بند گلی میں تحریک انصاف کی سیاست
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اس وقت سیاسی نقل و حرکت کی صورت میں زوال و مشکلات کا شکار ہے، مزید برآں پارٹی اندرونی انتشار کی شکار ہو کر اپنے ہی بوجھ تلے دبتی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے انتشار کا بڑا سبب اس کی داخلی کمزوریاں اور ناقص حکمت عملی ہے۔ پارٹی کے اندر رہنماں کے ذاتی مفادات اور گروہی سیاست پارٹی کو پہلے ہی کھوکھلا اور موجودہ قیادت کا فقدان اور ایک مضبوط، یکجا قیادت کی عدم موجودگی پارٹی کو مزید غیر مستحکم کر چکی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی غیر موجودگی میں کسی قابل رہنما کا نہ ہونا اور ان کے ارد گرد کمزور اور ذاتی مفادات رکھنے والے افراد کا جمع ہونا تحریک انصاف کی جڑیں ہلا رہا ہے۔ موجودہ قیادت کی خامیاں اس حد تک ہیں کہ تحریک انصاف کا تنظیمی ڈھانچہ یکجا ہونے کے بجائے دھڑے بندی میں بٹ چکا ہے۔ وہ خود اپنے مفادات اور ذاتی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہ گروہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے بجائے مبینہ سازشوں میں مصروف ہیں۔ ایک اور اہم عنصر بانی پی ٹی آئی کی رہائی میں حائل ان کے مشتعل کارکنان کے رویوں کا بھی ہے۔ تحریک انصاف بین الاقوامی سطح پر جس قسم کے اقدامات کر رہی ہے اس عمل نے جماعت کی سیاسی حیثیت کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف داخلی اور خارجی سطح پر دبائو میں آچکی ہے، اور قیادت کی رہائی اور اقتدار میں واپسی کے امکانات کو کم کر دیا ہے۔
بانی پی ٹی آئی کے لیے یہ وقت سیاسی اعتبار سے فیصلہ کن ہے، جس میں ان کے قید ہونے اور ان کی جماعت کی قیادت کی ناکامی نے ایک مایوس کن منظر پیش کیا ہے۔ جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے، موجودہ حالات میں کسی بھی طرح کی بین الاقوامی مدد یا حمایت کے بغیر، پارٹی کو اپنے مستقبل کی تشکیل خود کرنی ہو گی۔ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کو اپنی صفیں درست کرنی ہوں گی۔ اگر پارٹی اپنی داخلی مشکلات اور قیادت کی کمی کو حل نہیں کرتی، تو اسے مستقبل میں مزید ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جماعت کو درپیش سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کے پاس قابل قیادت کی کمی ہے، اور اس کی موجودہ قیادت داخلی انتشار کو حل کرنے اور ایک متفقہ پالیسی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ تحریک انصاف کی حالیہ صورتحال، جو داخلی اختلافات، کمزور قیادت، اور سیاسی انتشار کی گہرائیوں میں گھری ہوئی ہے، ہمیں ایک ایسی جماعت کا منظرنامہ پیش کرتی ہے جو کبھی ایک نئے پاکستان بنانے کا دعویٰ لے کر سامنے آئی تھی۔ لیکن آج، یہ جماعت ایک بند گلی میں کھڑی ہے جہاں داخلی کمزوریوں اور اخلاقی بحرانوں نے اس کے اصل مقاصد کو دھندلا دیا ہے۔ تحریک انصاف کے بیشتر حامیوں میں جو بدتہذیبی اور بے اصولی کا کلچر ابھر رہا ہے، وہ نہ صرف خود ان پر اثر انداز ہو رہا ہے بلکہ پارٹی کے نوجوان حامیوں کی اخلاقی تربیت اور قومی و بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی شبیہ کو بھی داغدار کر رہا ہے۔
