Column

دنیا ہماری انگلیوں پر

میری بات
روہیل اکبر
دنیا میں ترقی اتنی تیزی سے ہو رہی جو ہماری سوچ سے بھی باہر ہے، اس وقت آرٹیفیشل انٹیلیجنس اپنے عروج پر ہے۔ دنیا کی ترقی تو ایک طرف، ہمیں تو اپنے موبائل کیمرے کا بھی فنکشن نہیں آتا۔ لیکن ہمیں یہ ضرور بتا دیا گیا ہے کہ یہ بھی غدار ہے، وہ بھی غدار ہے، اگر ان غداروں کی لسٹ پر ایک نظر ماریں تو ہمارے آج تک کے سبھی حکمران اسی لسٹ میں نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان بنانے والے قائد اعظمؒ اور ان کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کو بھی نہیں بخشا گیا اور تو اور اس وقت جو صدر پاکستان اور وزیراعظم ہیں یہ بھی ایک وقت میں انہی القابات سے یاد کیے جاتے تھے ، اس کے علاوہ جو جو انہیں کہا گیا وہ ناقابل بیان ہے، اور تو اور جنہوں نے پاکستان کو دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں پہلا ایٹمی ملک بنایا ان پر بھی غداری کے الزامات لگائے گئے، یہ الزامات کیوں لگائے جاتے ہیں تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر جعلی اور بے بنیاد باتوں کی طرف لگائی جائے، یہ لوگ ایسا کرتے ہیں؟۔ وہ ایسا اس لئے نہیں کرتے ہیں کہ عوام کی توجہ ان کی لوٹ مار سے ہٹی رہے، وہ آپس میں اپنی اپنی پسند کے لیڈروں کے حق میں اور مخالفوں کے خلاف سارا دن فضول قسم کی بحث کرتے رہیں اور وہ ملکی دولت سمیٹتے رہیں، اس سے ہٹ کر کہ کہیں عوام کو عقل و شعور نہ آجائے تو اس کے لیے وہ عوام کو نان نفقہ کا محتاج رکھا جاتا ہے جس میں فی الحال وہ ابھی تک تو کامیاب ہیں اور یہ غلامی کی ایک شکل بھی ہے بلکہ ایک طرح سے ہم سب قید میں ہیں۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ ہمارے ہاں تو جمہوری حکومت ہے جو عوام کے ووٹوں سے آتے ہیں اور دن رات خدمت کرتے ہیں، کیا کبھی کسی نے سوچا کہ عوام کو ریلیف کیوں نہیں ملتا؟ عوام کی زندگی کیوں نہیں بدلتی؟ کیونکہ غلام کے اتنے ہی حقوق ہوتے ہیں جتنی ہمیں مل رہے ہیں اس سے زیادہ سہولتیں آزاد قوموں کیلئے ہوتی ہیں، آپ محنت کرکے اپنا رہن سہن بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر آپ کو پچھلی پوزیشن پر پہنچا دیتے ہیں۔ آپ مزید محنت کرتے ہیں وہ مزید ٹیکس لگاتے ہیں، آپ کو وہ مصیبتوں سے نکلنے نہیں دیتے بلکہ آئے روز مزید پریشانیاں آپ کی منتظر ہوتی ہیں، ان سب نکات کو آپ کسی سیاسی جماعت کا سپورٹر بن کر نہیں بلکہ ایک پاکستانی بن کر سوچیں! آپ کو سب کچھ واضع نظر آئے گا یہاں تک کہ غلامی کا وہ طوق بھی جو ہمارے گلے میں ہے مگر آپ کو نظر نہیں آتا بالکل ایسے ہی جیسے ہمیں ریموٹ کنٹرول کی لائٹ نظر نہیں آتی لیکن اگر آپ اپنے موبائل کا کیمرہ آن کرکے اس کے سامنے ریموٹ کنٹرول کا کوئی بھی بٹن دبائیں تو پھر آپ کو اسکی لائٹ جلتی ہوئی نظر آئے گی بلکل اسی طرح ہمیں اگر اپنے گلے میں ڈالا گیا طوق دیکھنا ہے تو پھر ہمیں اسی حساب سے علم بھی حاصل کرنا پڑے گا جس سے ہم ابھی میلوں دور ہیں اس کے لیے ہمیں باشعور ہونا پڑے گا۔
میں نے ابھی کیمرے اور ریموٹ کا ذکر کیا ہے ہم سے بہت سے لوگ کیمرے کی سسٹم کو صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ تصویر بنا لی یا ویڈیو اس سے ہٹ کر ہمیں کچھ معلوم نہیں، اس کے صرف 5موٹے موٹے فنکشن میں بتا دیتا ہوں جو ہماری زندگیوں میں بہت نہیں تو کم از کم تھوڑی سے تبدیلی ضرور لا سکتے ہیں آپ انہیں پلے سٹور سے اپنے سمارٹ فون پر انسٹال کر سکتے ہیں، گوگل ٹراسلیٹ آپ اسے انسٹال کریں، زبان کی سیٹنگ کریں، اس کے اندر کیمرہ کے نشان کو کلک کریں، پھر اس کیمرہ کو گھر میں کہیں بھی لکھی ہوئی انگریزی یا اردو پر لے جائیں وہ آپ کوایک سیکنڈ میں ہی اردو یا انگلش میں ترجمہ کرکے دکھا دے گا۔ فوٹو میتھ اسے انسٹال کریں کاغذ پر پن سے ریاضی کا کوئی بھی مشکل یا آسان سوال لکھیں کیمرہ اس لائین کے اوپر لے جائیں یہ اسے فوکس اور سکین کرکے آپ کو سیکنڈوں میں جواب دکھا دے گا۔ IP Webcam اس ایپ کی مدد سے آپ اپنے موبائل کو خفیہ یا سیکیورٹی کیمرہ میں تبدیل کر سکتے ہیں، اس ایپ کو اوپن کریں، اس کے اندر سے ایپ کا آئی پی ایڈریس نوٹ کریں، اس آئی پی ایڈریس کو اپنے کمپیوٹر یا دوسرے موبائل کے برائوزرز میں ڈالیں، اب جو مناظر آپ کا پہلا کیمرہ دکھائے گا وہی آپ کا ڈسک ٹاپ یا دوسرا موبائل دکھائے گا۔ CrookCatcher – Anti Theftیہ سب سے زبردست ایپ ہے اگر آپ کا موبائل کہیں گم یا چوری ہوجائے اور چور جب اسے یوز کرنے کے لئے موبائل کا سکیورٹی پن یا پیٹرن غلط لگائے گا تو یہ سافٹ وئیر اپنا کام شروع کر دے گا یہ موبائل کے فرنٹ کیمرے سے اس چور کی تصویر بنالے گا ، پھر اس تصویر اور لوکیشن کو آپ کے دیئے گئے ای میل ایڈریس پر بھیج دے گا۔ CamScanner – Phone PDF Creatorاس ایپ کی مدد سے آپ اپنی لائبریری میں موجود کسی بھی چھوٹی یا بڑی کتاب کو منٹوں میں پی ڈی ایف فارمٹ میں تبدیل کر سکتے ہو اس ایپ کی مدد سے کیمرہ آن کریں جس صفحہ کو تبدیل کرنا ہے اسے فوکس کرکے تصویر لیں اور پی ڈٰ ایف میں بدل لیں ان پانچ فنکشنز کی ہمیں ہر وقت ضرورت رہتی ہے لیکن ہمیں علم ہی نہیں اور بعض اوقات انہی چیزوں کے لیے ہمیں کسی آئی ٹی ماہر کے پاس جانا پڑتا ہے اور اس مفت کے کام کے پیسے دینے پڑتے ہیں اور آگے سے وہ بندہ بھی ہمیں نہیں سمجھاتا کہ بھائی یہ کام آپ خود بھی کر سکتے ہیں اس لیے کہ وہ بھی علم بانٹنے کے معاملہ میں کنجوس ہے اگر ہم نے ترقی کرنی ہے اور غلامی سے باہر آنا ہے تو پھر ہمیں جدید تعلیم کی طرف آنا ہوگا ابتدائی کلاسوں سے ہی آئی ٹی کا کام شروع ہوجانا چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں الگ سے آئی ٹی پارک بنانے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی، بلکہ آنے والے دور میں ہر گھر ہی آئی ٹی پارک ہوگا، اگر ہم نے اس نئی ٹیکنالوجی کو رائج کر دیا لیکن یہاں تو کوئی سننے کو تیار ہی نہیں اور نہ ہی کوئی اپنے آپ کو تبدیل کرنا چاہتا ہے اور تو اور ہم اپنے جمہوری حکمرانوں سے پوچھ بھی نہیں سکتے کہ صبح سے لیکر شام تک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور غدار ثابت کرنے کے بجائے ہمیں ترقی اور خوشحالی کے راستہ پر گامزن کیوں نہیں کیا جاتا۔
اس کی مثال کچھ یوں بنتی ہے جو عربی کی مشہور ضرب المثل ہے جوہا لوگوں کے لیے مبلغ بننا چاہتا تھا اس لیے وہ روزانہ منبر پر جاتا تھا اور کہتا کہ اے لوگو ں کیا تم جانتے ہو کہ میں تمہیں کیا بتانے والا ہوں، انہوں نے کہا نہیں؟۔ جوہا نے کہا چونکہ تم نہیں جانتے اس لیے جاہلوں کو تبلیغ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور منبر سے نیچے اتر گیا۔ پھر وہ دوسرے دن منبر پر گیا اور کہا اے لوگوں کیا تم جانتے ہو؟، میں آپ کو کیا بتائوں گا، تو سامنے سے جواب آیا ہاں۔ جس پر جوہا نے کہا چونکہ آپ جانتے ہیں اس لیے دوبارہ دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں اور منبر سے نیچے اتر آیا۔ جس کے بعد لوگوں نے اتفاق کیا کہ اب ان میں سے ایک گروہ ہاں کہے گا اور ایک گروہ نہیں کہے گا، جب جوہا دوبارہ منبر پر بیٹھا اور کہا اے لوگوں کیا تم جانتے ہو؟ میں تمہیں کیا بتائوں گا؟۔ ان میں سے بعض نے کہا ہاں اور بعض نے کہا نہیں۔ جس پر جوہا نے کہا پھر جو جانتے ہیں وہ ان کو سکھائیں جو نہیں جانتے اور منبر سے نیچے اتر گیا۔
بالکل اسی طرح ہمیں ہمارے حکمران بھی کچھ سکھانے کی بجائے چکر دینے میں ہی مصروف ہیں، ورنہ تو موبائل فون میں ہی اتنے فنکشن ہیں کہ دنیا ہماری انگلیوں پر ناچ سکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button