چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تعیناتی کیس: جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل نے کیس سننے سے معذرت کرلی

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عالیہ نیلم کی تعیناتی کیخلاف سماعت کرنے والے آئینی بینچ کے ممبران جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال مندوخیل نے کیس سننے سے معذرت کرلی۔
سوموار کے روز دورانِ سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سینیارٹی کوئی بنیادی حق نہیں ہے اور ماضی میں بھی سینیارٹی سے ہٹ کر چیف جسٹس کی تعیناتی کی مثالیں موجود ہیں۔
تاہم جسٹس مندوخیل نے یہ کہ کر کیس کسی دوسرے آئینی بینچ کو منتقل کرنے کا حکم دے دیا کہ وہ اور جسٹس امین الدین خان دونوں جوڈیشل کمیشن کے ممبر ہیں۔ ان کا کہنا تھا وہ دونوں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی تعیناتی کی منظوری دینے والے جوڈیشل کمیشن کا حصہ تھے۔
جسٹس مندوخیل کا مزید کہنا تھا کہ اس کیس میں جوڈیشل کمیشن کو بھی فریق بنایا گیا ہے اس لیے کمیشن کے دو رکن یہ کیس نہیں سن سکتے ہیں۔
جسٹس عالیہ نیلم: لاہور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس
رواں سال جولائی میں منتخب ہونے والی جسٹس عالیہ نیلم لاہور ہائی کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس ہیں۔ وہ 2013 میں لاہور ہائی کورٹ کی جج مقرر ہوئیں اور انھیں 2015 میں مستقل جج تعینات کیا گیا۔
جولائی میں ہونے والے سپریم جوڈیشنل کمیشن کے اجلاس میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے عہدے کے لیے تین سب سے سینیئر ججز جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس عالیہ نیلم کے نام شامل تھے جس پر کمیشن نے جسٹس عالیہ نیلم کا انتخاب کیا۔
لاہور ہائیکورٹ کی لگ بھگ 150 برس کی تاریخ میں گنی چنی خواتین ہی جج بنیں لیکن ان میں سے جسٹس عالیہ نیلم پہلی خاتون ہیں جن کو یہ اعزاز ملا۔ اب تک پانچ خواتین لاہور ہائیکورٹ کی جج بن چکی ہیں۔
پہلی مرتبہ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں لاہور ہائیکورٹ میں خواتین ججز کا تقرر کیا گیا۔ ان میں جسٹس فخرالنسا کھوکھر، شاعر مشرق محمد اقبال کی بہو ناصرہ جاوید اقبال اور سابق وزیر ریحانہ سرور کی بہن طلعت یعقوب لاہور ہائیکورٹ کی جج مقرر ہوئیں۔
فوجداری قانون میں مہارت رکھنے والی جسٹس عالیہ نیلم 12 نومبر 1966 کو پیدا ہوئیں۔ وہ 1995 میں وکالت کی ڈگری لینے کے بعد 1996 میں وکیل بنیں۔
فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے مطابق انھوں نے آئینی معاملات، وائٹ کالر کرائم، دیوانی، فوجداری، انسداد دہشت گردی کے قوانین، نیب، بینکنگ جرائم، خصوصی مرکزی عدالتوں کے قانون اور بینکنگ قوانین سے متعلق پریکٹس کر رکھی ہے۔
اس کے مطابق ’بار میں پریکٹس کرتے ہوئے انھوں نے کامیابی کے ساتھ متعدد مقدمات لڑے جن میں دیوانی قانون، فوجداری قانون، بینکنگ قانون اور انسداد دہشت گردی کے قوانین شامل ہیں۔‘
فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے مطابق انھوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں 2009 سے فروری 2013 تک تقریباً 91 مقدمات، لاہور ہائی کورٹ میں تقریباً 850 مقدمات اور ٹرائل کورٹس میں تقریباً 1473 مقدمات لڑے۔
وہ 2013 میں لاہور ہائی کورٹ کی ایڈجسٹ جج مقرر ہوئیں اور انھیں 2015 میں مستقل جج تعینات کیا گیا۔
جسٹس عالیہ نیلم نے کئی اہم مقدمات پر فیصلے کیے۔ وہ وزیر اعظم شہباز شریف کی منی لانڈرنگ کے الزام میں ضمانت منظور کرنے والے تین رکنی بنچ کی رکن تھیں۔
جسٹس عالیہ نیلم نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی نو مئی کے واقعات پر درج مقدمات کی انسداد دہشت گردی عدالت کے ضمانت مسترد کرنے کے خلاف درخواست پر فیصلہ دیا اور ضمانت کی درخواستوں کو بحال کیا۔
جسٹس عالیہ نیلم نے نو مئی کے مقدمات میں گرفتار خواتین خدیجہ شاہ اور عالیہ حمزہ سمیت دیگر ملزمان کی ضمانتیں منظور کیں۔
ججز کی تعیناتی میں سینیارٹی کا تنازع
جسٹس عالیہ نیلم سینیارٹی کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر تھیں اور اسی وجہ سے قانونی حلقوں میں ان کے انتخاب پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا تھا۔
بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ مارچ 1996 کے الجہاد کیس میں یہ طے ہوا تھا کہ سب سے سینیئر جج ہی ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر ہوگا اور اس معاملے میں سینیارٹی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
1996 کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ لاہور ہائیکورٹ میں کسی جج کا تقرر سینیارٹی کے اصول سے ہٹ کر کیا گیا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں جسٹس فخرالنسا کھوکھر کو سینیارٹی کے اصول کے تحت نظر انداز کیا گیا اور ان کی جگہ جسٹس افتخار حسین چودھری کو چیف جسٹس مقرر کیا گیا. 1996 میں اسی فیصلے کی بنیاد پر اُس وقت کے سب سے سینیئر جج جسٹس خلیل الرحمان خان، جنھیں وفاقی شرعی عدالت بھیج دیا گیا تھا، کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مقرر کیا گیا۔
مارچ 2024 کے دوران جسٹس ملک شہزاد احمد خان لاہور ہائیکورٹ کے وہ آخری چیف جسٹس تھے جن کا تقرر سینیارٹی کی بنیاد پر ہوا تھا۔