محاصل وصولی، کارروائی کا عندیہ

امتیاز عاصی
ریاست پاکستان میں ٹیکسوں کی وصولی ہمیشہ مسئلہ رہا ہے۔ کاروباری طبقہ نے مملکت کو مطلوبہ ٹیکسوں کی وصولی سے محروم رکھنے کی بھر پور کوشش کی جس میں وہ پوری طرح کامیاب رہے۔ ماضی کی حکومتوں نے ٹیکس وصولی میں معمولی سختی کی تاجروں نے ہڑتال کی کال دے دی جس کے بعد حکومت نے پسپائی اختیار کر لی حالانکہ حکومت کو کاروباری طبقہ کے احتجاج کی پروا کئے بغیر ٹیکس وصولی کو یقینی بنانا چاہیے۔ نواز دور میں حکومت نے کاروباری لوگوں سے مطلوبہ ٹیکسوں کی وصولی کا عندیہ دیا جس کے بعد کاروباری طبقہ نے شٹر ڈائون کی کال دے دی۔ ہر حکومت نے اعتراف کیا ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس سرکاری ملازمین ادا کرتے ہیں۔ سرکاری ملازمین سے ٹیکس وصولی کا جو طریقہ کار ہے اس میں کسی قسم کی گڑبڑ کا کوئی امکان نہیں ہوتا مطلوبہ ٹیکس ملازمین کی تنخواہوں سے وضع کر لیا جاتا ہے۔ ہمارا ملک مالی لحاظ سے غریب ہے یہاں کے رہنے والے امیر ہیں بڑے بڑے لوگ ٹیکس دینے سے گریز کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور عسکری قیادت کی کاوشوں سے ہمارا ملک دیوالیہ ہوتے رہ گیا ہے ورنہ اس کے دیوالیہ ہونے میں کسر باقی نہیں تھی۔ اصولی طور پر پچاس ہزار سے زائد ماہانہ آمدن والوں کو فائلر ہونا چاہیے اگر تمام لوگ ٹیکس ادا کریں کم از کم حکومت پر Demostic Loanکا بوجھ کم ہو سکتا ہے۔ چلیں آئی ایم ایف سے حاصل کیا جانے والا قرضہ ڈالر میں ادا کرنا پڑتا ہے قومی بنکوں سے لیا جانے والے قرض پر حکومت کو پندرہ فیصد سے زائد مارک اپ ادا کرنا پڑتا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اورنگ زیب کے مطابق مملکت میں سات ہزار ارب ٹیکس کی چوری ہوتی ہے لہذا ٹیکسوں کی وصولی کے لئے ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے گرفتاریوں کا عندیہ دیا ہے۔ اس مقصد کے لئے آئندہ دو ہفتے بڑے اہم ہیں جس میں ٹیکس چوری کرنے والوں پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ جس میں 128ارب سیلز ٹیکس کی چوری ہے۔ ایک ارب ٹیکس چوری پر پانچ سال سزا ہے جب کہ ایک ارب سے زیادہ ٹیکس چوری پر دس سال قید ہے۔ حقیقت تو یہ ہے مملکت میں قانون پر عمل داری کا فقدان ہے ٹیکس نادہندگان کے خلاف قانون پر شدومد سے عمل ہوتا تو معاشی صورت حال کچھ بہتر ہو سکتی تھی۔ بیرون ملکوں میں ہر شہری خود بخود ٹیکس ادا کرتا ہے جس میں وہ بڑی ذمہ داری کا مظاہر ہ کرتے ہیں شہریوں سے ٹیکس وصولی کے لئے دوڑ دھوپ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہمارے ملک کا باوا آدم نرالا ہے یہاں لوگ ٹیکس ریٹرن کی تاریخ بڑھنے کے انتظار میں ہوتے ہیں حالانکہ لوگوں کو مقررہ تاریخ تک ٹیکس ریٹرن بھیج دینی چاہیے۔ سوال ہے ایک شخص اسلام آباد سے کراچی ہوائی جہاز سے سفر کرتا ہے مگر ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ اگر اس کی آمدن کم ہے وہ فائلر نہیں ہے تو اسلام آباد سے کراچی جانے کے سفری اخراجات کہاں سے لایا تھا۔ اب وقت آگیا ہے ہر شہری کو فائلر بننا پڑے گا۔ وزیر خزانہ نے جن باتوں کا اشارہ دیا ہے آنے والے دنوں میں نان فائلر کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ عسکری قیادت کی کاوشوں سے آنے والے دنوں میں سرمایہ کاری کے امکانات ہیں۔ جیسا کہ سعودی عرب نے دو سو ارب ڈالر سے زائد کے مختلف معاہدے کئے ہیں۔ اسی طرح چین کے ساتھ نئے نئے معاہدے ہو رہے ہیں جس سے امید پیدا ہو گئی ہے ملک پر قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے میں خاصی مدد ملے گی۔ مملکت خداداد قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ملک سے سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہو تو امید کی جا سکتی ہے ہمارے ہاں سرمایہ کاری کے زیادہ سے زیادہ امکانات ہو سکتے ہیں۔ حکومت اور عسکری قیادت کو مملکت سے عدم استحکام کی صورت حال کے خاتمے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس مقصد کے لئے حکومت کو سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے بیرونی سرمایہ کاری کے لئے داخلی امن و امان کی صورت حال تسلی بخش کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے آئے روز دہشت گردی کے واقعات سے بیرونی سرمایہ کار یہاں آنے سے گریزاں ہیں۔ چین جو ہمارا ہر مشکل کی گھڑی میں دوست ہے آئے روز چینی انجینئرز کی ہلاکت سے سرمایہ کار غیر محفوظ ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے سیاسی عدم استحکام کے ساتھ داخلی امن و امان کی صورت حال پر پوری توجہ دی جائے تو مملکت میں جس طرح کے قدرتی وسائل کی بھرمار ہے سرمایہ کاری کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ کئی سال پہلے بلوچستان میں زیارت کے مقام پر غیر ملکی سیاحوں کی بھرمار ہوا کرتی تھی جو صنوبر کے پھولوں دل کش خوشبو سے لطف اندوز ہوتے تھے لیکن دہشت گردی کے پے در پے واقعات سے غیر ملکی سیاحوں نے رخ موڑ لیا ہے۔ ہمسایہ ملکوں پر نظر ڈالیں تو جیتنا ہمارا ملک مقروض ہے کوئی ملک نہیں ہے۔ بھارت نے آئی ایم ایف سے جان چھڑا لی ہے ایران ویسے تیل کی دولت سے مالا مال ہے اسے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی چنداں ضرورت نہیں۔ جہاں تک افغانستان کی بات ہے جنگ و جدل میں رہنے کے باوجود وہ ہمارے مقابلے میں کم مقروض ہے۔ پاکستان کے مقروض ہونے کی بڑی وجہ بڑے بڑے لوگ سرمایہ ملک سے باہر لے گئے ہیں وہ اپنے سرمایہ کو مملکت میں غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ عسکری قیادت کی کوششوں سے پاک افغان سرحد پر سمگلنگ میں کچھ کمی آئی ہے اس کے باوجود ہمیں اس سلسلے میں بہت زیادہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمارے سیاست دان جنہوں نے ملک سے باہر بڑی بڑی جائیدادیں بنائی ہیں اور سوئس بنکوں میں ڈالر رکھے ہیں وہ وطن واپس لے آئیں تو معاشی حالات سازگار ہو سکتے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے ٹیکس نادہندگان کے خلاف جن اقدامات کا عندیہ دیا ہے حکومت نے ان پر پوری قوت سے عمل کیا تو یہ بات یقینی ہے مملکت کا ہر وہ شہری جس کی آمدن ٹیکس نیٹ میں آتی ہے فائلر بن جائے گا جس سے کم از کم قومی بنکوں سے لیا جانے والے قرض میں کمی واقع ہوگی۔ معاشی حالت کو مستحکم کرنے کے لئے ہمیں زیادہ سے زیادہ برآمد پر توجہ دینی چاہیے اور اوورسیز پاکستانیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دے کر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنا چاہیے۔ٓ