دنیا کی عظیم ترین سڑک، شاہراہ قراقرم

تحریر: یاسر دانیال صابری
شاہراہ قراقرم، جسے دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی سڑک بھی کہا جاتا ہے، ایک ایسا منصوبہ ہے جو نہ صرف انجینئرنگ کی ایک عظیم مثال ہے بلکہ پاکستان اور چین کے درمیان روابط کو مضبوط بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کن کامیابیوں کا مظاہرہ دکھایا اور یہ سڑک دنیا بھر میں ایک منفرد اور تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز 1966ء میں ہوا تھا اور اس کا مقصد پاکستان اور چین کے درمیان ایک موثر رابطہ قائم کرنا تھا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت، سیاحت اور ثقافتی تبادلے کے امکانات کو بڑھایا جا سکے۔ اس شاہراہ کی تعمیر ایک بہت بڑا چیلنج تھا کیونکہ یہ دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں میں سے ایک، قراقرم، سے گزرتی ہے۔ ان پہاڑوں کی بلندی اور قدرتی آفات جیسے برفباری، لینڈ سلائیڈنگ، اور برفانی طوفانوں نے اس سڑک کی تعمیر کو نہایت پیچیدہ اور دشوار بنا دیا تھا۔
پہلے پہل اس منصوبے کو عالمی سطح پر ایک ناممکن کام سمجھا گیا تھا۔ ایک یورپی کمپنی نے فضائی سروے کے بعد اس سڑک کی تعمیر کو ’’ ناممکن‘‘ قرار دیا تھا، لیکن پاکستان اور چین کے حکام نے اپنے عزم اور عبات کے ساتھ اس عظیم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا۔ اس منصوبے میں دونوں ممالک کے 50000سے زیادہ کارکنوں نے حصہ لیا، اور ان میں سے 810پاکستانی اور 82چینی اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ شاہراہ قراقرم کا آغاز حسن ابدال سے ہوتا ہے جو صوبہ پنجاب میں واقع ہے، اور اس کے بعد یہ مختلف اہم شہروں اور علاقوں سے گزرتی ہے۔ یہ سڑک پاکستان کے مختلف قدرتی منظرناموں، وادیوں اور پہاڑی سلسلوں سے گزرتی ہوئی چین کے شہر کاشغر تک پہنچتی ہے۔ پاکستان میں اس سڑک کا راستہ کئی اہم مقامات سے گزرتا ہے جیسے ہری پور ،جہاں سبزہ زار، پہاڑ اور دریا کے مناظر سیاحوں کو دلکش منظر فراہم کرتے ہیں۔ ایبٹ آباد، یہاں کا موسم معتدل اور قدرتی ماحول بہت حسین ہوتا ہے۔ مانسہرہ ،یہ علاقہ بھی خوبصورت وادیوں اور بلند پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ بشام ،جہاں کے سنگلاخ پہاڑ اور گہرے دریا شاہراہ قراقرم کی خاص پہچان ہیں۔ داسو، یہاں بھی سڑک قدرتی مناظرات کے ساتھ چلتی ہے۔ چلاس ،یہ ایک سنگلاخ پہاڑی علاقہ ہے، جسے ’’ گلگت بلتستان کا دروازہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ گلگت، یہاں سے شاہراہ قراقرم ایک طرف نانگا پربت کے مشہور پہاڑوں کے قریب سے گزرتی ہے، اور دوسری طرف ہنزہ کی وادیوں کی خوبصورتی کو اپنے دامن میں سمیٹتی ہے۔خنجراب پاس، یہ وہ مقام ہے جہاں شاہراہ قراقرم پاکستان اور چین کی سرحد کو چھوتی ہے۔
شاہراہ قراقرم کی تعمیر نے ایک طرف جہاں عالمی سطح پر پاکستان اور چین کی شراکت داری کو ثابت کیا، وہیں دوسری طرف اس نے سیاحتی لحاظ سے بھی دنیا بھر کی توجہ حاصل کی۔ شاہراہ قراقرم کا راستہ ایسے قدرتی مناظرات سے گزرتا ہے جو سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ کوہستان، اس علاقے میں بلند پہاڑوں اور نیچے بہتے ہوئے دریاں کا منظر انتہائی دلکش ہے۔ ان پہاڑوں پر کبھی برف باری ہوتی ہے تو کبھی گلابی آسمان کی روشنی ان پہاڑوں کو سونے جیسے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔ نانگا پربت ،یہ دنیا کے بلند ترین پہاڑوں میں شمار ہوتا ہے اور اس کے دامن میں واقع فیری میڈوز ایک خوبصورت جھیل ہے جسے دیکھ کر سیاحوں کو ایک جنت کا احساس ہوتا ہے۔ رائے کوٹ پل، یہ پل نانگا پربت کے دامن میں واقع ہے اور یہاں کا منظر ہر سیاح کے لیے یادگار ہوتا ہے۔ شاہراہ قراقرم نہ صرف ایک سڑک ہے بلکہ یہ دونوں ممالک کے اقتصادی اور تجارتی روابط کو بڑھانے کا اہم ذریعہ بھی ہے۔ اس سڑک کی تعمیر کے بعد چین سے پاکستان تک تجارتی سامان کی ترسیل آسان ہو گئی، اور دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات میں اضافہ ہوا۔ چین کے شہر کاشغر سے پاکستان کے مختلف حصوں تک مال کا آنا جانا ممکن ہوا، اور اس کے ذریعے دونوں ممالک کے کاروباری افراد کو ایک دوسرے کے بازاروں تک رسائی حاصل ہوئی۔ اس سڑک نے نہ صرف تجارتی لحاظ سے بلکہ سیاحت کے شعبے میں بھی ترقی کی، کیونکہ اس سے سیاحوں کو دونوں ممالک کی ثقافت اور تاریخ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ سڑک نہ صرف ایک تجارتی اور اقتصادی اہمیت کی حامل ہے بلکہ اس کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔ شاہراہ قراقرم کے راستے میں وہ علاقے واقع ہیں جہاں صدیوں سے مختلف اقوام اور ثقافتیں آباد رہی ہیں۔ ان علاقوں میں ہنزہ اور گلگت کی ثقافت، روایات، اور ان کے مخصوص رہن سہن کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہ علاقے اپنی تہذیب، فنون، زبانوں اور روایات کے لحاظ سے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
شاہراہ قراقرم پاکستان اور چین کے درمیان دوستی اور تعاون کی علامت بن چکی ہے۔ یہ سڑک دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات کو مزید مضبوط کرتی ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے شاہراہ قراقرم ایک اہم شراکت داری کا ذریعہ بنی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک دوسرے کے بازاروں تک رسائی اور کاروباری مواقع بڑھانے کے لیے یہ سڑک اہمیت رکھتی ہے۔ شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے دوران جو چیلنج پیش آئے، وہ نہ صرف اس کے انجینئرنگ پہلوئوں کے حوالے سے تھے بلکہ اس کے قدرتی ماحول کی حفاظت اور اس میں بہتری لانے کے لیے بھی کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ اس سڑک کی مستقبل میں مزید ترقی اور اسے بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، تاکہ یہ سڑک مزید محفوظ اور موثر بن سکے۔ شاہراہ قراقرم دنیا کی بلندترین اور سب سے دشوار گزار سڑکوں میں سے ایک ہے، جو پاکستان اور چین کو آپس میں ملاتی ہے۔ اس سڑک کی تعمیر اور اس کی موجودہ حالت میں کئی رکاوٹیں آئیں، جن میں قدرتی، ماحولیاتی اور تکنیکی مسائل شامل ہیں۔
شاہراہ قراقرم کی تعمیر اور اس کی دیکھ بھال کے دوران قدرتی آفات، جیسے لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب اور برفباری ایک بڑی رکاوٹ رہی ہیں۔ ان قدرتی آفات کی وجہ سے سڑک کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور کئی مرتبہ اس پر سفر بند ہو جاتا ہے۔شاہراہ قراقرم کا راستہ بلند پہاڑی سلسلے سے گزرتا ہے، جہاں تک رسائی مشکل ہے۔ ان بلند مقامات پر سڑک کی تعمیر اور اس کی مرمت کے دوران انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے شاہراہ قراقرم کی تعمیر ایک طویل اور مہنگا عمل تھا۔ اس کی تکمیل کے دوران مالی مشکلات اور وسائل کی کمی بھی ایک بڑی رکاوٹ تھی۔کچھ حصوں میں سیاسی عدم استحکام اور سکیورٹی کے مسائل بھی تھے، خاص طور پر وہ علاقے جہاں متنازعہ سرحدیں اور دہشت گردی کے خطرات تھے۔ اس کی وجہ سے شاہراہ پر سفر کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے علاقے کے ماحولیاتی توازن پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی، قدرتی وسائل کا استحصال، اور مقامی حیاتیات کی حفاظت کے مسائل بھی اس سڑک کی تعمیر کے دوران ایک چیلنج بنے۔
سڑک کی تعمیر کے دوران فنی مشکلات کا سامنا بھی کیا گیا۔ پہاڑی سلسلوں میں سڑک کی کھدائی اور پلوں کی تعمیر نے انجینئرنگ کے لحاظ سے کئی پیچیدہ مسائل پیدا کیے۔ شاہراہ قراقرم کو ان رکاوٹوں کے باوجود کامیابی کے ساتھ مکمل کیا گیا اور یہ اب پاکستان اور چین کے درمیان اہم تجارتی اور سفری راستہ ہے۔ شاہراہ قراقرم نہ صرف ایک سڑک ہے بلکہ ایک عظیم منصوبہ ہے جس نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ یہ سڑک پاکستان اور چین کے درمیان ایک اہم رابطہ ہے جو دونوں ممالک کی اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی ترقی کا ذریعہ بنی ہے۔ اس کا قدرتی منظر اور تاریخی اہمیت اسے ایک نیا سنگ میل سمجھا جاتا ہے جو نہ صرف سیاحوں کے لیے ایک خواب ہے بلکہ عالمی سطح پر دوستی، تعاون اور انسانیت کی کامیابی کی ایک عظیم مثال بھی ہے۔