مسلم دنیا فلسطین کے حق میں کھڑی ہو سکے گی؟

قادر خان یوسف زئی
رات کے سناٹا ہو یا دن کی روشنی غزہ کی مٹی، خون کی سرخی اور آسمان پر اسرائیلی بمباری کی چمک، فلسطین کی سرزمین پر چھائے اندھیرے کی گواہی دیتی ہے۔ معصوم فلسطینی بچے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں، جیسے وہاں سے کوئی مدد آئے گی۔ ان کی دعائیں، ان کے آنسو، ان کی چیخیں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ مہذب دنیا، جو ہمیشہ سے ’’ انسانی حقوق‘‘ کی علمبردار بنی بیٹھی ہے، ان مظلوم فلسطینیوں کو اپنی سیاست اور مفادات کی بھینٹ چڑھا چکی ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں پر جو بربریت مسلط کیے ہوئے ہے، اسے نسل کشی کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ اور المیہ یہ ہے کہ دنیا کی مہذب اقوام، جن میں امریکہ اور برطانیہ پیش پیش ہیں، کھلم کھلا اسرائیل کی حمایت کر رہی ہیں۔ فلسطینی عوام جو اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، ان کے ساتھ عالمی بے حسی نے مظلومیت کے اس عظیم المیے کو اور گہرا کر دیا ہے۔لیکن اصل سوال یہ ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک، خاص طور پر مسلم اکثریتی ممالک، کیوں خاموش ہیں؟ کیا وہ واقعی مجبور ہیں یا پھر ان کی خاموشی کسی اور حقیقت کی غمازی کرتی ہے؟ یہ سوالات جب ذہن میں گردش کرتے ہیں تو ان کا جواب تلاش کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
جب اسرائیل کے میزائل فلسطینیوں کے گھروں پر گرتے ہیں، جب غزہ کی سرزمین آگ و خون میں بدل جاتی ہے، تب مسلم ممالک کی طرف سے کوئی واضح اور موثر ردعمل کیوں نہیں آتا؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر درد مند دل میں اٹھتا ہے۔ مسلمان ممالک کی خاموشی، ان کی بے عملی اور ان کے بیانات میں شدت کی کمی اس بات کا ثبوت ہیں کہ فلسطینی کاز اب صرف جذباتی حمایت تک محدود رہ گیا ہے، عملی اقدامات کا فقدان صاف نظر آتا ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک کا رویہ سب سے زیادہ توجہ طلب ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جن کے پاس بے پناہ مالی وسائل ہیں، جو دنیا کے بڑے بڑے عالمی اداروں میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں، لیکن فلسطین کے مسئلے پر ان کی جانب سے عملی اقدام کا فقدان ہے۔ اگرچہ انہوںنے ہمیشہ فلسطین کی زبانی حمایت کی ہے، لیکن حالیہ برسوں میں ان کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھانا ایک نئی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے مسلم اکثریتی ممالک کاخاموش مفاہمت، شاید ان کے اقتصادی اور سیاسی مفادات کا نتیجہ ہے۔
ایران کو خطے میں اسرائیل کا روایتی حریف سمجھا جاتا ہے، اور اس تناظر میں ایرانی حکمت عملی کچھ اور ہوتی ہے۔ خطے کی قیادت کی جنگ اور داخلی سیاسی استحکام کے مسائل نے خطے کے دیگر ممالک کو اسرائیل کے خلاف کھل کر سامنے آنے سے روکا ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے مسلم اکثریتی ملک مصر، جو کہ جغرافیائی لحاظ سے فلسطین کے سب سے قریب ہے، نے بھی فلسطینی کاز کے لیے عملی طور پر کچھ خاص نہیں کیا۔ اگرچہ مصر کا میڈیا اور عوامی حلقے اسرائیل کے خلاف کھڑے ہیں، لیکن حکومتی سطح پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مصر کے لیے بھی اقتصادی امداد، عالمی قرضے اور بین الاقوامی سیاسی معاملات میں امریکا کی حمایت اہم ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ کسی کھلی محاذ آرائی کا مطلب مصر کے لیے مزید داخلی اور خارجی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا، جو کہ اس کے لیے کسی صورت بھی سود مند نہیں۔ ثالثی کی کوششوں میں مصر پر اسرائیل کا دبائو واضح نظر آتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دوستی کی جڑیں مضبوط کرنے والے اس ملک نے اپنے فروعی مفادات کو ترجیح دی ہے۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان ہمیشہ فلسطینی کاز کے حمایتی کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کے خلاف کڑے الفاظ استعمال کیے ہیں اور عالمی پلیٹ فارم پر فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ لیکن کیا اس سے فلسطینیوں کی حالت بدل گئی؟ بدقسمتی سے نہیں۔ اگرچہ ترکیہ نے اسرائیل پر تنقید کی ہے، لیکن اقتصادی اور سفارتی تعلقات اب بھی برقرار ہیں۔ ترکیہ کے داخلی مسائل، خاص طور پر اقتصادی بحران اور دیگر سیاسی چیلنجز، نے اسے فلسطین کے لیے عملی اقدام سے دور رکھا ہے۔ لبنان پر بھی اسرائیلی جارحیت کے بعد بھی ترکیہ عملی طور پر تنازع میں شامل نہیں ہونا چاہتا ۔
پاکستان بھی فلسطین کے لیے ہمیشہ آواز اٹھاتا رہا ہے۔ پاکستانی عوام کا دل فلسطینیوں کے لیے دھڑکتا ہے، لیکن عالمی سیاست اور وسائل کی کمی کی وجہ سے پاکستان فلسطین کے لیے کچھ زیادہ کر نہیں سکا۔ پاکستان کی داخلی مشکلات، جن میں اقتصادی بحران، دہشت گردی، اور سیاسی عدم استحکام شامل ہیں، نے اسے عالمی فورمز پر فلسطین کے لیے عملی اقدامات سے روکے رکھا ہے۔ پاکستان کے لیے ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کے زیر اثر ہی، خاص طور پر امریکی دبائو سے نہیں نکل سکتا۔ امریکہ سے اقتصادی امداد اور سیاسی تعاون کے بغیر پاکستان کی حالت مزید خراب ہو سکتی ہے، اور اس وجہ سے پاکستان کو اپنی پوزیشن پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ ماسوائے آل پارٹیز کانفرنس کروانے سے ظاہری یکجہتی کا پیغام تو جائے گا لیکن اسرائیل کو اس سے بھلا کیا فرق پڑتا ہے۔
فلسطین کی موجودہ حالت دنیا کی تاریخ میں مسلم دنیا کی ناکامی کی بھی ایک داستان ہے۔ اگر مسلم ممالک، جو کہ عالمی سطح پر ایک بڑی طاقت بن سکتے تھے، متحد ہو جاتے اور ایک موثر حکمت عملی اپناتے، تو شاید فلسطینی عوام کو آج کے اس بدترین ظلم کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ مسلم ممالک کی آپس کی اختلافات اور داخلی مشکلات نے انہیں کمزور کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف فلسطین کا خون بہہ رہا ہے، وہیں دوسری طرف مسلم ممالک اپنے مفادات کے تحفظ میں مصروف ہیں۔ ان کی معاشی مجبوریاں، سیاسی دبائو اور عالمی طاقتوں کی مداخلت نے انہیں فلسطین کے لیے حقیقی طور پر کچھ کرنے سے روک دیا ہے۔
فلسطینی عوام کی مزاحمت بے شک مضبوط ہے، لیکن انہیں عالمی حمایت کی ضرورت ہے۔ اگر مسلم دنیا متحد ہو کر فلسطین کے مسئلے پر ایک مثر حکمت عملی اپنائے اور عملی اقدامات کرے، تو شاید فلسطینیوں کو انصاف مل سکے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلم ممالک اپنے اندرونی مسائل سے نکل کر ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھریں۔ اسرائیل کی بربریت جاری ہے، فلسطینی عوام اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، اور دنیا کی بڑی طاقتیں تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ لیکن فلسطین کے لیے امید کی کرن تبھی ابھرے گی جب مسلم دنیا اپنی خاموشی توڑ کر متحد ہو جائے، اور عالمی سطح پر فلسطینی کاز کے لیے عملی اقدامات کرے۔ یہ سوال ابھی بھی موجود ہے۔ کیا مسلم دنیا فلسطین کے حق میں کھڑی ہو سکے گی؟ یا پھر تاریخ میں فلسطینی عوام کی چیخیں ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائیں گی؟۔