پیرِ طریقت حضرت پیر سید قاسم شاہ چشتی صابری

ضیاء الحق سرحدی
برصغیر میں اسلام کی ترویج و ترقی میں بزرگان دین کا کردار بڑا اہم ہے، جن کی بدولت یہ خطہ اسلام کی لازوال دولت سے مالا مال ہوا ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کی کرم نوازی اور سرور کائنات حضرت محمد ﷺ کا صدقہ ہے کہ اس سر زمین کو اولیائے کرام اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے ما لا مال کیا ہوا ہے۔ ان عظیم ہستیوں کا تذکرہ اس مختصر مضمون میں تحریر کر نا ناچیز فقیر اور خاکپائے مرشد کے بس کی بات نہیں، یہ میری خوش نصیبی ہے اور میرے پیر و مرشد حق با با جی دامت بر کاتہم کی مجھ پر نظر کرم ہے کہ مجھے آج یہ سعادت نصیب ہو رہی ہے کہ صاحب عرس کے بارے میں کچھ تحریر کروں۔
حدیث شریف ہے کہ حضور نبی اکرم آنحضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے فرمایا: ’’ جس نے مومن کی تاریخ لکھی ( یعنی حالات قلمبند کئے ) تو یہ ایسا ہی ہے جیسے اس نے اسے زندہ کر دیا‘‘۔
دراصل اللہ کے ان نیک ولیوں نے کفر کے خلاف جہاد اکبر کیا، اللہ کے ان مجاہدوں، غازیوں اور پر اسرار بندوں کے سامنے ہر رکاوٹ ہٹ گئی اور ہر دور کے بادشاہ و شہنشاہ بھی ان بوریا نشینوں کے آگے جھک گئے ،کروڑوں انسانوں کو جو کفر کی جہالتوں اور اندھیروںمیں بھٹک رہے تھے ان کو دین اسلام کی روشنی دکھائی، اور دائرہ اسلام میں داخل کیااللہ تعالیٰ کے ان بزرگانِ دین کے ناموں میں ایک نام حضرت پیر سید قاسم شاہ چشتی صابری بھی ہے یہ غالباً 1964۔65کا ذکر ہے کہ میں پہلی مرتبہ سرائے حاجی نور الٰہی مرحوم کی (AA )نامی فرم واقع نمک منڈی پشاور میں ان کے دیدار سے فیض یاب ہوا اور پہلی ہی ملاقات میں انہوں نے اپنے حُسنِ سلوک سے نہایت متاثر کیا اور آج 52سالوں سے نبی کریم ﷺ کے صدقے اور پیر و مرشدی شہنشاہ معرفت حضرت پیر سید مستان شاہ سر کار حق با با چشتی صابری دامت بر کاتہم کی فیضان نظر سے فیض یاب ہو رہا ہوں، پیر طریقت حضرت پیر سید قاسم شاہ چشتی صابری شیخ المشائخ پیر طریقت حضرت سید عبد الرحمان شاہ با با چشتی صابری کے فرزند ارجمند تھے آپ کے والد بزرگوار حضرت پیر سید عبدالرحمان شاہ بابا چشتی صابری جلیل القدر بزرگ تھے جو تصوف ،طریقت اور روحانیت کے اعلیٰ و رافع مرتبہ پر فائز تھے اور اپنے وقت کے غوث الزمان اور علماء و مشائخِ سرحد کہلائے پشاور شہر کے ایک مضافاتی گائوں تمبر پورہ شریف میں ایک صدی قبل رشد و ہدایت کی جو قندیل روشن ہوئی اس کی ضیاء پاشیوں سے زمانہ آج تک منور ہورہا ہے اس سادات گھرانہ کے سرخیل حضرت سید محمد شاہ چشتی صابری نے غیر منقسم ہندوستان کے شہر مرادآباد کے آفتاب ولایت صوفی با صفا حضرت محمد حسین چشتی صابری کے دست حق پرست پر بیعت کی مرشد کامل کی نگاہ دوررس نے آپ کے اندر تلاش منزل کی جستجو کو پرکھ لیا اور نہایت ہی قلیل عرصہ میں منازل سلوک طے کرا کر خرقہ خلافت اور اجازت بیعت سے نواز دیا اور یوں اس خانوادہ عالیہ میں سلسلہ چشتیہ صابریہ کا ظہور ہوا، طریقت کی عظیم الشان دنیا میں روحانی سلسلہ خاندان چشتیہ صابریہ کو منفرد مقام حاصل ہے، حضرت سید محمد شاہ چشتی صابری کا شمار اپنے زمانہ کے کاملین میں ہوتا ہے آن کی آن میں دل کی کایا پلٹ دینا آپ کا اعجاز تھا ۔
