فرقہ وارانہ دہشت گردی اور نوجوان کا مستقبل
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
فرقہ واریت کا عفریت پاکستان کے سماجی و سیاسی نظام کو دہائیوں سے جکڑے ہوئے ہے۔ یہ محض ایک مسلکی یا مذہبی تنازع نہیں، بلکہ دہشت گردی کے وسیع تر بیانیے کا ایک خطرناک جز ہے جو ریاست کے استحکام کو متزلزل کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔ فرقہ واریت کی جڑیں اتنی گہری ہو چکی ہیں کہ اب یہ مسئلہ صرف مقامی تنازعات تک محدود نہیں رہا بلکہ عالمی طاقتوں کے مفادات، ریاستی پالیسیوں کی ناکامی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی پاکستان میں ایک ایسا عفریت ہے جو نہ صرف ہماری قومی سلامتی بلکہ ہماری اجتماعی سماجی ڈھانچے کو بھی گہری زک پہنچا رہا ہے۔ یہ مسئلہ محض فرقہ وارانہ تنازع نہیں بلکہ ایک پیچیدہ، ہمہ جہتی اور خطرناک چیلنج ہے جس میں شدت پسندی، نوجوانوں کی بھرتی، اور غیر مستحکم سیاسی اور سماجی ماحول کا گٹھ جوڑ شامل ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک کی کامیابیاں بلاشبہ اہم ہیں، لیکن ان کا اصل پیمانہ یہ ہونا چاہیے کہ کتنے نوجوان عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہونے سے باز رہے اور کتنے موجودہ شدت پسند اپنے نظریات ترک کر کے معمول کی زندگی کی طرف لوٹے۔ بدقسمتی سے، اس پہلو پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی، اور یہی وہ خامی ہے جس نے فرقہ وارانہ دہشت گردی کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
فرقہ وارانہ دہشت گردی کے فروغ کے پیچھے کئی اسباب ہیں، جن میں سب سے نمایاں نظریاتی شدت پسندی ہے۔ عسکریت پسند گروہ فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکا کر نوجوانوں کو اپنے بیانیے کا اسیر بناتے ہیں۔ وہ مذہب کی تشریح کو مسخ کر کے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے اقدامات ایک ’’ مقدس جدوجہد ‘‘ کا حصہ ہیں۔ اس نظریاتی اثر و رسوخ کو توڑنے کے لیی اب تک جو اقدامات کیے گئے ہیں، وہ ناکافی ثابت ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اکثر کامیابی کا پیمانہ اس امر پر بھی رکھا جاتا ہے کہ کتنے شدت پسند یا ان کے رہنما ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ یہ نقطہ نظر بنیادی طور پر غلط ہے۔ دہشت گردوں کی تعداد میں کمی کو صرف جسمانی طور پر ختم کرنا کافی نہیں، اس کے لیے ان کے نظریاتی اور تنظیمی ڈھانچے کو ختم کرنا ضروری ہے۔ آج بھی شدت پسند گروہ نوجوانوں کو اپنے مقاصد کے لیے بھرتی کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں، اور یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ ہمارا نظام ان نوجوانوں کو عسکریت پسندی سے باز رکھنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ ناکامی دراصل ایک واضح اشارہ ہے کہ صرف فوجی کارروائیاں یا طاقت کا استعمال مسئلے کا مستقل حل فراہم نہیں کر سکتا۔
یہ سمجھنا ناگزیر ہے کہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک جامع اور طویل مدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اس حکمت عملی میں نوجوانوں کے لیے تعلیمی، اقتصادی، اور سماجی مواقع پیدا کرنے کو اولین ترجیح دی جائے۔ جن علاقوں میں شدت پسندی زیادہ ہے، وہاں ریاستی وسائل کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے تاکہ عوام کو یہ محسوس ہو کہ ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ان نوجوانوں کے لیے بحالی پروگرام ترتیب دئیے جائیں جو شدت پسند گروہوں سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں، تاکہ انہیں معاشرے میں دوبارہ شامل ہونے کا موقع ملے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ فرقہ واریت کے اس عفریت کو صرف ایک مذہبی یا مسلکی مسئلہ سمجھنے کے بجائے اسے ایک سیاسی، سماجی اور نظریاتی چیلنج کے طور پر لیں۔ اس کے لیے تمام متعلقہ فریقین کو مل کر ایک متحدہ حکمت عملی بنانی ہوگی، جس میں ریاستی ادارے، سیاسی قیادت، مذہبی رہنما، اور سول سوسائٹی مل کر کام کریں۔ جب تک ہم ان بنیادی اسباب کو ختم نہیں کرتے جو فرقہ وارانہ دہشت گردی کو ہوا دیتے ہیں، تب تک نہ صرف یہ مسئلہ جاری رہے گا بلکہ ہمارے معاشرے کو مزید نقصان پہنچائے گا۔
فرقہ واریت کو اگر دہشت گردی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ شدت پسند تنظیمیں اسے اپنے بیانیے کے فروغ اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ یہ تنظیمیں مختلف مسالک کے درمیان موجود نظریاتی اختلافات کو ہوا دے کر ان علاقوں میں عدم استحکام پیدا کرتی ہیں جہاں ریاستی کمزوری یا سماجی ناہمواری پہلے سے موجود ہو۔ کرم جیسے علاقے، جو نہ صرف جغرافیائی بلکہ سماجی و ثقافتی طور پر بھی حساس ہیں، شدت پسندوں کے لیے ایک آسان ہدف بن جاتے ہیں۔ یہاں فرقہ واریت کے ذریعے نہ صرف مقامی تنازعات کو ہوا دی جاتی ہے بلکہ ریاست کو کمزور کر کے اپنے سیاسی مقاصد کو بھی آگے بڑھایا جاتا ہے۔فرقہ واریت کو ہوا دینے میں سیاسی عناصر کا کردار بھی ناقابلِ نظرانداز ہے۔ ماضی میں مختلف سیاسی جماعتوں اور علاقائی طاقتوں نے فرقہ واریت کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، جس سے یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہو گیا۔ کچھ عناصر اپنی مقامی یا قومی سیاست کو فروغ دینے کے لیے مسلکی اختلافات کو بڑھاوا دیتے ہیں، جبکہ کچھ سیاستدان ایسے تنازعات کو محض ووٹ بینک کے لیے نظرانداز کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، فرقہ واریت صرف ایک سماجی یا مذہبی مسئلہ نہیں رہتا بلکہ سیاسی اور اقتصادی محرومیوں کا بھی عکس بن جاتا ہے۔
فرقہ واریت کے سیاسی پہلوئوں میں بین الاقوامی مداخلت بھی ایک اہم عامل ہے۔ عالمی طاقتیں، جو اپنے اسٹریٹجک مفادات کے لیے خطے میں اثر و رسوخ قائم رکھنا چاہتی ہیں، مقامی تنازعات کو ہوا دے کر اپنی موجودگی کو مضبوط کرتی ہیں۔ فرقہ واریت کے ذریعے نہ صرف مقامی سطح پر تنازعات کو بڑھایا جاتا ہے بلکہ ان کے اثرات کو عالمی سطح پر بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ نظریاتی سطح پر، فرقہ واریت کے بیانیے کا موثر جواب دینا ہوگا۔ دہشت گرد تنظیموں کا بیانیہ ان کے لیے سب سے بڑا ہتھیار ہے، جس کے ذریعے وہ نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں۔ اس بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے مذہبی قیادت، سول سوسائٹی اور میڈیا کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ مدارس کے نصاب میں اصلاحات، تعلیمی اداروں میں بین المسالک ہم آہنگی کے پروگرام، اور میڈیا کے ذریعے ایک متوازن اور مثبت بیانیہ پیش کرنا ان اقدامات میں شامل ہو سکتے ہیں۔ فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے تمام متعلقہ فریقین کا ایک پلیٹ فارم پر آنا اور ایک جامع حکمت عملی اپنانا ناگزیر ہے۔ یہ صرف ایک علاقہ کا نہیں، بلکہ پورے پاکستان کے امن اور استحکام کے لیے اہم ہے۔ اس عفریت سے نمٹنے کے لیے اپنے سیاسی رویے، ریاستی حکمت عملی اور سماجی رویوں کا ازسرِ نو جائزہ لینا ہوگا تاکہ آنے والی نسلیں ایک محفوظ اور پرامن ماحول میں پروان چڑھ سکیں کیونکہ فرقہ ورانہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