پی ٹی آئی پیپلز پارٹی کی راہوں پر

کلین بولڈ
چودھری راحیل جہانگیر
10اپریل 1986ء کو لاہور میں بے نظیر بھٹو کا فقید المثال استقبال ہوا اور لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ منعقد ہوا۔ اسی جلسے کے بعد مقتدر حلقوں میں بے چینی کا آغاز ہوا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد ( جس کو عدالتی قتل کہنا زیادہ مناسب ہوگا) پیپلز پارٹی کیلئے سیاست کے دروازے عملی طور پر بند تھے۔ جلسہ جلوس اور سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہ تھی۔ کارکنوں کی گرفتاریاں، ان پر مقدمات کا اندراج اور پابند سلاسل کرنا عام روش بن چکی تھی، یہاں تک کہ کارکنوں کو گھروں پر پارٹی پرچم لہرانے کی اجازت نہ تھی۔ ان نامساعد حالات میں بھی پیپلز پارٹی کے جیالوں نے قربانیاں دیں اور پارٹی کو زندہ رکھنے کیلئے جدوجہد کرتے رہے۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں پارٹی کیلئے گھر سے باہر نکلنا خودکشی کے مترادف تھا۔ پھر بھی پیپلز پارٹی کے جیالی قید و بند اور کوڑوں کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے پارٹی کیلئے کام کرتے رہے۔ پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے نام دوسری سیاسی پارٹیوں کو جوائن کر چکے تھے۔ پارٹی کی چیئرپرسن نصرت بھٹو اپنے خاندان کے ہمراہ ملک بدر کردی گئی تھیں۔ ان کا ایک بیٹا میر شاہ نواز بھٹو مشکوک حالت میں مردہ پایا گیا۔ ان حالات میں بے نظیر کی واپسی بہت کٹھن فیصلہ تھا۔ مقتدر حلقے اور صحافی پیپلز پارٹی کے خاتمے کی خبریں سنا رہے تھے۔
پھر فلک نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بے نظیر کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے سارا لاہور امڈ آیا۔ لاہور کی سڑکوں پر سر ہی سر تھے اور ہر رستہ اقبال پارک کی طرف جارہا تھا۔ ایک کامیاب اور بڑے جلسے کے بعد سیاسی ناقدین یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ پیپلز پارٹی ختم نہیں ہوئی۔ سیاسی حبس کے مارے سیاسی کارکن پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ باہر نکل آئے۔ پیپلز پارٹی کی ہوا کیا چلی ہر طرف بے نظیر، بے نظیر ہوگئی۔ بے نظیر بھٹو نے پنجاب کے دیگر شہروں میں طوفانی رفتار سے کامیاب جلسے کئے۔ اسی دوران ضیاء الحق فضائی حادثہ میں دائی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ بے نظیر بھٹو کو فاروق لغاری جیسے سیاستدانوں نے یہ بات باور کرانا شروع کردی کہ الیکٹیبلز کے بغیر پیپلز پارٹی الیکشن نہیں جیت پائے گی۔ اس طرح بے نظیر بھٹو نے حکومت بنانے کیلئے بھٹو کے مشن سے روگردانی کرتے ہوئے ضیا الحق کی باقیات کو پارٹی میں شامل کرنا شروع کر دیا۔ بے نظیر کے اس اقدام سے مارشل لاء دور میں پارٹی کیلئے جدوجہد کرنیوالے پارٹی ورکروں پر مایوسی کے بادل چھا گئے۔ 1988ء میں غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کو مشروط حکومت دی۔ پارٹی کے سینئر رہنما مشروط حکومت لینے کی مخالفت کر رہے تھے، وہ چاہتے تھے کہ بیساکھی پر چلنے والی حکومت لینے کی بجائے اپوزیشن میں بیٹھا جائے کیونکہ زیادہ اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے پیپلز پارٹی اپنے ایجنڈے پر کام کرنے سے قاصر رہے گی۔ وقت نے ثابت کیا پیپلز پارٹی کا حکومت لینے کا فیصلہ غلط تھا۔ محض دو سال کے بعد غلام اسحاق خان نے کرپشن کے الزامات کے تحت بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کر دیا، جس سے پارٹی کا امیج تباہ ہوا۔ اگلے الیکشن میں پیپلز پارٹی الیکشن ہار کر اپوزیشن میں جا بیٹھی۔ کرپشن کے الزامات کو ایک طرف رکھیں، یہ سیاسی شعبدہ بازیاں ہوتی ہیں۔ 1986ء میں شاندار استقبال اور بڑے جلسے کے باوجود بے نظیر نے اپنے ورکرز پر اعتبار نہ کرتے ہوئے وننگ امیدواروں کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ اسی فیصلے نے پارٹی میں مایوسی پیدا کی۔ حکومت کی برطرفی کے بعد بڑی تعداد میں پارٹی ورکرز پارٹی چھوڑ گئے۔
اسی طرح پی ٹی آئی لاہور جلسے سے پہلے اپنی سیاسی شناخت کیلئے جدوجہد کر رہی تھی۔ بانی پی ٹی آئی نے لاہور میں ایک بڑا جلسہ کرکے ملکی سیاست میں ایک طوفان برپا کر دیا۔ اس جلسے سے پہلے پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر سنجیدہ نہیں لیا جارہا تھا۔ ایک کامیاب جلسے کے بعد لوگوں کی عوامی آراء بدلنا شروع ہوئیں۔ دو پارٹی سسٹم کے ساتھ باری باری حکومت میں آنے کے کھیل سے تنگ عوام نے پی ٹی آئی سے امیدیں وابستہ کرنا شروع کر دیں۔ پی ٹی آئی نے بھی بڑے جلسے کے بعد وہی سیاسی غلطیاں کرنا شروع کر دیں جو پیپلز پارٹی نے کیں۔ بانی پی ٹی آئی نے بھی وننگ امیدواروں کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لوگوں کو بڑی تعداد میں پارٹی میں شامل کرلیا، جو ہر دور میں حکومت میں رہنا چاہتے ہیں۔ پارٹی ٹکٹ لوٹوں کو دیئے گئے۔ پارٹی کو حکومت ملی تو دوسری پارٹیوں سے شامل کی گئی سیاسی کرپٹ قیادت نے کرپشن کا وہ بازار گرم کر دیا جس سے بانی پی ٹی آئی کی سیاسی ساکھ کو ناقابل یقین نقصان پہنچا۔ چار سالہ حکومت میں سیاسی اتحادی وزارتیں لینے اور بلیک میل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے تھے۔ پی ٹی آئی کی حکومت تین سال سات ماہ بعد عدم اعتماد سے فارغ کردی گئی۔ پیپلز پارٹی کی سیاست اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھی۔ بھٹو نے امریکہ کو للکارا تھا۔ وہ سیاسی طور پر یہ سب کرنے کی وجہ رکھتے تھے کیونکہ وہ بھٹو کی پھانسی کے قلابے اسٹیبلشمنٹ سے ملاتے تھے۔ پی ٹی آئی نے بھی اسی روش کو اپنایا۔ جب ان کا بیانیہ مقبول ہوا تو بانی پی ٹی آئی اپنا سیاسی رستہ تبدیل کرکے اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے حکومت میں آئے اور اپنے سیاسی بیانیہ کو دفن کر دیا۔ سیاسی ناقدین کے مطابق پی ٹی آئی کا ووٹر درحقیقت پیپلز پارٹی کا ووٹر ہے جو پیپلز پارٹی کی حرکتوں کی وجہ سے پی ٹی آئی میں شامل ہوا۔ بانی پی ٹی آئی نے بھی وہی غلطیاں کیں جو بے نظیر بھٹو نے کیں۔ درحقیقت وننگ امیدوار کچھ نہیں ہوتے، جس پارٹی کی لہر چلتی ہے وہی آگے آتی ہے۔ خاموش ووٹر الیکشن میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آج جیل میں بیٹھے بانی پی ٹی آئی ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ ان سے کہاں کہاں سیاسی غلطیاں سرزد ہوئیں۔ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت تو 9مئی کے بعد پی ٹی آئی کو چھوڑ گئی تھی مگر کارکنوں نے قیادت کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ حقیقت میں پارٹی کارکن ہی پارٹی کا سرمایہ ہوتے ہیں مگر سیاسی پارٹیاں ان کیلئے کچھ نہیں کرتیں۔