تازہ ترینخبریںسیاسیاتپاکستان

معاشی بدحالی کے باوجود حکمرانوں اور جرنیلوں کی شاہ خرچیاں جاری ہیں

پاکستان تیزی سے معاشی تباہی کے دہانے کی طرف بڑھ رہا ہے لیکن حکمران اشرافیہ اپنی شاہ خرچیوں سے باز نہیں آ رہی۔

جب پی ڈی ایم کی پہلی حکومت معرض وجود میں آئی، اس وقت بھی شہباز شریف اور ان کے حواریوں نے بیرونی دوروں کے ریکارڈ قائم کیے تھے۔ اس دوران بھی وہ مبینہ طور پر اپنی ذاتی ملاقاتوں اور معاملات کے لیے لندن جاتے رہے، جس کا بوجھ سرکاری خزانے کو ہی برداشت کرنا پڑا۔ اگر ان کے ان تابڑ توڑ دوروں کی وجہ سے پاکستان کو کوئی معاشی استحکام ملا ہوتا، تو آج معاشی حالت اتنی دگرگوں نہ ہوتی۔

اس کے علاوہ موصوف نے انتہائی بے دردی سے اپنی ذاتی تشہیر پر بے پناہ پیسہ اشتہارات کی صورت میں خرچ کیا اور کئی میڈیا ہاؤسز کو اشتہارات میں نہلایا گیا۔ مختلف سرکاری اشتہاری مواد میں اپنی تصویریں اس کے علاوہ ہیں۔

شہباز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بھی صورت حال یہ ہے کہ وہ کشکول لے کر مختلف ممالک کی طرف جا رہے ہیں اور سیر سپاٹے بھی کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی شہباز شریف نے اپنی شاخ خرچیوں کی روایت کو برقرار رکھا اور مختصر سے وقت میں اچھے خاصے دورے کیے۔

اقوام متحدہ کے اجلاس کے لیے ناصرف خود شاہانہ طریقے سے گئے بلکہ وزرا اور قریبی افراد کی ایک فوج بھی لے کر گئے، جن کے لیے کسی سستی جگہ قیام یا سستی گاڑیوں میں سفر ناقابل تصور تھا۔

پہلے بھی قومی خزانے کی بربادی کے باوجود شہباز شریف کی حکومت نے اراکین پارلیمنٹ کے فنڈز کے نام پر خوب پیسہ لٹایا اور اب بھی سوشل سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت اپنی پارٹی کے لوگوں کو نوازنے کا سلسلہ جاری ہے۔ نون لیگ کی طرف سے موٹر ویز اور سڑکوں کے پروگراموں نے صرف ایک قلیل اشرافیہ کو فائدہ پہنچایا اور اب بھی پروجیکٹس ایسی بنیادوں پہ بنائے جاتے ہیں جس کو بہانے کے طور پر استعمال کر کے اپنے منظور نظر لوگوں کو کنٹریکٹس دیے جائیں۔

ایک طرف سرکاری اداروں سے غریب ملازمین کو نکالنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ دوسری طرف ریٹائرڈ فوجی افسران کو بھاری تنخواہوں اور پرکشش مراعات پر سرکاری اداروں میں بھرا جا رہا ہے۔ کفایت شعاری کے دعوے بھی ہیں اور معاشی کونسلز بھی بنائی جا رہی ہیں، جن کے اجلاسوں کے لیے ہی کرڑوں روپیہ شاید لگایا جاتا ہو۔

کسی بھی ملک کا کوئی بھی سفیر یا کوئی اعلیٰ عہدے دار جب پاکستان آتا ہے، تو حکومت ان کی وزیر اعظم یا دوسرے عہدیداروں سے ملاقاتوں کے لیے پروٹو کول اور دوسری مدوں میں اچھا خاصا پیسہ خرچ کرتی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ پھر یہ غیر ملکی عہدیدار فوجی افسران سے بھی ملاقاتیں کرتے ہیں، جن کی نہ کوئی منطق ہے نہ ضرورت۔ سوائے اس کے کہ اس کی وجہ سے غریب عوام کی کمائی سے مزید بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا جائے۔