تحریک انصاف کے ابتدائی دنوں میں جماعت نے نوجوانوں کو سیاسی نظام میں شمولیت کے لیے ایک نیا پلیٹ فارم دیا۔ نوجوان، جو عموماً سیاست سے دور رہتے تھے، بانی پی ٹی آئی کے ’’ تبدیلی‘‘ کے نعرے سے متاثر ہو کر بڑی تعداد میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، تحریک انصاف کے بعض رہنماں کی ترجیحات اور کارکنوں کے رویوں میں اخلاقی گراوٹ کا رجحان ابھرنا شروع ہو گیا۔ مختلف جلسوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مخالفین کے خلاف نازیبا زبان اور بدتمیزی نے ایک غیر مہذب کلچر کو فروغ دیا۔ اس بدتہذیبی کے کلچر کا اثر صرف پارٹی کے مخالفین تک محدود نہیں رہا، بلکہ یہ خود پارٹی کے اندر بھی سرایت کر چکا ہے۔یہ کلچر خاص طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے بڑھا ہے، جہاں تحریک انصاف کے حامیوں نے مخالفین کے خلاف بیہودہ زبان کا استعمال کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف جماعت کے حامیوں بلکہ خود پارٹی کے کئی رہنماں کے بیانات میں بھی اس بدتہذیبی کا اظہار نظر آتا ہے۔ یہ بدتہذیبی صرف سیاسی مخالفین تک محدود نہیں رہی، بلکہ اب یہ کلچر ملکی سطح پر نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت کو بھی متاثر کر چکا ہے۔ وہ نوجوان، جو کبھی ایک بہتر پاکستان کا خواب دیکھتے تھے، اب ایک ایسے کلچر میں ڈھل چکے ہیں جس میں بدتہذیبی، غیر شائستگی، اور اخلاقی اقدار کی کمی نظر آتی ہے۔
تحریک انصاف کے بعض کارکنان اور رہنما بیرون ملک بھی مخالفین کے خلاف بدتمیزی کے مظاہرے کرتے رہے ہیں۔ مختلف ممالک میں پاکستانی کمیونٹی کے اجتماعات اور دیگر مواقع پر مخالفین کے خلاف نازیبا رویے اور بیہودہ زبان استعمال کی جاتی رہی ہے۔ یہ رویہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی شبیہ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ بیرون ملک پاکستانی کمیونٹی، جو عموماً پاکستان کی بہتری کے لیے کام کرتی ہے، اب تحریک انصاف کے اس غیر شائستہ کلچر کی وجہ سے بدنام ہو رہی ہے۔ مختلف مقامات پر احتجاج اور جلسوں میں سیاسی مخالفین کے خلاف شدید بدتمیزی اور نازیبا زبان نے پاکستانی کمیونٹی کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔ بیرون ملک پاکستانی نوجوان، جو سیاست سے دور رہتے تھے، اب تحریک انصاف کے اس کلچر کو اپنا رہے ہیں، جس سے ان کی اخلاقی تربیت اور شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
تحریک انصاف کی قیادت نے بدتہذیبی کے اس بڑھتے ہوئے کلچر کو روکنے میں موثر اقدامات نہیں کیے۔ بانی پی ٹی آئی ور دیگر اعلیٰ قیادت نے اکثر ان رویوں کو نظرانداز کیا یا بعض مواقع پر اس کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ جس کے نتیجے میں یہ تاثر ابھرا کہ تحریک انصاف نے اخلاقیات کو اپنے سیاسی ایجنڈے میں اہمیت نہیں دی۔ اخلاقی قدروں کی عدم موجودگی نے پارٹی کے اندر ایک ایسا ماحول بنا دیا ہے جس میں مخالفین کے خلاف بدتمیزی ایک معمول بن چکی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ان کے کارکن اور حامی ان کے بیانات اور رویوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ جب قیادت خود اخلاقیات کو نظرانداز کرے گی تو اس کا اثر نیچے تک پہنچے گا اور کارکنوں میں بدتہذیبی اور غیر شائستہ رویوں کا کلچر پروان چڑھے گا۔
بانی پی ٹی آئی کے حامیوں کے غیر اخلاقی رویوں کی وجہ سے پاکستان کی سیاست کا ایک منفی تاثر بین الاقوامی سطح پر بھی پھیل رہا ہے۔ اس طرح کے واقعات سے پاکستان کی عالمی سطح پر بدنامی ہو رہی ہے، اور پاکستانی کمیونٹی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر تحریک انصاف کو اپنے اخلاقی زوال سے نکلنا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے کلچر میں تبدیلی لانی ہوگی۔ پارٹی کی قیادت کو چاہئے کہ وہ بدتہذیبی اور غیر شائستہ زبان کے استعمال کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کرے۔ انہیں اپنے کارکنان کو تربیت دینی ہوگی کہ سیاست میں شائستگی اور احترام کا کلچر اپنائیں۔