سول نافرمانی فائنل کال کا نیا ایڈیشن
قادر خان یوسف زئی
جارحانہ، اشتعال انگیز اور پرتشدد احتجاجی طرز سیاست نے ہمارے ملک کو نہ صرف سیاسی اور اقتصادی بحرانوں میں دھکیلا ہے بلکہ یہ رویہ معاشرتی ہم آہنگی کو بھی شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ جب عوام یا سیاسی قیادت اپنی جائز یا ناجائز خواہشات کو پورا کرنے کے لیے دھرنوں، مظاہروں اور سول نافرمانی کی تحریکوں کا سہارا لیتے ہیں تو اس کا اثر صرف حکومتی مشینری پر ہی نہیں بلکہ پوری قوم کی ترقی اور خوشحالی پر پڑتا ہے۔ دراصل یہ اپنی انا اور ذاتی مفادات کی جنگ ہوتی ہے۔ دھرنوں اور متشدد احتجاجی تحریکوں کے ذریعے ریاست کو دبا میں لانے کی کوشش ملک کی معیشت کو مفلوج کرنے کی سازش ہوتی ہے۔ دارالحکومت کے حساس علاقوں میں طویل دھرنوں سے نہ صرف کاروبار زندگی متاثر ہو رہاہے بلکہ عام شہریوں کی روزمرہ زندگی بھی اجیرن ہو جاتی ہے۔ تعلیمی اداروں و کاروبار کی بندش ، اور عام شہری ذہنی اور جسمانی اذیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان تمام اثرات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔ سرمایہ کار کے سازگار ماحول کا پیغام نہ جانے سے وہ سرمایہ کاری کرنے سے گریز کرتے ہیں اور ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان احتجاجی قائدین کو ان نقصانات کا ادراک ہونے کے باوجود وہ اپنی سیاست چمکانے کے لیے قوم کو یرغمال بنانے سے باز نہیں آتے۔
عمومی طور پر یہ دیکھنے میں آیا ہے اس قسم کی تحریکوں سے نہ صرف معیشت بلکہ انسانی جانوں کا بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ احتجاج کے دوران املاک کی توڑ پھوڑ، آتش زنی، اور پولیس و عوام کے درمیان جھڑپیں معمول بن چکی ہیں۔ ان واقعات میں نہ صرف بے گناہ شہریوں کی جانیں ضائع ہوئیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے علاوہ، ہسپتالوں تک رسائی میں رکاوٹ اور ایمرجنسی خدمات کی معطلی سے مریضوں کو شدید نقصان پہنچا۔ ایسے تمام واقعات ملک میں بے امنی اور بے یقینی کی فضا کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔ مزید برآں، احتجاج کے دوران عوام کو سول نافرمانی پر اکسانا ایک انتہائی خطرناک عمل ہے جو معاشرتی ڈھانچے کو کمزوری کی طرف دھکیلنے کی ایک سازش ہے۔ کیونکہ سول نافرمانی کا مطلب ہے کہ عوام کو قانونی اور آئینی پابندیوں کو نظرانداز کرنے پر آمادہ کرکے معیشت کو مفلوج کرنے کی کال دینا۔ اس کا سب سے بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام کا قانون پر اعتماد ختم کیا جائے اور ایک انارکی کی کیفیت پیدا کی جائے کہ عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے قانونی راستوں کی بجائے غیر قانونی طریقے اختیار کریں ۔
سول نافرمانی کی تحریک کا ایک اور بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ عوام کو ریاست کے خلاف کھڑا کرنے کی سوچ کو پروان چڑھاتی ہے۔ ریاستی ادارے جن کی ذمے داری عوام کے تحفظ اور فلاح کے لیے کام کرنا ہیں، احتجاج کرنے والے عناصر کی منفی پراپیگنڈا مہم کی وجہ سے نفرت کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں پولیس، عدلیہ، اور دیگر ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف موجودہ مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے بلکہ طویل المدتی طور پر ریاست کے استحکام کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس طرح کی تحریکیں معاشرتی تقسیم کو بڑھاتی ہیں۔ احتجاجی قیادت عام طور پر اپنے حامیوں کو دوسرے طبقات کے خلاف اکسانے کی کوشش کرتی ہے، جس سے معاشرے میں نفرت اور عدم برداشت کا رجحان بڑھتا ہے۔ اس کے علاوہ، سول نافرمانی کی تحریکوں کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ وہ نوجوان نسل کو گمراہ کرتی ہیں۔ جب نوجوان دیکھتے ہیں کہ احتجاج اور قانون شکنی کے ذریعے مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں تو وہ تعلیم، محنت، اور مثبت سرگرمیوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ان منفی تحریکوں کی کال دینے والے قائدین کو تنقید کا نشانہ بنانا نہایت ضروری ہے۔