بقول شاعر:
نگاہ ولی میں وہ تا ثیر دیکھی۔
بدلتی زمانے کی تقدیر دیکھی
ایک عرصہ تک حضرت سید محمد شاہ چشتی صابری مخلوقِ خدا کو راہ ہدایت کی تلقین کرتے رہتے یہ انتہائی صاحبِ کرامت بزرگ تھے اورہمیشہ خوارق عادات سے اجتناب کرتے رہے آپ کی وفات کے بعد آپ کے فرزند حضرت سید عبدالرحمان شاہ باباچشتی صابری نے آپ کے مشن کو آگے بڑھایا آپ بوریا نشین بزرگ تھے سادگی کو اپنا شعار بنائے رکھااور نخوت کو ہمیشہ برا سمجھا کھیتی باڑی کو بطور پیشہ اپنایا لیکن حلقہ ارادت سے منسلک افراد کی روحانی اصلاح پر ہمیشہ بھرپور توجہ دی روحانیت میں آپ کے قد کاٹھ کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ آپ کے تربیت یافتہ مریدوں اور خلفاء کی زندگیاں بھی خالص اسلامی سانچے میں ڈھلی ہوئی تھیں سیکڑوں مایوسی العلاج مریضوں کو آپ کی روحانی نگاہ سے شفائے کاملہ نصیب ہوئی آپ کے فرزند حضرت پیر سید قاسم شاہ چشتی صابری جب مسند ولایت پر جلوہ افروز ہوئے تو خلفاء اور عقیدت مندوں کی ایک خاصی جماعت تیار ہو چکی تھی چنانچہ آپ اپنے والد گرامی کے طریقے کو خودبخود اپناتے ہوئے سلسلہ چشتیہ صابریہ کے فروغ کو اولیت دی آپ انتہائی حلیم الطبع اور خوش اخلاق بزرگ تھے عقیدت مندوں میں یوں گھل مل بیٹھتے کہ من و تو کا فرق باقی نہ رہتا ہر ملاقاتی سے اس طرح پیش آتے کہ ملنے والے کو یہ گمان ہوتا کہ شاید حضرت صاحب سب سے زیادہ اسی پر ملتفت ہیں اپنے اسلاف کی طرح آپ بھی صاحب نگاہ بزرگ تھے آپ کی زبان مبارک سے جو دعا نکلتی حرف بہ حرف پوری ہوتی گفتہ رو گفتہ اللہ بود سب اوقات آپ کے عقیدت مندوں کے احوال سے آگاہی ہوتی آپ اخفائے راز میں احتیاط اشاروں اور کنایوں کی زبان میں بات کرتے جن کو صرف شناسائے رمز ہی جان سکتے آپ کے والد بزرگوار حضرت پیر سید عبد الرحمان شاہ بابا تصوف کے چار طریقوں کے مالک تھے آپ ان چاروں طریقوں سے فیض عطا کرتے تھے جن کا شمار صاحب طریقت اور صاحب کشف بزرگوں میں ہو تا ہے حضرت پیر سید قاسم شاہ چشتی صابری کے دا دا کا اسم شریف حضرت پیر سید محمد شاہ اور پر دادا کا اسم شریف حضرت پیر سید غریب شاہ تھا آپ کا سلسلہ نسب چالیس واسطوں سے امام المتقین سید الشہداء مظلوم کر بلا سیدنا امام عالی مقام حضرت امام حسین سے ہوتا ہوا امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب شیر خدا سے جا ملتا ہے ،جبکہ شجرہ طریقت بھی سرتاج اولیاء زہد الانبیاء حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر سے ہو کر امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے گو یا آپ حسینی سید ہیں ، حضرت پیر سید قاسم شاہ چشتی صابری خانوادہ چشتیہ صابریہ تمبر پورہ شریف ( ناصر پور ریلوے سٹیشن جی ٹی روڈپشاور سے دس بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہی )کے بزرگ تھے تصوف و طریقت کی عظیم الشان دنیا میں تمبر پورہ شریف کے مقتدر ،روحانی سلسلہ خاندان چشتیہ صابریہ کو منفرد مقام حاصل ہے اللہ تعالیٰ نے اس خانوادے کو