روشنائی

شہر خواب ۔۔۔۔
صفدر علی حیدری
آئیے کچھ وقت کے لیے ماضی میں چلتے ہیں۔ ہمارے پاس ٹائم مشین نہ سہی یادوں کی سواری تو ہے، جس کے کندھے پر بیٹھ کر ہم خیالوں میں ماضی کا سفر کر سکتے ہیں۔ دنیا میں ایک بھی ایسا آدمی ڈھونڈے نہ ملے گا جسے اس کا بچپن سنہرا نہ لگتا ہو، جسے بچپن کی یادوں سے خوشی حاصل نہ ہوتی ہو۔
بچپن کا نسٹلجیا سب کی سوچوں کو اپنے ساتھ اڑا اور بہا لے جاتا ہے
گلوکارہ افشاں احمد نے کس خوب صورت انداز سے بچپن کو یاد کیا ہے
میرے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن
آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آ گئے ؟
میرے بچھڑوں کو ملا دے کوئی
میرا بچپن کسی مول لا دے کوئی
میرے بچپن کے دن
نوشی گیلانی نے بچپن کو کس خوب صورت انداز سے یاد کیا ہے
کچھ نہیں چاہیے تجھ سے اے میری عمر رواں
میرا بچپن میرے جگنو میری گڑیا لا دے
ہمارے بچپن کی وہ افواہیں ، جو آج بھی ہمیں یاد آتی ہیں
تو پھر چلیں، مل کر وہ افواہیں، وہ یادیں تازہ کرتے ہیں۔
پینسل کے کچرے کو دراز میں رکھنے سے تتلی بن جاتی ہے۔
تربوز ( یا کسی پھل ) کا بیج کھا لیا تو پیٹ میں درخت اگ آئے گا ۔
سبزیوں کے اتنے فوائد گنوائے جاتے تھے جو خود سبزیوں کو بھی پتہ نہیں ہوں گے
چاند پر بڑھیا چرخا چلا رہی ہے۔
چاندنی رات میں پریاں آئیں گی
چارپائی پر چپل سمیت بیٹھ جانے سے سانپ آ جاتا ہے۔
سانپ کو چارپائی پر چڑھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
دن میں قصہ سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں
قبروں کے کتبے پڑھنے سے یادداشت کم زور پڑ جاتی ہے۔
ٹوٹا ہوا دانت گھر کی چھت پر پھینک کر یہ کہنے سے کہ: ’’ چڑیا چڑیا پرانا دانت لے جا اور نیا دے جا‘‘، نیا دانت مل جاتا ہے۔
ٹیچر کی کرسی پر بیٹھو گے تو فیل ہو جائو گے ۔
پتیلی میں کھانا کھانے سے شادی میں بارش ہوتی ہے۔
توتے کے نیچے جو سوراخ لکیر نظر آتی ہے وہ جنوں کی بارات ہوتی ہے۔
جنات ہمیں کچھ نہیں کہتے کیوں کہ وہ ہمارے نانے مامے ہیں۔
قینچی کو خالی چلانے سے گھر میں لڑائی ہوتی ہے۔
آلتو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو ، بولنے سے ٹیچر نہیں ماریں گی۔
واش روم میں کچھ کھایا جائے تو وہ گندگی میں بدل جاتا ہے۔
نمک گرتے ہی پانی بہائو ورنہ قیامت کے دن پلکوں سے اٹھانا پڑے گا۔
مغرب سے پہلے اپنے اپنے گھروں کو چلے جائو کیونکہ مغرب کے بعد سر کٹا نکلتا ہے اور وہ بچوں کو مار دیتا ہے۔
سو جائو ورنہ رات کی ماں آ جائے گی۔
پنسل کے کچرے کو دودھ میں پکانے سے ریزر بنتی ہے۔
ہمارا اسکول قبرستان پر بنا ہوا ہے ۔
جُھوٹ بولو گے، تو زُبان کالی ہوجائے گی ۔
حالانکہ بظاہر یہ بھی ایک جھوٹ تھا۔
مچھلی کھانے کے بعد پانی مت پینا ورنہ وہ پیٹ میں تیرے گی۔
مچھلی کھا کر دودھ پیو گے تو برص ہو جاتا ہے۔
کوئی آپ کے اوپر سے پھلانگے تو آپ کا قد چھوٹا رہ جائے گا۔
قد ملانے سے قد چھوٹا رہ جاتا ہے۔
زمین کے نیچے بونے رہتے ہیں۔
جنات بلی اور کتے کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔
جنات جانوروں کو نظر آتے ہیں۔
ان کے پائوں الٹے ہوتے ہیں۔
بھڑ کو مارنے پر دو نفلوں کا ثواب ملتا ہے۔
چھپکلی کو مارنے کے بعد نہانا ضروری ہے ورنہ وہ خوابوں میں ڈراتی ہے۔