وہ لوگ جو جذباتی نعرے لگا کر عوام کو گمراہ کرتے ہیں اور اپنی تقاریر میں انقلاب کا دعویٰ کرتے ہیں، حقیقت میں قوم کو تاریکی کی طرف دھکیل رہے ہوتے ہیں۔ ان کی حکمت عملی صرف سیاسی مخالفت کو کچلنا اور اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کرنا ہے، چاہے اس کے لیے ملک کو کتنے ہی نقصان کیوں نہ پہنچے۔ ایسے قائدین کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ عوام کی خدمت نعرے بازی سے نہیں بلکہ عمل اور دیانتداری سے کی جاتی ہے۔ عالمی برادری میں بھی ان تحریکوں کے منفی اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ مسلسل سیاسی عدم استحکام اور دھرنوں کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار و سیاح ملک کا رخ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں ملک کی عالمی ساکھ کو دھچکا لگتا ہے اور پاکستان کو غیر مستحکم ریاست کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ نتیجتاً، عالمی مالیاتی ادارے بھی امداد دینے یا سرمایہ کاری کے لیے ہچکچاتے ہیں، جس سے اقتصادی بحران مزید گہرا ہو جاتا ہے۔
جمہوری حق کا غلط استعمال ایک اور پہلو ہے جو اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ احتجاج کا حق جمہوریت کا حصہ ہے، لیکن جب یہی حق غیر ذمہ داری سے استعمال کیا جائے تو یہ عوام کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ جمہوری اقدار کو پامال کرتے ہوئے سڑکوں پر آ کر اور اداروں کو مفلوج کر کے حقوق مانگنا دراصل خود جمہوریت کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف عوام کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہوتا ہے بلکہ نظامِ حکومت کو غیر موثر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے اقدامات جمہوری معاشروں میں عدم استحکام پیدا کرتے ہیں اور عوام کو جمہوری عمل سے بدظن کر سکتے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ دھرنوں اور سول نافرمانی کی سیاست نہ ماضی میں کبھی کامیاب ہوئی ہے اور نہ ہی مستقبل میں ہو سکتی ہے۔ مستقل مثبت تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ پوری سیاسی قیادت اور تمام ریاستی ادارے اس بات کا ادراک کریں کہ ایسے اقدامات ملک و قوم کے لیے نقصان دہ ہیں۔ سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے عوام کو آئینی اور قانونی راستوں پر گامزن کریں۔
اگر ہم ایک مستحکم، خوشحال، اور ترقی یافتہ پاکستان کا خواب دیکھتے ہیں تو ہمیں ان رویوں کو مسترد کرنا ہوگا جو ہماری قوم کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اگر کسی بھی سیاسی قیادت کی سیاست کا مقصد عوام کی خدمت ہو اور جہاں قانون کی بالادستی کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے۔ تو سب کو اجتماعی سوچ اپنانا ہوگی جو ملک کو نقصان پہنچانے کی بجائے اس کی تعمیر اور ترقی میں معاون ہو۔ یہ وقت ہے کہ ریاست عوام کو ان جھوٹے دعویداروں سے نجات دلائے جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ملک کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