ایسی بے مثال برگزیدہ ہستیوں سے نوازا جنھوں نے اسلام اور شریعت کے فروغ کے لئے کارہائے نمایاں سر انجام دیئے اور اپنے روحانی فیوض و کرامات کی برکت سے ایک عالم کو تصوف کی روشنی سے منور کیا تمبر پورہ شریف کی ان مبارک ہستیوں کے دست حق پرست پر ہزاروں بے دین دولت ایمان و یقین سے بہرہ مند اور اپنی دنیاوی عاقبت سنوارنے کے لئے حلقہ اسلام میں شامل ہوئے پیر سید قاسم شاہ چشتی صابری کی ولادت با سعادت 14 اپریل 1914ء کو صاحب کرامت ولی اللہ حضرت پیر سید عبد الرحمان شاہ با با کے ہاں ہوئی آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں تمبرپورہ سے حاصل کی حضرت پیر سید قاسم شاہ کی زندگی اتباع رسول ﷺ کی عملی نمونہ تھی آپ انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے اور جوبات آپ کی زبان مبارک سے نکلتی تھی اللہ تعالیٰ اسے پورا فر ماتے اس کے با وجود آپ نے کبھی بھی اپنی ذات کو دنیا کے سامنے کسی غیر معمولی حیثیت میں پیش کر نا مناسب نہیں سمجھا آپ عشق حقیقی سے سر شار تھے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ عشق کی انتہا نہ تھی آپ فر ما تے تھے کہ تسبیح پھیرنا یا تعداد مقرر کر کے ذکر کر نا اللہ کے ساتھ حساب کتاب کر نا ہے آپ نیاز مندوں کو فر ما تے کہ اگر تم اللہ کی عبادت حساب کتاب کے ساتھ کر تے ہو تو وہ بھی تم سے حسا ب کتاب کرے گا آپ دنیاوی شہرت کے خلاف تھے شریعت اور تصوف ومعرفت کے مختلف مو ضوعات پر اظہار خیال فر ما تے، آپ مریدان کے ذاتی حالات زندگی سے اپنے آپ کو با خبر رکھتے اور مریدین بھی آپ کے سامنے اپنے مسائل و مشکلات بیان کر تے آپ مریدین کے ساتھ نہایت خندہ پیشانی سے پیش آتے اور ہر وقت آپ کا روشن چہرہ مریدین و تابعین کے لئے اطمینان قلب اور تحفظ کا باعث ہو تا آپ پیر طریقت بھی تھے اور عالم با عمل بھی تھے آپ آستانہ عالیہ تمبر پورہ شریف کی جامع مسجد شیخ المشائخ حضرت پیر سید عبد الرحمان شاہ با با چشتی صابری میں خطابت کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے اور مذہبی مو ضو عات پر آپ تقریروں سے علم و فضل اور معرفت الہیٰ سے لوگوں کو آگاہ کر تے رہے آپ درویش تھے اور درویش کی باتیں جا ننے والے ہی جانتے ہیں اوریاپھر آسمان والا ۔آپ محفل سماع اور عارفانہ کلام کو پسند فر ما تے تھے کہ یہ اولیاء چشت کی محبوب روایت ہے کہ سماع فیضان حق ہے آپ کی دوصاحبزادے پیر سیدمستان شاہ سر کار حق با با چشتی صابری مد ظلہ العالیٰ اور پیر سید عالم شاہ المعروف با بو جان سر کار ہیں جن میں سے با بو جان سر کار اس دنیا فانی سے پرد ہ فر ما گئے ہیں اور آپ کے بڑے فرزند زینت الفقراء پیر و مرشدی حضرت پیر سیدمستان شاہ سر کار حق با با چشتی صابری دامت بر کاتہم مو جو دہ سجادہ نشین آستانہ عالیہ تمبر پورہ شریف اپنے ذہد و تقویٰ کے لئے مشہور ہیں جوکہ موجود ہ وقت کے عظیم روحانی پیشوا ہیں آپ صاحب جلال اور صاحب جمال بزرگ ہیں جب طبیعت پر جلال کا غلبہ ہوتا ہے تو بڑے سے بڑا عہدیدار بلکہ صوبے کا وزیراعلیٰ اور وفاقی و صوبائی وزراء بھی آپ کے قریب آنے سے لرزاہ ہوتے ہیں لیکن جب طبیعت مائل جمال ہوتی ہے تو شفقت کی انتہافرما دیتے ہیں اور جودوسخا کی بارش کر دیتے ہیں کمسن بچوں سے بہت پیار اور شفقت فرماتے ہیں اور ان پر نقد پیسے اور کھانے پینے کی اشیاء لٹاتے رہتے ہیں اور کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے ہیں۔