سانپ کو مار کر نہیں جلائو گے تو وہ زمین چاٹ کر زندہ ہو جائے گا۔
سانپ کو مارو گے تو اس کی مادہ انتقام لے گی۔
کوئی عقب سے بلائے تو کبھی پیچھے مت دیکھنا ورنہ پتھر کے ہو جائو گے۔
یہ اور اس جیسی بیسیوں باتیں ہماری یادداشت کا حصہ ہیں، جن کے سچ ہونے کا آج تک پتہ نہیں چلا۔
ہمارا بچپن اور تعلیمی دور تختی، قلم دوات، ہولڈر، قلم اور پہاڑے کا دور تھا۔ یہ سن اسی کی دہائی کا ذکر ہے۔ تب تک روشنائی کو سیاہی اور انک، قلم کو پین، بستے کو بیگ، کتاب کو بک، پہاڑے کو ٹیبل، ربڑ کو ریزر، پنسل تراش کو شارپنر، کچی پینسل کو لیڈ پینسل، کاپی کو نوٹ بک، استاد کو ٹیچر، مکتب کو اسکول، نتیجے کو رزلٹ کہنے کا رواج نہیں پڑا تھا۔ تب طالب علم اسٹوڈنٹ نہیں کہلواتا تھا۔
تب نواب بننے کا واحد راستہ پڑھنا لکھنا تھا۔
تب لکھائی پر بڑا زور ہوا کرتا تھا۔ تختی پر لکھنا لازمی ہوا کرتا تھا۔ ذمیہ کام روز کرنا پڑتا تھا۔ اس کے ہولڈر کا استعمال ضروری تھا۔ ہم جاوید روشنائی خریدا کرتے تھے۔ اس کی روشنائی شوخ ہوا کرتی تھی۔ اگر کبھی روشنائی کم شوخ یعنی پھیکی پڑ جاتی تو ہم اپنی دوات ( ان پاٹ نہیں) میں تھوڑی مٹی ڈال کر سرکنڈے کی قلم کو گول گول گھمایا کرتے تھے تاکہ وہ میٹھی ہو جائے۔ صبح مکتب آتے ہوئے تختی پر پیلی مٹی کی تہہ چڑھا کے سارا راستہ ہاتھ گھما گھما کر اسے سکھاتے رہتے۔ اگر سردیاں ہوتیں تو پھر لکڑی کی آگ سے اسے سینکنے اور جلد سکھا لیتے۔ آخری پیریڈ میں تختی لکھنا ہوتی تھی۔ ہر جگہ کوشش کرتا کہ وہ خوب خوش خطی سے لکھے تاکہ استاد سے چند تعریفی کلمات سن سکے۔ اور استاد بھی ایسے سخت تھی کہ شاز ونادر ہی تعریف کرتے ۔ تعریف میں ان کی یہ کنجوسی ہمارے شوق کو مہمیز کرتی اور ہم خوب جما جما کر لکھتے۔ تب کہیں جا کر تعریف سننے کو ملتی۔ رب تعریف کمانا گویا روزی کمانے جیسا مشکل ہوا کرتا تھا۔ تب فیل ہونے کا بھی رواج تھا ۔ پانچویں تک ہم انگریزی سے دور رہتے تھے ۔ انگریزی کا آغاز چھٹی سے ہوتا اور کمزور بچوں کو چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا ۔ تب سکولوں میں اردو بولنے کا بھی رواج نہیں تھا ۔ ہر کوئی مقامی بولی بولا کرتا تھا۔
یاد پڑتا ہے کہ پانچویں جماعت میں ہر بچہ انگریزی سیکھنے کی چاہ میں ایک قاعدہ ( بعض بچے اسے قیضہ کہتے تھے ) خرید لیا کرتے تھے سو جب وہ چھٹی میں جاتے تو ان کو انگریزی حروف تہجی کی نہ صرف یہ کہ پہچان ہو چکی ہوتی تھی بلکہ وہ لکھنا بھی سیکھ چکتے ہوتے تھے ( یہی کام آج کل بچے اساتذہ کی زیر نگرانی تین سال میں نہیں کر پاتے )تب امتحانات کے قریب ( پانچویں اور آٹھویں کے ) بچوں کو پابند کیا جاتا تھا۔ اساتذہ یہ کام پیسوں کے لیے کرتے تھے نہ بورڈ پر اسکول کا نام لکھوانے کے لیے ۔ تب ٹیوشن کا کوئی رواج نہ تھا۔ اساتذہ مفت پڑھایا کرتے تھے۔ بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھتے تھے اور پرائی ویٹ مافیا کا نام تک نہیں تھا۔
یاد پڑتا ہے آٹھویں میں ہمارے انچارج عبد الجبار صاحب نے ہمیں بیس دن اسکول میں پابند کیا تو ہم بستر سمیت وہاں شفٹ ہو گئے تھے۔
یہ تب ہوتا تھا جب روشنائی کو سیاہی کہنے کا رواج نہیں پڑا تھا۔
مجھے لگتا ہے جب سے روشنائی کو سیاہی کہا جانے لگا ہے، علم کا نور بجھ گیا اور جہالت کے اندھیرے ہر سو پھیل گئے ہیں۔