ColumnImtiaz Aasi

علی امین کی بے بسی اور پی ٹی آئی کا احتجاج

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
عجیب تماشا ہے حکومت ملک میں امن و امان چاہتی ہے دوسری طرف سیاسی رہنمائوں کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہے۔ بھلا سوچنے کی بات ہے ایک شخص جیل میں ہے اس کے خلاف 28ستمبر کو تھانہ نیو ٹائون راولپنڈی میں مقدمہ درج ہوتا ہے۔ پولیس کو قریبا دو ماہ بعد ایسے وقت عمران خان کو اس مقدمہ میں شامل تفتیش کرنے کی ضرورت پڑی ہے جب پی ٹی آئی کے بانی نے احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔ کوئی محب وطن ملک میں امن و امان خراب کرنے کا حامی نہیں ہو سکتا لیکن حکومت کو بھی سیاست دانوں سے سیاسی طور پر نبردآزما ہونا چاہیے۔ یہ نہیں بات بات پر کسی کے خلاف مقدمہ درج ہو جائے۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی کوئی حکومت پائیدار نہیں ہوتی پھر فارم 47کی حکومت کو ویسے بھی پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے جن قوموں کے خون میں کرپشن رچ بس جائے وہ کبھی انقلابی نہیں ہو سکتیں۔ اس حقیقت کے باوجود کوئی جماعت طاقتور حلقوں کی آشیر باد کے بغیر اسلام آباد میں احتجاج اور دھرنے نہیں دے سکتی عمران خان کا عوام کو اسلام آباد کی طرف رخ کرنے کی کال دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ نواز شریف حکومت کے خلاف عمران خان اور علامہ طاہر القادری کا طویل دھرنا ایسے تو نہیں تھا حکومت نے دھرنے والوں سے کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔ اب تو اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم بھی آگیا ہے پی ٹی آئی کو قانون کے خلاف احتجاج کی اجازت نہ دے۔ سوال ہے کون سا قانون یہاں تو اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے پی ٹی آئی کو جلسہ کی اجازت دینے کے باوجود عوام کو روکنے کے لئے ناکے لگائے گئے البتہ اس حکم میں ایک بات کا اضافہ ہوا ہے حکومت پی ٹی آئی سے مذاکرات کرے۔ علی امین گنڈا پور لوگوں کو اسلام آباد کی طرف دو مرتبہ لا چکاہے اب تیسری مرتبہ اس کے چیف سیکرٹری کو یاد آیا آئی کوئی سرکاری افسر پی ٹی آئی کے احتجاج کیلئے سرکاری وسائل استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔ ہمیں تو علی امین کی بے بسی پر ہنسی آتی ہے وہ چیف سیکرٹری کو بارہا کوشش کے باوجود تبدیل نہیں کرا سکا۔ چیف سیکرٹری نے ہدایت نامہ ٹھیک جاری کیا ہے سوال ہے اس سے قبل چیف سیکرٹری نے اس طرح کا ہدایت نامہ جاری کیوں نہیں کیا؟ چیف سیکرٹری کے ہدایت نامہ سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا اب کی بار حکومت بوکھلا گئی ہے۔ حیرت تو اس پر ہے علی امین گنڈا پور وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اپنے صوبے سے سرکاری گاڑیوں کے ساتھ قافلے لا چکا تھا۔ لازمی بات ہے چیف سیکرٹری کو اس مرتبہ وفاق سے ہدایت ملی ہو گی کیوں کہ پی ٹی آئی کے احتجاج میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں کے پی کے عوام کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ حکومت کے خوف کا یہ عالم ہے گزشتہ کئی روز سے جڑواں شہروں میں کنٹنیرز رکھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ ہر روز ایک نیا شوشہ چھوڑ جا رہاہے عمران خان مدینہ منورہ ننگے پائوں گیا تھا۔ اچھی بات ہے عمران خان ننگے پائوں مدینہ منورہ پہنچا تو کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ مدینہ منورہ مسلمانان عالم کی عقیدت کا مرکز و محور ہے۔ سرکار دو جہاںؐ نے فرمایا تھا مدینہ منورہ تمہارے کے لئے خیر و برکت کی جگہ ہے۔ سلطان نور الدین زنگی اور مولانا رومی دونوں ننگے پائوں شہر نبیؐ میں داخل ہوتے تھے۔ اس ناچیز کو سرکار دو عالمؐ کے روضہ اقدس سے چند سو میٹر مسافت پر رہنے کا شرف حاصل ہے، قدمین شریفین میں تہجد ہمارا معمول تھا۔ زائرین کی بہت بڑی تعداد یہاں نماز ادا کرکے دلوں کو منور کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے اس کے کئی ہزار کارکن اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ وفاقی پولیس نے احتجاجیوں سے نمٹنے کے لئے ایک نیا فارمولا ایجاد کیا ہے۔ آنسو گیس کے شیل تو ہوتے ہیں اس مرتبہ آنکھوں میں مرچیں ڈالنے کی خبریں ہیں۔ ذمہ داروں کو بھی کچھ احساس کرنا چاہیے ملک میں امن و امان قائم رکھنا ہے تو سیاسی رہنمائوں کے خلاف بے بنیاد مقدمات کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اس حقیقت کے باوجود عدالتیں ٹھوس شہادت کے بغیر کسی کو سزا نہیں دے دیتی فوجداری قوانین کا یہی تقاضا ہے۔ عمران خان کے اقتدار میں رہتے ہوئے کسی کے خلاف کوئی زیادتی کی ہے تو اب درگزر کرنا چاہیے۔ ہمارا مذہب عفو اور درگزر کی ہدایت دیتا ہے۔ خبر تھی آرمی چیف نے کسی اجلاس میں علی امین گنڈا پور کی تعریف کی ہے۔ اچھی بات ہے آرمی چیف ہمارے ہیں اور سیاسی جماعتیں بھی ہماری ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے حکومت پی ٹی آئی سے مذاکرات کرے تو اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ حکومتی ارکان میں کچھ لوگ تو ایسے ہوں گے جن کی عمران خان سے علیک سلیک اچھی ہوگی انہیں یہ ذمہ داری سونپی جائے۔ یہ کیسے ممکن ہے عمران خان کسی کی بات نہیں مانے گا۔ ہم یہ بات دعویٰ سے کہتے ہیں حکومت پی ٹی آئی کے بانی اور دیگر رہنمائوں اور ورکرز کے خلاف بے بنیاد مقدمات ختم کرنے کا اعلان کرے۔ اگر حکومت مقدمات ختم کرکے بانی پی ٹی آئی کو رہائی دے تو کیا قباحت ہے۔ ہاں سانحہ نو مئی کے معاملے میں جو لوگ جیلوں میں ہیں انہیں ضمانتوں پر رہائی دے کر مقدمات دہشت گردی کی عدالتوں میں چلائے جا سکتے ہیں۔ جہاں تک عمران خان کی مینڈیٹ واپس کرنے کی بات ہے وہ تو ممکن نہیں ۔ فارم 47کی حکومت چلنے دیں اگر ملک کے لئے اچھا کام کرتی ہے تو کیا حرج ہے۔ نئے انتخابات کا انتظار کر لیا جائے۔ جے یو آئی کے امیر کو دیکھ لیں وہ پی ٹی آئی کے احتجاج کا حصہ کیوں نہیں بنتے انہیں آگے کوئی منزل دکھائی نہیں دے رہی ہے لہذا بانی پی ٹی آئی ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام آنے دیں۔ ہمارا ملک پہلے سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے لہذا محب وطن سیاست دانوں کو چاہیے وہ ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے حکومت کا بھرپور ساتھ دیں۔ یہ بات درست ہے پی ٹی آئی کے ساتھ عوام ضرور ہیں وہ ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے تاہم ملک کے عوام کوئی انقلاب نہیں لا سکتے لہذا حکومت سے بات چیت کرکے دونوں فریق کسی بات پر اتفاق رائے قائم کرکے اس ملک کو ایک بار پھر امن کو گہوارہ بنانے کی کوشش کریں۔

جواب دیں

Back to top button