینتی۔ حساسیت دن کا سکون غارت نہیں کرتی۔ وہ لمحہ موجود میں اپنی مستی میں جیتے ہیں۔ مادیت باقی ہر چیز کو لپیٹے انہیں انسان و حیوان کے مابین سفر میں رکھتی ہے۔ اس دور میں اگر آپ کے پاس عقل اور شعور ہے تو خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک سزا ہے، آپ کو ہر اُس شخص سے نِمٹنا ہوگا جس کے پاس یہ نہیں ہے۔۔
تم اب فریب بیچنے آئے ہو شہر میں
کوئی شعور بانٹ کے کب کا چلا گیا۔