اسی طرح اگر کوئی کھلاڑی کہیں پر کوئی انعام جیت لیتا ہے، تو پہلے وزیر اعظم اور وزرا اپنی تشہیری مہم چلاتے ہیں۔ ان کے اعزاز میں ظہرانے، عصرانے یا عشائیے دیے جاتے ہیں اور پھر یہی عمل آرمی چیف صاحب بھی سرانجام دیتے ہیں۔

سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کا دفتر بھی آرمی چیف کے دفتر کے قریب ہوتا ہے لیکن ان پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ بھی سرکاری خزانے سے ایک الگ تقریب ان کھلاڑیوں کے لیے منعقد کریں۔ اس کے علاوہ آرمی چیف جو مولویوں، تاجروں اور طالب علموں سے ملاقاتیں کرتے ہیں، وہ اس کے علاوہ ہیں اور ان اخراجات کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ اندازہ لگانا چاہیں تو یاد کریں کہ جنرل مشرف کے دور میں پورے ملک سے سینکڑوں مولویوں کو جہاز کے ٹکٹس دیے گئے اور سرکاری طور پر انہیں ٹھہرایا بھی گیا۔ اگر ایک ٹکٹ اس وقت 20 ہزار کا بھی تھا تو صرف 100 مولویوں کے ٹکٹس کو ہی ضرب دے کر دیکھ لیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے تو کفایت شعاری کے فلسفے کا اطلاق یہاں کیوں نہیں ہوتا؟

صرف وفاقی حکومت ہی نہیں جو بے رحمانہ انداز میں سرکاری خزانے سے پیسے لٹا رہی ہے بلکہ مریم نواز شریف کی حکومت بھی فلاحی پروگراموں میں ذاتی تشہیر کے لیے اشتہارات جاری کر رہی ہے۔ اس میں مریم نواز شریف اور دوسرے لوگوں کی تصاویر لگائی جا رہی ہیں۔

اگر مریم نواز شریف جاتی عمرہ گرا کر وہاں پر اپنے پیسوں سے اسپتال بناتی ہیں یا گلبرگ میں اپنے آبائی گھر کو کسی اسپتال یا سکول میں تبدیل کرتی ہیں، تو ان کی تصویریں لگنی چاہئیں لیکن اگر وہ سرکاری خزانے سے عوام کے لیے کوئی سکول، کوئی اسپتال یا کوئی سڑک بناتی ہیں، تو ان کارڈز یا پوسٹرز پر ان کی تصویر کیوں ہونی چاہیے؟ کیا ان رنگ برنگی تصاویر پر لاکھوں یا کروڑوں روپے خرچ نہیں ہوتے؟ کیا یہ سرکاری خزانے کی لوٹ مار نہیں ہے؟

اگر حکومت واقعی چاہتی ہے کہ پاکستان کو معاشی دلدل سے نکالا جائے، تو دفاع کے بجٹ کو 70 فیصد سے زیادہ کم کیا جائے، تمام آئی پی پیز کو قومی ملکیت میں لیا جائے، سرکاری اداروں سے تمام فوجی افسران کو ہٹا کر نوجوانوں کو ملازمتیں دی جائیں۔ اگر فوجی افسران کو سویلین اداروں میں کام کرنے کا شوق ہے تو مقابلے کا امتحان دیں اور اس میں میرٹ کے مطابق اپنی تقرری کا مطالبہ کریں۔

سوشل سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے فنڈز کو صوبوں تک منتقل کیا جائے اور صوبوں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ بلدیاتی اداروں کو مضبوط کر کے فنڈز کو ان تک پہنچائیں گے تاکہ بلدیاتی حکومتیں ان مسائل کو حل کریں، جو عوام کو درپیش ہیں۔

ملک میں 9 کروڑ سے زیادہ لوگ غربت میں رہ رہے ہیں۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ 4 کروڑ سے زیادہ بچوں کا قد غذائی قلت کی وجہ سے نہیں بڑھے گا۔ پاکستان میں خواتین کی ایک کثیر تعداد بھی غذائی قلت کا شکار ہے۔ ملک کی 70 فیصد سے زیادہ آبادی کو مناسب رہائش دستیاب نہیں ہے۔ ایسے موقع پر حکمرانوں اور فوجی افسران کی عیاشیاں بے حسی کی انتہا کے علاوہ کچھ نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button