الہیٰ تا بہ ابد آستان یا ر رہے
یہ آسرا ہے غریبوں کا برقرار رہے
آپ کی با با فرید کے ساتھ نسبت خاص نے صوبہ سرحد میں رنگ فریدی میں ایک ایسا روح پرور نکھار اُبھارا ہے کہ سرحد میں یہ رنگ پھیلتا ہی جا رہا ہے اور عاشقانِ فرید کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے حق با با ایک سچے عاشق رسول ﷺ اور عقیدت مند محبت کے سمندر میں ڈوبے ہوئے عاشق فرید ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی خلق خدا کو راہ حق دکھانے اور انہیں شریعت و طریقت کے اسرار ورموز سے آگاہ کر نے کی لئے وقف کر رکھی ہے حضرت پیر سید مستان شاہ سر کار حق با با مد ظلہ العالی کے دو صاحبزادے مولانا سید سجاد بادشاہ اور سید عنایت علی شاہ با دشاہ المعروف موتیاں والی سر کار جبکہ با بو جان سر کار کے پانچ صاحبزادے سید جہان شاہ با دشاہ ، سید سکندر شاہ با دشاہ، سید کامل شاہ ، سید جمال شاہ او ر سید جلال شاہ ہیں ۔پیر سید قاسم شاہ سیرت و کردار میں نہایت خوش اندام اور خوش اخلاق تھے خانوادہ سادات سے تعلق ہو نے کی بناء پر سخاوت ، زہد ، شرافت علم و دانش اور نیک عادات کے عناصر آپ کے طبعی اخلاقیات میں شامل تھے متو کلانہ زندگی بسر کر تے تھے آپ کبھی بھی کسی کے دست نگر نہ ہوتے بلکہ فیاضی و سخاوت اور دریا دلی میں عظیم شہرت رکھتے تھے آستانہ عالیہ تمبر پورہ شریف کی اسی بر گزیدہ ہستی نے 62سال کی عمر پائی اور 13ربیع الثانی بمطابق 1976ء کو آسودہ خاک ہوئے ہزاروں کی تعداد میں مریدین اور عشاق جنازہ میں شریک تھے اور ہر کوئی غمزدہ و گریہ بار تھا زائرین کے لئے مزار مبارک تمبر پورہ شریف کے قریب ایک بلند ٹیلے پر مرجع خاص و عام ہے جہاں سلطان المشائخ حضرت پیر سید محمد شاہ چشتی صابری ، شیخ المشائخ پیر طریقت حضرت پیر سید عبد الرحمان شاہ با با چشتی صابری ، زینت الفقراء صاحب تصوف حضرت پیر سید مستان شاہ سر کار حق با با چشتی صابری کے علاوہ خانوادہ تمبر پورہ شریف کی بعض دوسری بزرگ ہستیوں کے مزار ات بھی موجود ہیں ہر سال 13ربیع الثانی کو عرس مبارک منا یا جاتا ہے ختم خواجگان ہو تا ہے شجرہ شریف چشتیہ صابریہ پڑھا جا تا ہے شرینی و لنگر تقسیم ہو تا ہے ،محفل سماع میں عارفانہ کلام پیش کیا جا تا ہے تمبر پورہ شریف میں یہ تقریب روایتی اہمیت کی حامل ہو تی ہے جس میں پشاور کے علاوہ دوسرے شہروں کے عقیدت مند گلہائے عقیدت پیش کر کے روحانی کیف و سرور کے ساتھ دنیا و آخرت کی سر بلندی و سر فرازی کی دولت سے ما لا مال ہو کر واپس جا تے ہیں تمبر پورہ شریف کی ان بر گزیدہ ہستیوں کی وجہ سے علاقہ میں چشتیہ صابریہ سلسلہ خوب پھلا پھولا یہ آپ ہی کی فیضان نظر اور کرم نظر ہے کہ یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے ۔
ولی اللہ د ے مرد ے ناہیں کر د ے پردہ پوشی
کی ہویا جے دنیا اتوں ٹر گئے نال خاموشی